سرزمین مہرو ماہ
نیت میں خلوص شامل ہو، محنت اور مستقل مزاجی کی بدولت وہ کچھ حاصل ہوجاتا ہے جس کا تصور بھی بندہ بشر نہیں کرسکتا۔
کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں، جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ کام بخوبی کامیابی کی منزلوں کو چھو لیتا ہے، شرط یہ ہے کہ نیت میں خلوص شامل ہو، محنت اور مستقل مزاجی کی بدولت وہ کچھ حاصل ہوجاتا ہے جس کا تصور بھی بندہ بشر نہیں کرسکتا۔ ایسے ہی لوگوں میں ممتاز قلمکار نجیب عمر کا بھی شمار ہوتا ہے، انھوں نے ادب کی کئی اصناف پر خامہ فرسائی کی ہے۔
گلستانِ ادب میں ان کی آمد تاخیر سے ہوئی، اس کی وجہ دیارِ غیر میں ملازمت اور گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ۔ مکہ مکرمہ میں نوکری کا ملنا یقینا والدین کی دعائوں کا نتیجہ تھا۔ نجیب عمر نے ستائیس سال مکہ مکرمہ میں گزارے، اس دوران انھوں نے بے شمار عمروں اور کئی بار حج کی سعادت حاصل کی، یقینا ان کے بخت کا ستارہ روشن تھا اور اس روشنی میں کامیابیوں کے در وا ہوتے چلے گئے۔
اس طرح مقدس و متبرک مقامات کے دیدار نے پیاسی آنکھوں اور تشنہ روح و دل کو سامانِ تسکین فراہم کیا۔ ان کا دل طوافِ کعبہ اور روضۂ رسول ﷺ اور دوسری مبارک جگہوں کی یادوں سے لبریز ہے۔ وہ یادیں جو پاکیزہ ہیں، جو روح و قلب کو گرمادیتی ہیں اور جذبہ ایمانی کو تازہ کردیتی ہیں۔ اللہ کی قدرت کے کرشمے اور حکمت کے خزینے نگاہوں کو خیرہ کردیتے ہیں۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی تبلیغ اسلام اور کفار کا ظلم و ستم، فتح مکہ اور پوری دنیا میں اسلام نور کا ظہور ہونا، بے شک آقائے تاجدارِ حرم کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس ہی احساس اور مکہ و مدینے کی یادداشتوں کو صفحہ قرطاس پر روشن اور سچے لفظوں کی صورت چسپاں کردیا ہے، ان کی یہ بارہویں کتاب ہے جس کا عنوان ''سرزمین مہرو ماہ'' ہے، جو 47 ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب اسلامی تاریخ کے اہم واقعات کی منظرکشی کرتا ہے۔
سیرت پاک حضرت محمد ﷺ کو اپنے طور پر سادگی کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو کامیابی سے ہمکنار ہے۔ تین سو چار صفحات پر مشتمل کتاب ایک روداد ہی نہیں بلکہ یہ ایک سفرنامہ اور اسلامی تاریخ کا پتا دیتی ہے، تحریر میں روانی اور سادگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے قارئین عقیدت و محبت کے ساتھ مکہ و مدینہ کے بارے میں بہت سی معلومات سے فیضیاب ہوجاتے ہیں اور حاضری کی تڑپ دوچند ہوجاتی ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ حجاز مقدس کے دیدار کے لیے لوگ تڑپتے ہیں، ساری زندگی اس آرزو کی تکمیل کے لیے بدست دعا رہتے ہیں اور مکہ و مدینہ کی زیارت ہر مومن کے لیے اعزاز کا باعث ہے۔ کعبۃ اللہ کے اطراف میں جو صحن ہے وہ ''مطاف'' کہلاتا ہے جہاں ہر دم اور دن رات طواف جاری رہتا ہے۔ حطیم کعبۃ اللہ کے اندر کا حصہ ہے، وہاں فرض نمازوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔
نجیب عمر نے رکن ایمانی کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ کعبۃ اللہ کے چار کونے (رکن) جغرافیائی اعتبار سے اپنے سامنے پڑنے والے ملکوں کی نسبت سے ان کے نام رکھے گئے ہیں۔ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے حجر اسود والے رکن کی سیدھ میں ہے۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باوجود قائم ہے تو یقیناً اس میں اللہ کی حکمت ہے کہ پاکستان ''لا الٰہ الا اللہ'' کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، اور یہ حقیقت کسی معجزے سے کم نہیں۔
ایک آیت کے مطابق (اور مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو یعنی نماز پڑھو) خانۂ کعبہ کے دروازہ مبارک کے سامنے شیشے کے گنبد میں وہ مقدس پتھر بھی موجود ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ اس پتھر پر کھڑے ہوکر آپ علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کو خانہ کعبہ میں حاضری کی دعوت دی۔ غارِ حرا جس پہاڑ پر ہے اسے جبل نور کہا جاتا ہے، غارِ حرا کی زیارت کے لیے جو سفر کیا جاتا ہے اس میں تقریباً ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ 9 سو فٹ کی بلندی پر چڑھنا ہر گز آسان کام نہیں ہے لیکن جب اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت اور ایمان کی سرشاری اور شوق دیدار شامل ہو، تب ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ ظہور نبوت سے قبل اسی غار میں عبادت فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ پر پہلی وحی ادھر ہی نازل ہوئی تھی۔
نجیب عمر نے طلوع اسلام، حضرت محمدؐ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات نہایت عرق ریزی اور عقیدت کے ساتھ اس طرح درج کیے ہیں کہ قاری مقدس خطے میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔
غار حرا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نبی کریمؐ کئی کئی دن یہاں قیام فرماتے، ستو اور پانی ساتھ ہوتا، ان چٹیل پہاڑوں پر اُگنے والی ہری بھری جھاڑیاں تھیں، جنھیں بکریاں چر لیا کرتی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ آپ حضرت محمد خاتم النبیینؐ غار سے باہر آئے، دیکھا حضرت بلالؓ بکریوں کے ساتھ ہیں، انھیں اپنے پاس بلایا اور دودھ کی فرمائش کرتے ہوئے لکڑی کا پیالہ عنایت فرمایا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ بکریوں کا مالک اپنی کنجوسی کی وجہ سے بہت کم چارہ دیتا ہے، اسی وجہ سے انھیں یہاں لے آتا ہوں۔
میں دیکھتا ہوں کہ شاید کچھ دودھ دستیاب ہوجائے، لیکن حضرت بلالؓ اس وقت حیران ہوگئے کہ مریل بکریوں نے اتنا دودھ دیا کہ پیالہ لبالب بھرگیا۔ آپؐ نے کچھ دودھ خود پیا اور باقی بلالؓ کے حوالے کیا کہ تم پی لو۔ ابھی آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تھی اور نہ نبوت کا اعلان کیا تھا لیکن دودھ پینے کی برکت کا کیا کمال تھا کہ بلالؓ کی زبان سے ''احمد، احمد'' کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا اور بڑے مرتبے پر پہنچے، جب تک حضرت بلالؓ نے اذان نہ دی اس وقت تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ رسولِ پاکؐ کی صحبت حصے میں آئی اور نصیب بدل گیا۔
مسجد نبویؐ کے فضائل میں رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان عازمین کے لیے بے حد اہمیت اور فوائد کا حامل ہے 'جو شخص میری مسجد میں 40 نمازیں لگاتار ادا کرے گا اور درمیان میں کوئی نماز فوت نہ ہو تو وہ دوزخ کی آگ، عذاب اور نفاق سے آزاد ہوجاتا ہے'۔ مسجد نبوی ﷺ کا چپہ چپہ نور فشاں ہے مگر روضہ ریاض الجنۃ کے وہ چھ ستون جو سنگ مرمر کے پتھر اور میناکاری سے مرصع ہیں، خاص طور پر قابل ذکر اور قابل دید ہیں، ان ستونوں پر ان کے نام درج ہیں۔ مختلف رنگوں کے باعث ان کی شناخت آسان ہے، انھی میں ستون خانہ بھی ہے، یہیں کھڑے ہوکر آپؐ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ یہ کھجور کا وہ تنا تھا جو لکڑی کے منبر پر آپؐ کے منتقل ہونے پر زار وقطار رویا تھا۔
کتاب کے مصنف نے ایمان کی لذت کو محسوس کرتے ہوئے بے حد دلکش انداز میں مکہ و مدینے کی مقدس و معتبر ہوائوں اور ماحول کا ذکر کیا ہے۔ مسجد نبویؐ میں نصب گنبدوں کا یہ کمال ہے کہ انھیں بٹن دباکر سرکایا جاسکتا ہے، جونہی یہ عمل ہوتا ہے پل بھر میں تاروں بھرا آسمان اپنا جلوہ دکھانے لگتا ہے۔
کتاب کے اہم موضوعات میں بدر کبریٰ، جبل احمد، سید الشہدا، غزہ اُحد میں صحابہ کرام ؓ کی سرفروشی، منیٰ میں آتشزدگی، ترتیب قرآن، نصرانیوں کے خلاف پہلا معرکہ (غزوہ موتہ) اور منازل قرآن جیسی معلومات کو صفحہ قرطاس پر جلوہ نما کردیا ہے۔
نزول قرآن کی ترتیب و تدوین کے حوالے سے اہم معلومات نظر آتی ہیں۔ قرآن پاک میں اعراب لگانے کا سہرا حجاج بن یوسف کے سر جاتا ہے، وہ بے حد ظالم سہی لیکن بقول مولانا مودودی حجاج روز قیامت اپنے گناہوں کے ساتھ دو بڑی نیکیاں بھی لائے گا، اول قرآن پاک میں اعراب لگاکر قیامت تک عجم کو قرآن کریم کو صحیح پڑھنے کی استعداد عطا کرنا، دوم یہ کہ برصغیر میں محمد بن قاسم کے ذریعے اشاعت دین کا راستہ کھول دینا۔ نجیب عمر کی تحریر میں سفرنامے کا مزہ ملتا ہے، ویسے حق ہے بھی یہی کہ یہ سفرنامہ ہی ہے۔