وفاقی بجٹ… مضمرات
وفاقی بجٹ برائے سال 2013-14 نہ صرف ملک کے کروڑوں عوام کی امیدوں پر بجلی بن کر گرا بلکہ صنعتی و کاروباری حلقوں...
وفاقی بجٹ برائے سال 2013-14 نہ صرف ملک کے کروڑوں عوام کی امیدوں پر بجلی بن کر گرا بلکہ صنعتی و کاروباری حلقوں کو بھی بجٹ سے وابستہ توقعات پوری نہ ہونے پر سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران غریب عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ کے عذابوں سے نجات دلائیں گے اقتدار میں آکر ملک کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے۔ میاں برادران ہر جلسے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف مبینہ طور پر الزامات عائد کرتے رہے کہ وہ ملک میں گرانی، بے روزگاری، غربت اور لوڈشیڈنگ کی ذمے دار ہے اور اگر (ن) لیگ کو اقتدار ملا تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے عوام کے تمام مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے لیکن 11 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے اقتدار کے پہلے ہی بجٹ میں بجائے عوام کو ریلیف دینے کے جنرل سیلز ٹیکس 16 فی صد سے 17 فی صد کر کے غریب عوام کو مہنگائی کا پہلا تحفہ دے دیا گیا۔
جی ایس ٹی میں اضافے سے لازمی طور پر روزمرہ استعمال کی اشیاء خوردو نوش گھی، تیل، چینی، دودھ، سگریٹ، پان، چھالیہ اور کتابیں، کاپیاں، سلائی مشین اور بجلی سمیت کم وبیش 80 فی صد سے زائد مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا ۔ مہنگائی کا گراف اونچا ہوگا جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا۔ غربت و بے روزگاری کے مارے ہوئے عوام کی قوت خرید بری طرح مجروح ہوگی اور اس کی روزمرہ کی زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی۔
ٹیکسوں کی آمیزش سے تیار شدہ بجٹ پر اقتصادی و معاشی ماہرین بھی کڑی تنقید کر رہے ہیں پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں بھی بجٹ کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے عام لوگ نہ صرف بجٹ بلکہ میاں نواز شریف کی حکومت سے وابستہ توقعات پوری نہ ہونے پر مایوسی و ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں جو ناقابل فہم نہیں۔ ابھی تو نواز شریف حکومت کا ہنی مون پیریڈ چل رہا ہے عوام پرامید تھے کہ چونکہ پہلا بجٹ ہنی مون پیریڈ کے دوران ہی آرہا ہے لہٰذا مسلم لیگ (ن) کی حکومت اچھا آغاز کرے گی اور اپنے دعوؤں و وعدوں کے مطابق بجٹ میں لوگوں کو لازمی ریلیف فراہم کیا جائے گا لیکن غریبوں کو جو پہلے ہی بھوک، افلاس اور غربت کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں بجٹ کے بعد بڑھنے والے مہنگائی کے طوفان نے مزید برباد کردیا ہے۔
نواز شریف حکومت نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں سرکاری ملازمین کو یکسر نظرانداز کردیا الٹا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا نتیجتاً سرکاری ملازمین مسلسل سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ٹیکس ہی حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور سرکاری ملازمین معاشرے کا وہ واحد طبقہ ہے جس کی آمدنی سے ہر ماہ باقاعدگی سے ٹیکس منہا کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کے مالی مسائل ومشکلات کو حل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ لیکن افسوس کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے انہیں سخت مایوس کیا۔ جبکہ اس بجٹ میں ماہرین کے مطابق زیادہ آمدنی والے گروپس اور ایسے بڑے کاروباری طبقے کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا جن کی آمدنی اربوں میں ہے کیا یہ حکومتی پالیسی میں کھلا تضاد نہیں ہے؟ چونکہ حکمراں طبقہ خود اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے اسی باعث ''اپنی کلاس'' کے مفادات کا خیال رکھا گیا اور عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا۔ افسوس کہ نواز شریف حکومت غریبوں کی مشکلات کم کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافے کے اقدامات کر رہی ہے۔
بجٹ نے غریب افراد کے لیے شادی کرنا، حج پر جانا اور تعلیم حاصل کرنا بھی مشکل بنادیا ہے کیونکہ تمام شادی ہالز، کلب اور ریسٹورنٹس پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جو یقینی طور پر مالکان حضرات نئے شادی کرنے والوں سے وصول کریں گے۔ حج آپریٹرز پر ٹیکس کی شرح پانچ ہزار کردی گئی ہے جو حاجیوں کی جیب سے ہی وصول کی جائے گی۔ کاپیوں اور کتابوں پر ٹیکس کے نفاذ سے غریب بچوں کے لیے علم کا حصول عذاب جاں بن گیا ہے۔ وہ تعلیم کیسے حاصل کریں گے بڑے آدمی کیسے بنیں گے؟
یہ ٹھیک ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے باعث قومی معاشی زندگی کو اربوں ڈالر کے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس کے منفی اثرات نے ہر شعبے کو متاثر کیا تاہم عوام کو ریلیف فراہم کرنا بہرحال حکومت کی ذمے داری ہے اور لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے وسائل اور ذرائع تلاش کرنا حکومتوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ آپ لوڈشیڈنگ کو دیکھ لیجیے اٹھارہویں ترمیم کے تحت، جس پر (ن) لیگ نے بھی دستخط کیے ہیں، ہر صوبے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ بجلی پیدا کرنے کے لیے گرڈ اسٹیشن لگائے۔ میاں برادران پوری انتخابی مہم کے دوران پنجاب میں لوڈشیڈنگ کی ذمے داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر ڈالتے رہے۔ حالانکہ شہباز شریف صاحب کو 18 ویں ترمیم کے تحت پنجاب میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے گرڈ اسٹیشن لگانے چاہیے تھے۔ لیکن انہوں نے کروڑوں روپے میٹرو بس سروس کی نذر کردیئے اور عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلتے رہے۔ آج بھی پنجاب میں 18/18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اس کا ذمے دار کون ہے وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت؟
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بجٹ کی منظوری سے قبل ہی پٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی نافذ کردیا گیا جو سراسر غیرقانونی و غیر آئینی ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے سوموٹو ایکشن لے لیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے نئے وفاقی بجٹ کو کمزور اور غیر مستحکم قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر جی ایس ٹی میں اضافہ واپس لے اور زرعی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ نواز شریف حکومت کے ہنی مون پیریڈ کے پہلے بجٹ کے قومی زندگی کے تقریباً تمام منصوبوں اور طبقوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بالخصوص عام آدمی اور تنخواہ دار ملازمین کو گرانی و مہنگائی کے کڑے عذاب جھیلنا پڑیں گے۔