ابو الخیر کشفی کی کتاب کا انتساب میرے نام ہونا بہت بڑا اعزاز ہے ڈاکٹر داؤد عثمانی

’ڈاکٹریٹ‘ کے دوران علامہ راشد الخیری کی مرتب کردہ کتاب ’امہات الامہ‘ دریافت ہوئی۔


Rizwan Tahir Mubeen October 30, 2018
جن تعلیمی اداروں سے پڑھا، وہاں تدریس بھی کی، محقق اور استاد ڈاکٹر داؤد عثمانی کے حالات زیست۔ فوٹو : جلال قریشی

وہ اگر اپنی زندگی کا اہم موڑ نہ کاٹتے، تو شاید آج کسی اسکول میں ہی تدریس پر مامور ہوتے، یا شاید اسی محکمے میں ترقی کر گئے ہوتے، لیکن اُن کی زندگی میں ایک موڑ آیا، وہ اس پر آگے بڑھے تو ایک اور زینہ چڑھے، ایک اور، پھر ایک اور۔۔۔ ہم ان مراحل کو چار جگہ بانٹ سکتے ہیں، پہلا موڑ اُن کے اچھی لکھائی بنا، جس سے انٹر میں 'علم کتب خانہ جات' (لائبریری سائنس) کے استاد بشیر صاحب بہت متاثر ہوئے۔

انہوں نے خوش خطی سیکھنے کے لیے انہیں 'اردو بازار' میں ایک خطاط رضی دہلوی کے پاس بھیج دیا، جو جامعہ کراچی کی ڈگریاں وغیرہ کا کام بھی کرتے تھے۔ رضی دہلوی کے ہاں سے اُن کا میل جول جامعہ کراچی کے معروف استاد ڈاکٹر ابو الخیر کشفی سے ہوا، گویا یہ دوسرا موڑ تھا، پھر ابو الخیر کشفی نے انہیں اردو میں ایم اے کا مشورہ دیا، جس پر انہوں نے کہا کہ میں نے تو گریجویشن تک سندھی میڈیم سے پڑھا ہے! کشفی صاحب نے اُن کی ہمت بندھائی اور انہوں نے محنت کی، یوں بطور پرائیوٹ امیدوار اُن کا ایم اے اردو مکمل ہوا۔ اِسے ہم تیسرا موڑ کہہ سکتے ہیں، جب کہ چوتھا موڑ اُن کے اندر اردو میں 'پی ایچ ڈی' کی امنگ جاگنا تھا، جس نے کشفی صاحب کو بھی حیران کر دیا، پھر ان کی نگرانی میں ایک موضوع 'علامہ راشد الخیری اور ان کے خاندان کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ' منظور کرا لیا۔

یہ صاحب، ڈاکٹر داؤ عثمانی ہیں، جو شہر قائد کی ایک قدیم بستی لیاری کے باسی ہیں، دوران گفتگو وہ بار بار اپنے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے اور کہتے کہ مجھے اپنے بارے میں کہتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ یہ جملہ اُن کی سادگی اور گوشہ نشین طبیعت کو خوب ظاہر کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے ایم اے کے امتحان میں فارسی کا ایک جملہ اردو میں ترجمہ کرنا تھا، جو یہ تھا کہ 'میرا ارادہ ہے کہ ایم اے کرنے کے بعد میں اس میں تحقیق کروں۔' انہیں یہ لگا کہ اس کے مخاطب وہی ہیں اور یوں انہوں نے یہ بار اٹھالیا۔ دوسرا دل چسپ اتفاق انہوں نے یہ بتایا کہ ابو الخیر کشفی صاحب نے کئی برس پہلے علامہ راشد الخیری کے صاحب زادے صادق الخیری سے بہ ذریعہ خط علامہ پر ایم اے کی سطح کی تحقیق کا ارادہ ظاہر کیا تھا، وہ تو پورا نہ ہوسکا، لیکن اس سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر انہوں نے راشد الخیری کے پورے خانوادے پر اُن کے ڈاکٹریٹ کی نگرانی کی۔ ابوالخیر کشفی کی زندگی میں زیادہ تر کام مکمل ہو چکا تھا، ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر ظفر اقبال کے زیر نگرانی 2011ء میں یہ مقالہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔

