مقبوضہ کشمیر جہاں ہر دن سیاہ دن ہے

چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت ایک بار پھر ’’یومِ سیاہ‘‘ منایا گیا ہے


Tanveer Qaisar Shahid October 29, 2018
[email protected]

مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دُنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ہر سال 27اکتوبرکوبطورِ ''یومِ سیاہ'' مناتے ہیں۔ اِس بار بھی اِسی تاریخ کو پورے جذبوں اور کمٹمنٹ کے ساتھ سیاہ دن کی یاد منائی گئی ہے۔ سات عشرے قبل بھارت نے دغا بازی اور مسلّح فوجی یلغار سے جنت نظیر کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا۔ تب سے اب تک نہ تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم رُکا ہے نہ زیر استبداد کشمیریوں کی جدوجہد رُکی ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور سیکیورٹی فورسز مسلّط ہیں۔ 70برسوں کے دوران بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری شہید کیے گئے ہیں۔

اَن گنت کشمیری خواتین کی حرمت پامال کی گئی ہے۔ لاتعداد کشمیری نوجوان لاپتہ ہیں اور ہزاروں ایسے ہیں جو بھارت کی مختلف جیلوں میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری بچے، خواتین ، نوجوان اور بوڑھے ایسے ہیں جن کی آنکھوں کا نور بھارتی فوجیوں کی پیلٹ بندوقوں نے چھین لیا ہے۔ کشمیری توپاکستان کے ازلی بھائی ہیں اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ بھی ہے، اس لیے پاکستان دامے درمے اپنے مظلوم و مجبور کشمیری بھائیوں کی حمائت جاری رکھے ہُوئے ہے۔ دُنیا کے ہر فورم اور ہر اسٹیج پر پاکستانی عوام، حکمران اور دانشور اپنے کشمیری بھائیوں کے حق میںآواز بلند کرتے رہتے ہیں۔

عالمی ضمیر مگر بہرہ اور گونگا ہے۔ شائد مردہ۔ عالمِ اسلام بھی مظلوم کشمیریوں کا درد اپنا درد نہیں مان رہا۔ اسلامیانِ عالم کی اس بے حسی کے باوصف کشمیری اپنی جدوجہد اور قربانیاں دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ہر روز شہادتوں کی ایک نئی داستان رقم کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے اقتدار کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کئی گنا مزیدبڑھ گئے ہیں۔ ظالم اپنے ہر ممکنہ ظالمانہ ہتھکنڈوں سے تھک گیا ہے لیکن کشمیری آزادی کے حصول کی راہ میں اپنا لہو دینے سے نہیں تھکے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کشمیریوں کے اس حیران کن جذبے نے غاصب بھارتی فوجوں کے حوصلے توڑ دیے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج اِس وقت دُنیا کی واحد فوج ہے جو نفسیاتی اعتبار سے شدید عوارض کا شکار بن چکی ہے۔ جونہی کشمیر میں شہادت کا کوئی نیا چراغ روشن ہوتا ہے، کسی بھارتی فوجی کی رُوح کا چراغ بھی ساتھ ہی گُل ہو جاتا ہے۔

چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت ایک بار پھر ''یومِ سیاہ'' منایا گیا ہے تو سارے بھارت پر ندامت اور اضمحلال کی چادر تنی رہی۔ بھارتی میڈیا مگر انڈین اسٹیبلشمنٹ اور انڈین آرمی کے خوف میں اسقدر مبتلا ہے کہ کسی کو یہ توفیق ہی نہ ہو سکی کہ 27 اکتوبر کے دن اُن مظالم کا ہلکا سا ذکر ہی کر دیا جاتا جو مقبوضہ کشمیر میں مسلّط بھارتی فوج نے اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ستائیس اور اٹھائیس اکتوبر والے دن راقم نے بھارت کے کئی انگریزی اخبار کھنگال ڈالے ،لیکن مجھے کوئی ایک خبر یا کالم یا تجزیہ نظر نہ آسکا جس میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی زیادتیوں کے بارے کسی آزادانہ رائے کا اظہار ہوتا۔سب بھارتی صحافی بھارتی فوج کے ڈر سے سہمے بیٹھے ہیں۔ اِس جبریہ ماحول میں بھارتی میڈیا میں کوئی آزادانہ اور دلیرانہ آواز اُبھرے بھی تو کیونکر؟

اکتوبر 2018ء کا یہ سارا مہینہ تو یوں گزرا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور سیکیورٹی فورسز نے ہر دن ہی کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر روز کے اخبارات ہمارے کشمیری بھائیوں کی شہادتوں کی سُرخ داستانوں سے لتھڑے نظر آتے رہے اور ہر روز ہی ہم سب مجبوری میں اشک بہاتے رہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جاری اکتوبر کا ہر دن مقبوضہ کشمیر میں ایک سیاہ دن تھا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ بھارتی فوجوں کے مظالم اور سنگین استحصالی ہتھکنڈوںکے باوجود مقبوضہ کشمیر کے نہائت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جہادی تنظیموں میں مسلسل شریک ہوکر بے دریغ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔بھارت سمیت ساری دُنیا قربانی اور آزادی کے حصول کے اس نئے فنامنا سے ششدر ہے۔ مثال کے طور پر رواں ماہ کے دوران ڈاکٹر منان بشیر وانی کی شہادت کا واقعہ۔ منان وانی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جیالوجی کے پی ایچ ڈی اسکالر۔ یکا یک انھوں نے اپنا روشن اور شاندار مستقبل ایک طرف رکھا اور وطن کو غاصب بھارتیوں کے پنجے سے آزاد کرانے کی راہ پر چل پڑے۔ وہ خاموشی سے'' حزب المجاہدین'' تنظیم میں شامل ہُوئے اور چند دنوں بعد ہی شہادت کی خلعتِ فاخرہ سے سرفراز ہو گئے۔

