ترکی میں عوامی طوفان
ہمارے ہاں ترکی کو خوشحال، سامراج مخالف اورمثالی ملک سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں...
ہمارے ہاں ترکی کو خوشحال، سامراج مخالف اورمثالی ملک سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ترکی کے حکمران اپنے آپ کو یورپین کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یورپی یونین کی رکنیت کے لیے درخواست بھی دے رکھی ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ یورپی یونین انھیں قبول کرنے پر اب تک آمادہ نہیں۔ مسئلہ کالے گورے یا عیسائی مسلم ہونے کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کی طرح ترکی سامراجی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں۔ ان کے خیال میں اس کا معاشی درجہ ادنیٰ ہے۔ جب کہ ترکی سامراج کے ساتھ دوستی میں پیش پیش ہے۔ اس وقت نیٹو افواج میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد بھی امریکی، جرمن، برطانیہ اور ترکی کی فوجیں محدود تعداد میں رہیں گی۔
بالواسطہ طور پر ترکی نے اسرائیل کا مددگار بننے کے لیے اپنے ملک میں جرمنی کو فوجی اڈہ دے رکھا ہے۔ جس کے خلاف گزشتہ دنوں عوام نے جرمنی کے فوجی اڈے پر ہلہ بول دیا۔ نتیجتاً درجنوں افراد زخمی اورگرفتار ہوئے۔ صرف صدر اور وزیر اعظم کی بیگمات کے سروں پر اسکارف باندھنے سے سارے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ بغیر اسکارف باندھے آسٹریلیا کی خاتون صدر جب اسکول کا دورہ کر رہی تھیں تو ان پر ایک طالب علم نے سینڈوچ دے مارا ، دوسرے دن جنوبی امریکا کا ایک ملک چلی کی خاتون صدر جب تعلیمی ادارے کا دورہ کر رہی تھیں تو ایک طالب علم نے ان کے منہ پر تھوک دیا۔ یہ عمل بلاوجہ نہیں تھا بلکہ چلی کے غلط تعلیمی نظام کے خلاف طلبہ کے اظہار نفرت کا ایک ذریعہ تھا۔ اسی طرح ترکی میں تفریحی باغ کو ایک سرمایہ دار خرید کر اسے مال اور شاپس بنانے کا ارادہ رکھتا تھا کہ عوام نے اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
دنیا کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی کئی برسوں سے چین میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مال اور شاپس بنانے کی غرض سے زمینوں کی خریداری اور قبضے کیے ہیں، جس کے خلاف کسان احتجاج کرتے آرہے ہیں۔ گزشتہ سال چینی کسانوں نے سوا لاکھ مظاہرے کیے۔ چند برس پہلے نندی گرام، مغربی بنگال، ہندوستان میں ملائیشیا کے ابراہیم نامی ایک سرمایہ دار نے جب مال اور شاپس بنانے کی غرض سے زمین خرید کر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو کسانوں نے شدید احتجاج کیا۔ علاقہ میدان جنگ نظر آرہا تھا۔ ایک جانب مقامی کسان اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان تھے تو دوسری جانب پولیس، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ۔ ترکی میں صرف عوامی اور قدیم تفریحی پارک کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ یہاں کے سرمایہ دار اپنے منافعے کی ہوس میں عوام کے تفریحی پارک کو پامال اور شاپس میں بدلنا چاہتے ہیں۔ عوام کا احتجاج صرف پارک کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ داری کے من مانے اور لوٹ مار کے خلاف بھی ہے۔ مظاہرین نے تقسیم اسکوائر پر قبضہ کیا ہوا تھا،ترکی کے 90 شہروں میں مظاہرے پھیل گئے۔
مظاہرے دوسرے ہفتے میں داخل، 5000 افراد زخمی ہوئے اور 900 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین کا مطالبہ اب پارک کی بحالی کے بجائے حکومت کے خاتمے کے مطالبے تک جا پہنچا۔ عام طور پر دنیا کے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ترکی میں اسلامی اقدار اور سیکولرازم کی لڑائی ہے۔جب کہ حقیقت میں کچھ اور ہے۔ اگر اسلامی اقدار کی بات ہے تو وہ یہ ہے ''اصلی ضرورت سے زائد چیزیں ضرورت مندوں کو دے دو'' (القرآن)۔ ترکی میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے برعکس وہاں ایک جانب ارب پتیوں میں اضافہ تو دوسری جانب غربت اور غریبی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یونان، اسپین، پرتگال، اٹلی، قبرص، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں بے روزگاری، مہنگائی اور طبقاتی تفریق پر کارکنان کی جانب سے جس بڑے پیمانے پر ردعمل ہورہا ہے،ترکی میں ایسا اس لیے نظر نہیں آیا کہ وہاں یورپی ممالک کی طرح جمہوری آزادیاں نہیں ہیں۔
جہاں تک سیکولرازم کی بات ہے تو سیکولرازم خود سرمایہ داری کی پیداوار ہے۔ نظام ہے سرمایہ داری، جو ترکی میں آب و تاب سے براجمان ہے۔ یہاں کی گروتھ ریٹ گھٹ کر 1 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کے حکمران بھی صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرنے کے بجائے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ کیے جارہے ہیں۔ ترکی کے حکمرانوں نے ملک سے افلاس، غربت اور بے روزگاری ختم کرنے کے بجائے، شام اور دیگر پڑوسی ممالک میں مداخلت میں اضافہ کردیا ہے اور اربوں ڈالر اس جنگ کی بھٹی میں جھونکتے جارہے ہیں جن کا عوام کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ عالمی سامراج خاص کر امریکا کی صنعتی پیداوار کا 70 فیصد اسلحے کی پیداوار ہے۔ ان اسلحوں کو استعمال کے لیے امریکا، فرانس اور برطانیہ کو میدان جنگ کی ضرورت ہے۔
کبھی ہندو چین، کبھی افریقہ اور کبھی مشرق وسطیٰ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے سامراجی طاقتوں نے پسماندہ ملکوں کو آپس میں لڑواکر اپنے اسلحے کے بیوپار میں اضافہ کروایا، مشرق وسطیٰ کے ممالک کی معاشی اور سماجی صورت حال کو کمزور کیا اور ان ملکوں میں اپنا فوجی اڈہ قائم کیا۔ پہلے عراق اور ایران کو لڑوایا پھر کویت اور عراق کو لڑوایا، پھر ایک مسلم ملک کے ذریعے یمن اور بحرین میں مسلح مداخلت کروائی اور اب شام اور ترکی کو لڑوا رہا ہے۔ ان جنگوں میں مشرق وسطیٰ کے لاکھوں عوام لقمہ اجل ہوئے جب کہ امریکا پر کوئی حملہ ہوا اور نہ جنگی اکھاڑہ بنا۔ مشرق وسطیٰ میں جنگوں کو بھڑکا کر امن کے نام پر نام نہاد صلح کروائی گئی اور اسی کی آڑ میں مشرق وسطیٰ میں لاکھوں امریکی فوجی مختلف فوجی اڈوں میں متعین ہوئے۔
اس وقت اسرائیل میں 6 لاکھ، سعودی عرب میں ڈیڑھ لاکھ، کویت میں ستر ہزار جب کہ مصر، اردن، قطر، بحرین اور عرب امارات میں لاکھوں امریکی فوجیں مقیم ہیں۔ ان پر ہونے والے اخراجات انھیں ملکوں سے وصول کیے جارہے ہیں۔یہ پیسے مشرق وسطیٰ کے عوام کی خون پسینے کی کمائی ہیں جسے امریکی فوجی اڈوں پر خرچ کرکے عوام کو بھوکا مارا جارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اسلحے کی پیداوار، جنگ، سرمایہ کا غلبہ اور لوٹ مار کے سوا عوام کو اور کچھ دے بھی نہیں سکتا۔ اس لیے مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیاء اور برصغیر کی سرحدوں کو توڑ کر ایک خطے میں تبدیل کرنا ہوگا۔ چونکہ یہاں کی ساری پیداوار یہاں کے بسنے والے سارے لوگوں کی ہے، انھیں کی محنت سے پیداوار ہوتی ہے، اس لیے اس پیداوار کے مالک بھی وہی ہیں۔ مل کر جب پیداوار کرتے ہیں تو ضرورت کے لحاظ سے سب کو پیداوار مساوی تقسیم کرنا چاہیے۔
پھر یہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہوگا جہاں کوئی ارب پتی ہوگا، کوئی محل ہوگا اور نہ کوئی بھوکا اور نہ کوئی جھگی میں رہائش پذیر ہوگا۔ خوش آمد اور جی حضوری سے کام نہیں لے گا۔ سب ایک دوسرے کو ساتھی کہہ کر مخاطب کریں گے۔ خطے کے سارے کام امداد باہمی کی بنیاد پر چلائے جائیں گے۔ ہر پڑھے لکھے فرد کا یہ فریضہ بنے گا کہ وہ ان پڑھوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے جب 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کی پابندی نہیں ہوگی تو لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی ہوگی پھر وہ خود اس بات کے خواہش مند ہوں گے کہ ان پڑھوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ اس لیے کہ اختیار اور اقتدار کو اگر زیادہ عرصہ قائم رکھا گیا تو اچھی طبیعت کے انسان میں بھی غرور، انسانیت اور عقل کل ہونے کی خباثتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