ڈاکٹر داؤد کہتے ہیں کہ ہندوستان میں تو علامہ راشد الخیری کی حیات وخدمات اور ان کے ناولوں تک پر 'پی ایچ ڈی' ہوئے ہیں، لیکن پاکستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا کام ہے، یہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کہیں بھی علامہ راشد الخیری کے پورے ادبی خانوادے پر ڈاکٹریٹ کا کام نہیں ہوا۔ ہم نے اس کام کے دوران دشواریوں کے حوالے سے پوچھا تو وہ بولے کہ ساری دشواریاں کشفی صاحب کی توجہ سے آسان ہو گئیں۔ 2004ء میں ابو الخیر کشفی نے اپنے مضامین کی کتاب 'آدمی اور کتاب' شایع کی، جس کا انتساب انہوں نے میرے نام کیا ہے۔ بہت کم ایسے شاگرد ہوں گے جن کے اساتذہ نے تصنیف اپنے شاگرد سے منسوب کی ہو۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے، اسے دیکھ کر بہت شادمانی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر داؤد عثمانی کے بقول انہوں نے اپنے مقالے میں شاہ جہاں کے زمانے سے آج تک ان کا خاندان اور ان کے خاندان سے جڑنے والے افراد کی بھی ادبی خدمات احاطہ کیا ہے۔ علامہ راشدی الخیری کے خانوادے میں اُن کے جد امجد ''ننھے میاں'' سے ذکر شروع ہوتا ہے، جن کا شجرہ عکرمہ بن ابو جہل سے ملتا ہے۔ اس کے ساتھ علامہ راشد الخیری کے چچا زاد جبار خیری اور ستار خیری، راشد الخیری کے بیٹے رازق الخیری، صادق الخیری، پھر رازق الخیری کی دونوں بیگمات آمنہ نازلی اور خاتون اکرم اور ان کی اولادیں حاذق الخیری اور صفورہ خیری وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ کے سگڑ دادا مولوی عبدالخالق دہلوی سے متعلق سرسید نے آثار الصنادید میں بھی لکھا ہے کہ کہ 'میں نے دلی میں اس پائے کا شخصیت نہیں دیکھی' ڈپٹی نذیر احمد اور نذیر حسین محدث دہلوی بھی عبدالخالق دہلوی کے داماد تھے، شان الحق حقی کا تعلق بھی علامہ راشد الخیری کے ننھیال سے ہے۔

ڈاکٹر داؤد بتاتے ہیں کہ علامہ راشد کے پورے خانوادے کا احاطہ کرنے کے اس کام میں سات برس صرف ہوئے، کہتے ہیں کہ بہت زیادہ دشواریاں آئیں، پھر جب آپ کسی خانوادے کی ادبی خدمات کی بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی کسر نہیں رہنا چاہیے۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ 1947ء کے بٹوارے کے ہنگام میں علامہ کا بہت سا سرمایہ ضایع ہوا۔ تاہم میں اپنے مقالے کے حوالے سے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ان کے خانوادے کی تمام تصانیف کا ذکر موجود ہے۔