ہم ایسے نادان کہتے ہیں کہ ڈاکٹر منان بشیر وانی کو اپنا شاندار کریئر جہادی راستے پر قربان نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ وطن کی محبت میںسرشار سر دینے والوں کی سوچ اور فکر مگر ہمیشہ منفرد اور نویکلی رہی ہے۔ ایسے عشاق اپنے جذبوں کو دُنیا کے ترازو میں رکھ کر کبھی نہیں تولتے۔ ڈاکٹر منان بشیر وانی بھی اِسی راہ کے راہی تھے۔ انھیں اِسی اکتوبر کی ایک سحری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج (راشٹریہ رائفلز) نے شہید کیا ہے۔ اُن کی شہادت نے بھارتی اداروں کو پریشانی اور شرمندگی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 24اکتوبر2018ء کو دو اور کشمیری پی ایچ ڈی مجاہد اسکالرز، سبزار احمد صوفی اور آصف شیر گوجری، کو بھارتی فوج نے سرینگر کے مضافات میں محاصرہ ڈال کر شہید کر دیا۔دونوں شہدا ''حزب المجاہدین'' میں شامل تھے۔سبزارا حمد صوفی ''جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی'' اور آصف شیر گوجری ''برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال'' میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ اتنے پڑھے لکھے کشمیری نوجوان آخر کیوں اور کیسے شہادتوں کے نذرانے پیش کرتے جا رہے ہیں؟ رواں اکتوبر کے تیسرے ہفتے کے دوران تو جنوبی کشمیر میں ایک ہی دن کے دوران بھارتی فوج نے ایک درجن کشمیریوں کو شہید کر دیا۔یہ تو بہیمیت کی انتہا ہے؛ چنانچہ اِس ظلم پر وزیر اعظم عمران خان نے بھی اِن الفاظ میں ٹویٹ کی:''بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کے قتلِ عام کا نیا سلسلہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی اُمنگوں کی مطابق بات چیت کے ذریعے تنازعئہ کشمیر کے حل کی جانب پیشرفت کا احساس کرے۔'' بھارت کے کانوں پر مگر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

مقبوضہ کشمیر میںبھارت کے پیدا کردہ اِن گمبھیر اور گھناؤنے حالات میں دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انڈین اسٹیبلشمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کر وادیا ہے۔ کشمیریوں نے مگر اجتماعی طور پر ان انتخابات کو سرے ہی سے مسترد کر دیا۔حقائق بتاتے ہیں کہ 80فیصد کشمیریوں نے ان بلدیاتی انتخابات کا مکمل مقاطع کیا ہے۔ حتیٰ کہ دہلی کی وفادار سمجھی جانے والی دو کشمیری سیاسی جماعتیں (نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی) نے بھی بائیکاٹ کر دیا ۔ بھارتی وزیر داخلہ ، راجناتھ سنگھ، نے سرینگر آ کر دونوں جماعتوں کے لیڈروں (عمر فاروق اور محبوبہ مفتی) کو ڈرا دھمکا کر انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش تو کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی گورنر، ستیا پال ملک، کی کوششیں بھی رائیگاں گئی ہیں۔ انتخابات کے دوران تینوں بڑے آزادی و علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں (علی گیلانی، میر واعظ فاروق، یاسین ملک) کو بھارتی فوج نے اپنی حراست میں لیے رکھا۔ کشمیری قیادت نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھاکہ یہ بلدیاتی الیکشن دراصل مقبوضہ کشمیر میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے کشمیر دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک بہانہ ہیں، ہم کیوں اِن کا حصہ بنیں؟ اِسی دوران بھارت کی ''شاردا''یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلبا اور طالبات کو جس بہیمانہ طریقے سے بھارتی غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایاہے، اس نے حالات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دانستہ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہُوئے جس طرح تشدد کے اس واقعہ میں کشمیری طلبا اور طالبات کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے، کشمیر میں اس کے نہائت منفی اثرات دیکھے گئے ہیں۔ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان اجنبیت کی خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ اس کا ذمے دارانڈین اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی میڈیا کو ٹھہرا رہے ہیں۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اِس ''یومِ سیاہ'' کے موقع پر بھارتی آرمی چیف، جنرل بپن راوت، نے پاکستان کو پھر دھمکی دے ڈالی ہے۔ کیا یہ فرسٹریشن کا نتیجہ نہیں ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں