ساحر لدھیانوی کی یادوں کی پرچھائیاں
ساحر لدھیانوی پر علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور مجازکا اثر کافی پڑا۔
جس طرح تاج محل محبت کی آنکھ سے ٹپکا ہوا وہ آنسو ہے جو وقت کے رخسار پر جم کر رہ گیا ہے، بالکل اسی طرح ساحر لدھیانوی کی تحریر کردہ ہر شاعری شعر و ادب کی پیشانی پر انمٹ ہوگئی ہے۔
گو ساحر نے اپنے کلام میں بڑی انکساری اور اختصار سے کام لیتے ہوئے خود کو پل دو پل کا شاعر کہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ پل دو پل کے نہیں ہر پل، ہر دور، ہر صدی اور ہر عہد کے شاعر رہیں گے۔ ان کی شاعری کی مقبولیت کی بنیادی وجہ ان کی شاعری میں عام لوگوں کا دکھ، یاس، محرومی اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔
بلاشبہ ان کی شاعری معاشرے کے محروم، مظلوم، پسے ہوئے غریب یاس کے صحرا میں چلتے ہوئے مسافروں کا نوحہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ساحر لدھیانوی کی شاعری میں محبت کی حلاوت، اس کی قدروقیمت اور اس کی تکلیف کا درد دہکتا، چمکتا اور دمکتا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کی شاعری کو جس نے بھی پڑھا یا سنا وہ ان کے فن کا گرویدہ ہوگیا اور وہ آج بھی نئی نسل کے مقبول ترین شاعر ہیں، ان کی شخصیت کا سحر، ان کی شاعری کا جادو اور ان کی رومانوی طبیعت سے زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد کو چھوتی نظر آتی ہیں۔
مہندر چوہدری، ایشرکور، لتا منگیشکر، ہاجرہ مسرور، سدھاملہوترہ، واجدہ تبسم ہوں یا پھر امرتا پریتم سبھی ساحرکے ہوش ربا، سحر زدہ، بے لگام عشقیہ خیالات سے جڑی ملتی ہیں۔ مہندر چوہدری کو ساحر کی زندگی کا ایسا پہلا لمس کہا جاسکتا ہے جو شاید ہر ایک شخص کو عمرکے اس حصے میں مانگے یا بن مانگے مل جاتا ہے اور وہ لوگ بے حد خوش قسمت کہلاتے ہیں۔ مہندر پہلے ساحر کی شاعری اور پھر اس کی شخصیت سے متاثر ہونے لگی لیکن ساحر سے جس نے ٹوٹ کر محبت کی اس کا نام امرتا پریتم تھا اور امرتا نے بڑی جرأت سے اپنے افسانوں میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔
ساحر لدھیانوی پر علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور مجازکا اثر کافی پڑا، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی اکثریت میں ایک خاص اور انقلابی شاعری دکھائی دیتی ہے۔گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں ساحر نے ادبی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بعدازاں ان کی ترقی پسند نظمیں جوکمیونسٹ خیالات سے بھرپور تھیں،اے ایچ ساحر کے نام سے ''کیرتی لہر'' نامی پرچے میں چھپنی شروع ہوگئیں ، اس پرچے میں احمد ندیم قاسمی کی شاعری بھی شایع ہوتی تھی۔
ساحر زمانے کے قدر شناس تھے اور زمانہ ان کی قدر شناسی میں آج بھی پیش قدم ہے، بلاشبہ ساحر نباض زماں شاعر تھے۔ اتنی بڑی اور شاعری کی اتنی پہلو دار شخصیت پر آج تک اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے پھر بھی ان کے شعری قد کے آگے انتہائی کم ہے۔
ساحر لدھیانوی کے والد کی گیارہ بیویاں تھیں اور ان سب شادیوں کے باوجود ساحر اپنے والد کی گیارہویں بیوی کی واحد اولاد نرینہ (بیٹے) تھے۔ ان کی پیدائش 8 مارچ 1921ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست لدھیانہ میں ہوئی ان کا نام ان کے والد نے عبدالحئی رکھا تھا۔ باوجود ان مشکل ایام میں وہ سب کے لاڈلے تھے سب کے پیار کی وجہ سے بگڑنے کے سارے سازوسامان مہیا تھے۔ ساحر ایک بے مثل اور بے نظیر شاعر بن کر ابھرے۔ ان کے والد ان کی والدہ پر بہت ستم ڈھاتے تھے، شاید یہی رنج و غم ساحر پر ایک نعمت کی طرح برسا اوراس شدید کرب یا درد نے ساحرکے اندرکے شاعرکو جگانے میں مدد کی۔ سب سے بیش قیمت سوال یہ ہے کہ کیسے ایک بے رحم زمیندارکے بیٹے نے اپنی زندگی کے تلخ ایام کا تریاق اپنی شاعری میں دریافت کرلیا تھا۔ وہ ایک مجرم اور محرومی کا شکار بدترین انسان بھی بن سکتے تھے یا پولیس آفیسر یا جیسا کہ ساحر وکیل بننا چاہتے تھے، لیکن بالآخر وہ ایک انقلابی شاعر بن کر ابھرے، لگتا ہے اس دنیا کو شاعری کا شاہکار دینے کی یہ اوپر والے کی مرضی ہی ہوسکتی تھی۔
ساحر کی شاعری کا سب سے بڑا سحر یہ ہے کہ انھوں نے جو بھی گیت لکھے وہ زندہ جاوید ہوگئے، بلاشبہ ان کے گیتوں نے رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے اندر موجود آب حیات کے نئے چشمے اور ان چشموں سے نئے سوتے پیدا کیے ہیں۔ ساحر لدھیانوی کا ایک شعر:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
کو اردو شاعری کا سب سے بڑا معکوسی موڑ کہا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ ساحر بہت ہی منفرد رنگوں اور سب سے کثیرالاوصاف اور ہر فن مولا شاعر تھے۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال کے بعد ساحر نے ادب میں بھی اور عام انسانوں کے لیے بھی ہر طرح کے نغمے یا شاعری کی۔ ہندوستان میں جہاں ہمیشہ جمہوریت رہی اور ہزاروں زبانوں کے درمیان اردو زبان رہی اور اسے کوئی سرکاری سرپرستی بھی نہ ملی وہاں ساحر کا اردو میں لکھ کر اتنا مشہور اور بعدازاں امر ہوجانا دلیل ہے ان کی قابلیت اور ان کے ناقابل فراموش ہونے کی۔
اجنبی محافظ، ورثہ، چکلہ، تاج محل، کبھی کبھی، میرے گیت، جانے وہ کیسے لوگ، پرچھائیاں اور فنکار جیسی شاہکار نظموں کے خالق کو کوئی دیوانہ ہی پل دو پل کا شاعر کہے گا، وہ ہر لمحہ، ہر ساعت اور ہرگھڑی کا شاعر تھا اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ ساحر کو ان کے فلمی گیتوں کی شہرت کے غلاف میں لپیٹنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ساحر کے فلمی نغمے ان کا ادبی نظریہ ہی تھے جو آسان لفظوں میں ڈھل کر کوچہ و بازار میں گونجے، بین الاقوامی سطح کا یہ مضبوط عوامی نظریہ تھا جسے ساحر نے اپنے کلام کا رنگ دے کر قبولیت عام و عوام بخشی۔ یہ ساحر ہی تھا جس نے ہزار صفحات کی کتاب ''جنگ'' پر لکھنے کی بجائے جنگ کی تعبیر صرف ایک شعر میں کردی :
جنگ تو خود ہی مسئلہ ہے ایک
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
ساحر کے شعری مجموعوں میں تلخیاں، گاتا جائے بنجارہ اور آؤ کہ کوئی خواب بنیں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ کلاسیک بھارتی فلم ''پیاسا'' ساحر کی زندگی سے متاثر ہوکر فلم ساز، اداکار و ہدایت کار گرودت نے بنائی تھی اور ساحر کا کردار بھی خود گرودت نے ادا کیا تھا، یش چوپڑہ کی یادگار فلم ''کبھی کبھی'' میں بھی ان کی ذات اور ان کے رومانوی خد وخال کو باآسانی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں لدھیانہ میں ایک کالج کا آڈیٹوریم ان کے نام سے منسوب کیا جاچکا ہے اور2013ء میں بھارتی حکومت نے ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا، اس کے علاوہ ان کی سرکاری اور ادبی سطح پر متعدد بار پذیرائی بھی کی جاچکی ہے اورکسی شاعر کے لیے ان سب چیزوں کا میسر آنا بہت بڑی بات کہی جاسکتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارا یقین چاہے ہم پر سے اٹھ جائے لیکن ساحر کی شاعری سے ہمارا یقین کبھی نہیں اٹھ سکتا۔ کاش ساحر زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ان کی ''پرچھائیاں'' آج بھی ہم سب کے ساتھ موجود ہیں اور رہیں گی، وہ خود تو 25 اکتوبر 1980ء کو چلے گئے لیکن ہمیں جس صبح کی امید دلاتے رہے وہ صبح ابھی آئی تو نہیں لیکن آئے گی ضرور۔