ہم نے اس خانوادے کے صاحب کتاب اشخاص کا پوچھا تو انہوں نے علامہ راشد الخیری، صادق الخیری، رازق الخیری، اُن کی دونوں بیگمات خاتون اکرم اور آمنہ نازلی، رازق کے بیٹے حاذق الخیری اور ان کی بیٹی حنا خیری (جو راشد الخیری کی پڑپوتی ہوئیں) حاذق الخیری کی بہن صائمہ خیری اور صفورہ خیری وغیرہ کے نام گنوائے اور بتایا کہ 90 کتب تو تنہا علامہ راشد الخیری کی ہیںِ، جب کہ 14، 15 صادق الخیری کی، رازق الخیری کی 13، ان کی بیگمات آمنہ نازلی اور خاتون اکرم کی بھی تین، چار تصانیف ہیں۔ سب کا احاطہ کیا اور جہاں تک ہو سکا ان کے محاسن اور معائب پر بھی بات کی ہے۔ یہ ایک خانوادے کی ادبی خدمات کا سلسلہ تھا کہ ایک خاندان میں روایات کی تبدیلی ہوتی ہے، یہ سلسلہ چلتا ہے یا نہیں اور چلتا ہے تو کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ میں نے تو علامہ کے خانوادے کے بہت سے مضامین لکھنے والوں کا بھی ذکر کیا ہے، اس باب میں ہوسکتا ہے کچھ نام رہ گئے ہوں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر کوئی روایت کو قائم رکھنا چاہے تو یہ قائم رہ سکتی ہے، حالاں کہ کتنی تبدیلیاں آئیں، کتنی تحریکیں چلیں، لیکن ان کی بنیاد میں آج بھی اصلاح، قومی درد، حقوق نسواں اسی نہج پر برقرار ہے۔ ایسی نظیر ہمیں کسی اور ادبی خانوادے میں دکھائی نہیں دیتی، جب کہ علامہ راشد الخیری کے اجداد میں شامل مولوی عبدالرب کا قائم کردہ 'مدرسہ آسیہ' آج بھی موجود ہے۔

علامہ کے ہاں علمی اور ادبی روایت برقرار رکھنے کے حوالے سے ڈاکٹر داؤد نے بتایا کہ ہجرت کے بعد جب رازق الخیری سے اشتہارات کے واسطے 'عصمت' کے رنگ ڈھنگ اور مضامین میں تبدیلی کا کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اُس وقت 'عصمت' میں تبدیلی نہیں کی کہ جب مجھے اسے صرف ہندی ترجمہ کر کے شایع کرنے کے ہزاروں روپے مل رہے تھے۔

ہم نے اس خدمات کی اثر پذیری کا پوچھا تو ڈاکٹر داؤد بولے کہ یہ تو بالکل ہی الگ موضوع ہے کہ انہوں نے کیا اثرات لیے اور کیا مرتب کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہ نامہ عصمت 100 سال مکمل کرنے والا اردو کا واحد رسالہ ہے، لیکن اس کی پوری فائل ہندوستان میں بھی کہیں موجود نہیں، 'عصمت' تو چھوڑیے، راشد الخیری کی پوری 90 تصانیف بھی ایک جگہ پوری نہیں۔ اپنے پی ایچ ڈی کے لیے زیادہ تر مواد یہیں سے میسر ہوگیا، ہندوستان جانے کی ضرورت نہ پڑی۔ ایک شناسا کے توسط سے وہاں سے کچھ تلخیص حاصل ہوگئیں۔

ڈاکٹر داؤد نے انکشاف کیا کہ علامہ راشد الخیری کے اصلاحی، تاریخی ناول ، مضامین اور افسانے وغیرہ ملا کر کُل 89 تصانیف تھیں، انہوں نے 'پی ایچ ڈی' کے دوران علامہ کی ایک اور کتاب دریافت کی، جو دراصل ان کی مرتب کردہ ہے۔ یہ کتاب ڈپٹی نذیر احمد کی لکھی ہوئی 'امہات الامہ' ہے، جس پر کفر کے فتوے لگے اور ہنگامہ ہو گیا، جس کے بعد اسے جلا کر تلف کر دیا گیا، راشد الخیری نے 'سہیلی' اور 'بنات' کے علاوہ ایک رسالہ ماہ نامہ 'تمدن' بھی جاری کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ڈپٹی نذیر کی یہ تصنیف قسط وار چھاپنے کے لیے مانگی، نہ مل سکی، چناں چہ اپنے ایک خادم سے تلاش کرائی اور اسے اپنے ہاتھ سے نقل کیا اور کچھ تبدیلیاں کر کے قسط وار شایع کرنا شروع کیا، میرے خیال میں یہ پوری کتاب شایع نہیں ہوئی۔ بعد میں راشد الخیری نے ان اقساط کو مرتب کیا۔

یہ ان کی وہ کتاب تھی، جس کا ذکر کہیں نہ تھا۔ اگرچہ شاہد احمد دہلوی نے ڈپٹی نذیر والے نسخے کو دوبارہ شایع کیا، کہتے ہیں کہ اُسے بھی نذر آتش کر دیا گیا، لیکن علامہ کا ترتیب دیے ہوئے نسخے کا ذکر کہیں نہ تھا، ایک دن ہمارے ایک دوست امیر ہاشم کو 'ریگل چوک' کی پرانی کتابوں سے یہ نسخہ مل گیا اور پھر میری تحقیق کا حصہ بنا۔ اسی بازار سے راشد الخیری کے سسر مولوی عبدالغفور کی نایاب ترین کتاب 'رانڈوں کی شادی' بھی ملی۔ جس کا صرف لوگوں سے ذکر سنا تھا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر کسی چیز کی جستجو تلاش میں ہوں تو دیر سویر ضرور ہوتی ہے، لیکن مل ضرور جاتی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ کتاب چھپی ہے تو ملے گی ضرور، لیکن دوران تحقیق مل جائے تو اچھا ہوتا ہے۔ ان کی تحقیق کے دوران 1934ء میں کراچی سے جاری رہنے والا ماہ نامہ ارمغان بھی منظر عام پر آسکا۔ ڈاکٹر داؤ عثمانی اپنی تحقیق کے دوران علامہ راشد الخیری کے خاندان کے تعاون کے بہت شکر گزار ہوتے ہیں، بالخصوص جسٹس (ر) حاذق الخیری کا، جنہوں نے تمام مواد تک رسائی دی اور راہ نمائی کی۔

ڈاکٹر داؤد عثمانی نے بتایا کہ میرے دادا 1906ء میں لیاری میں پیدا ہوئے، وہ 'کراچی پورٹ ٹرسٹ' سے منسلک رہے، میرے والد حاجی عثمان گو کہ پڑھے لکھے نہ تھے، لیکن اچھے آرکیٹکٹ تھے۔ والد نے دو شادیاں کیں، نو بھائی اور پانچ بہنوں میں یہ آخر سے دوسرے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ بغدادی بوائز پرائمری اسکول (سندھی میڈیم) سے حاصل کی۔ وہاں سے گورنمنٹ سیکینڈری اسکول میں چھٹی کے بعد زیر تعلیم رہے، پھر حاجی عبداللہ ہارون اسکول سے 1985ء میٹرک کیا، پھر ایس ایم آرٹس کامرس کالج سے 1988ء میں انٹر اور حاجی عبداللہ ہارون ڈگری کالج سے 1991ء میں بی اے کیا۔ سات نومبر 1990ء کو انٹر میں تھے کہ اُسی پرائمری اسکول میں تدریس پر مامور ہو گئے، جہاں سے خود بھی پڑھا، اسی طرح اپنے گورنمنٹ سیکینڈری کالج میں بھی پڑھانے کا موقع ملا۔ 2000ء میں 'ایم اے' کیا تو ایس ایم آرٹس و کامرس میں جز وقتی پڑھایا، اس دوران تدریس کے علاوہ لکھنے پڑھنے کی ہی مصروفیات رہیں۔

2011ء میں 'پی ایچ ڈی' مکمل ہوا، انہوں نے 'پبلک سروس کمیشن' کا امتحان دیا اور عبداللہ ہارون کالج میں پڑھانے لگے، ان دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج، بلدیہ ٹاؤن میں مامور ہیں۔ جزوقتی طور پر جامعہ کراچی میں بھی تدریس کا موقع ملا۔ کہتے ہیں کہ اردو کی طرف آنے میں اساتذہ کا کردا رہے۔ اس زمانے میں اردو لکھتے تو سندھی معلوم ہوتا، آج سندھی لکھیں تو اردو کا گماں ہوتا ہے۔ انہوں نے شعبۂ اِبلاغ عامہ (جامعہ کراچی) میں میں بھی داخلہ لیا، جو گھریلو حالات کے سبب ترک کرنا پڑا۔ کہتے ہیں کہ پہلے یہ سوچتا تھا کہ کیوں چھوڑا، لیکن آج خود کو بہت مطمئن پاتا ہوں۔ سب اپنے طور پر سوچتے ہیں، وہی ہوتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے۔ ذاتی زندگی کے ایک سوال پر بولے کہ 'شادی وغیرہ سے ابھی ہم آزاد ہیں، ابھی تک ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر داؤد اپنی تعلیم سے وابستگی کو ماحول کا اثر بتاتے ہیں کہ اُن کے بڑے بھائی محمد حسن بھی تاریخ اسلام کے ریٹائر پروفیسر ہیں ۔ چھوٹے بھائی، بھاوجیں اور بھانجے وغیرہ بھی درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ اپنی اور اپنے آبا کی نگری لیاری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ وہاں سڑکوں پر بھی تعلیم دی جاتی ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ وہاں پڑھائی کا کتنا شوق ہے۔ یہاں تعلیم کے حوالے سے علی محمد شاہین کا نام ہے، شاعری میں ن م دانش ہیں، صحافت کے حوالے سے نادر شاہ عادل کی بہت خدمات ہیں۔ دین کے حوالے سے مولوی محمد صادق و دیگر کے نام ہیں۔ کراچی کا پہلا دارالعلوم بھی کھڈہ مارکیٹ میں قائم ہوا۔ کھیلوں میں حسین باکسر، علی نواز بلوچ فٹ بالر، رسول بخش، عبدالغفور وغیرہ کے نام دکھائی دیتے ہیں۔

ہم کب تک یہ کہیں گے کہ فلاں کا خلا پر نہیں ہوگا!
ڈاکٹر دائود عثمانی سے اردو کی زبوں حالی کا ذکر بھی ہوا۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ اردو کا حال اچھا دکھائی نہیں دے رہا، ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھنا چاہیے، ہم کوشش کرتے ہیں کہ طلبہ کی دل چسپی کے موضوعات پڑھائیں، تاکہ وہ لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوں۔ اس کے لیے ماحول پیدا کرنا پڑے گا۔ اردو زبان کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ اس پر اگر توجہ نہیں دیں گے، تو اس سے بھی زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑیں گے۔ جب کہ آج تو بہت سہولتیں ہیں کہ فوٹو کاپی کرا لیجیے، عکس لے لیجیے، یہ ماضی میں نہ تھیں۔ کیا ہم ان سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو کو اتنا کچھ دے رہے ہیں؟ کسی کے دنیا سے چلے جانے پر ہم کب تک یہ کہتے رہے ہیں کہ فلاں کا خلا پُر نہیں ہوگا۔ اگر یہ رسمی جملہ ہے تو پھر ایسا سوچنا غلط ہے۔ اسکولوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی مدارج تک یہی حالت ہے، اگر یہی سلسلہ رہا تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ دھرتی بانجھ ہو جائے گی۔ ہمیں اس صورت حال کی وجوہات کو دیکھنا پڑے گا۔

زبان کے بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں، ہمارا پورا سماج زبان پر کھڑا ہے۔ زبان سے ہی ادب تخلیق ہوتا ہے اور کشفی صاحب کہا کرتے تھے کہ 'ادب میں زبان کی تفہیم نہیں، بلکہ یہ پوری انسانی زندگی کی تفہیم ہے۔ اس کو نکال دیجیے تو باقی کیا رہ جائے گا۔' ہم اپنا خیال زبان میں کہتے ہیں۔ جب مجھے ٹھیک زبان ہی نہ آئے، اظہار خیال نہ آئے، اس کے اسلوب، الفاظ اور طور طریقے نہ آئیں تو کیا کریں گے۔

''ڈائجسٹ کو ادب سے خارج نہیں کر سکتا''
لکھنے پڑھنے کی بات پر ان کے مطالعے کی پسند دریافت کی، انہوں نے عمیرہ احمد کا نام لیا تو ہم نے کہا کہ ان پر تو بہت تنقید کی جاتی ہے کہ یہ کمرشل رائٹنگ ہے؟ تو وہ بولے کہ پہلے کمرشل اور نان کمرشل رائٹنگ کے فرق کا تو بتائیے۔ ماضی میں جن لوگوں نے لکھا، تو کیا انہیں پیسے نہیں ملتے تھے؟ ڈائجسٹ میں جو ادب چھپتا ہے، کیا وہ ادب نہیں گنا جائے گا؟ کسی نے کہا تھا کہ اگر احمد ندیم قاسمی اور اشفاق احمد کسی ڈائجسٹ میں چَھپ جائیں، تو کیا وہ احمد ندیم قاسمی اور اشفاق احمد نہیں رہیں گے۔ ادب انسانی زندگی کی تفہیم ہے، چاہے وہ کہیں پر بھی شایع ہو۔ آتا تو انسان کے ذہن میں ہی ہے، یہ بعد کا فیصلہ ہوتا ہے کہ اس کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے، پھر یہ سوچتے ہیں کہ شایع کہاں کیا جائے۔ مطمع نظر یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور دیر پا رہے۔ اخبار کے لیے عموماً یہ مثال دی جاتی ہے کہ اس کی تحریر کی زندگی ایک دن ہے، مگر پہلے زیادہ تر ادب رسائل وجرائد میں ہی شایع ہوا۔ اچھی تحریر تو اچھی ہوتی ہے، میں ڈائجسٹ میں لکھی جانے والی تحریروں کو ادب سے خارج نہیں کر سکتا؎

ایک مصرع بھی جو زندہ رہے کافی ہے صباؔ

میرے ہر شعر کی شہرت ہو ضروری تو نہیں

ابو الخیر کشفی کا سارا کام کتابی صورت میں محفوظ کرنا چاہتا ہوں
ڈاکٹر دائود عثمانی کا تحریری سفر 1988ء میں کالج کے ایک جرید ے 'مخزن' سے شروع ہوا، اس میں اردو میں ایک مضمون 'فن تحریر کا ارتقا' جب کہ سندھی میں 'سندھی میں نعتیہ شاعری' شایع ہوا، وہ اس پرچے کی مجلس ادارت میں بھی رہے۔ اس کے علاوہ ایک مجلے 'ہمارا کراچی' کی ادارت میں بھی شامل ہوئے۔

ان ہی دنوں 'بلدیہ کراچی' کے کالجوں میں ''رسول اکرم ﷺ بہ حیثیت سپہ سالار'' لکھنے پر سیرت کے مقابلے میں دوسرا انعام جیتا۔ ڈاکٹر دائود عثمانی نے 2017-18ء میں پہلی تا آٹھویں اردو کی درسی کتب پر ڈاکٹر محمد طاہر قریشی کے ساتھ تصنیف وتالیف کی، اس کے علاوہ 'صحاح ستہ' پر بھی ڈاکٹر سہیل شفیق کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر دائود عثمانی کی پانچ کتابوں میں تین مرتب، جب کہ دو تصانیف ہیں۔ مئی 2010ء میں اپنے محسن اور استاد ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کی سوانح پر مشتمل 'شفقت کا سائباں' لکھی، اس کے بعد 2011ء میں 'نعت شناسی۔ ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی ' مرتب کی، مئی 2012ء میں کشفی صاحب کے لکھے گئے خاکوں پر مشتمل کتاب 'سائبان لوگ' ترتیب دی، اگست 2012ء میں 'اظہار خیال' کے عنوان سے مشتاق قریشی کی دینی تحاریر جمع کی ہیں۔ جب کہ گزشتہ دنوں انجمن ترقی اردو نے اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ''علامہ راشد الخیری اور ان کے خاندان کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ'' شایع کیا ہے۔

ساتھ ہی وہ ابو الخیر کشفی کی ترتیب دی گئی کتاب میں ان کے بنائے ہوئے خاکے کے مطابق اضافے کرکے شایع کرا رہے ہیں، کتاب کا عنوان 'اردو ادب میں ذکر نبی ﷺ' ہے۔ اس کے علاوہ کشفی صاحب کی اہلیہ بلقیس کشفی کی تحریریں بھی یک جا کرنے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر دائو عثمانی، اپنے استاد کشفی صاحب کا سارا کام کتابی صورت میں جمع کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے جو کام، ان کے حکم تھے وہ کریں گے، وہ کہتے ہیں کہ ان کا قیمتی کام جا بہ جاپھیلا ہوا ہے۔ جیسے اصطلاحات کے حوالے سے کام سامنے نہیں آیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں