پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
متحدہ کے آیندہ لائحہ عمل کا فیصلہ ریفرنڈم کرے گا
متحدہ قومی موومنٹ کا سندھ حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا معاملہ مختلف رنگ اختیار کرتا ہوا اب رابطہ کمیٹی کی جانب سے کرائے جانے والے ریفرنڈم سے مشروط ہو گیا ہے۔
جس کے نتائج ہی اب اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ متحدہ حزب اقتدار کا حصہ ہوگی یا حزب اختلاف کی کمان سنبھالے گی۔ اس سے قبل متحدہ کی جانب سے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے وفد کے دورہ نائن زیرو کے بعد اس مشکل امر کا امکان پیدا ہوا کہ متحدہ حکومت میں شامل ہوجائے گی۔ وفد میں سابق وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، سابق صوبائی وزیر پیر مظہر اور مخدوم جمیل الزماں بھی شامل تھے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے باضابطہ دعوت ملنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے رابطہ کمیٹی کو فیصلہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کی ہدایت کی ہے۔
اس موقع پر انہوں نے لاپتا کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل پر بھی اپنا سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حفاظتی اداروں کو متنبہ کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ باغی ہو کر میری اپیلیں سننا بھی چھوڑ دیں۔ قائد متحدہ نے مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ بھی دیا اور کہا کہ کیا قومی سلامتی کے ادارے اپنے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟ یہ کس آئین اور قانون میں لکھا ہے کہ آپ کسی کو گرفتارکرکے عدالت میں پیش کئے بغیرماورائے عدالت قتل کر دیں؟ ماضی میں بھی ہمارے 28 کارکنوں کو گرفتار کر کے لاپتا کر دیا گیا اور اب مزید 8 کارکنوں کا کچھ معلوم نہیں۔
دوسری طرف پیش کردہ صوبائی بجٹ کو بھی متحدہ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ متحدہ کے رکن سندھ اسمبلی عامر معین پیرزادہ نے اسے دیہی اور شہری تفریق قرار دیا کہ شہری سندھ میں کاروبار پر ٹیکس لگائے گئے اور زراعت پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
نئی حکومت کے قیام کے بعد پورے ملک میں یک ساں لوڈ شیڈنگ کے نام پر کراچی کی بجلی میں کمی کے مطالبات نے بھی سیاسی ماحول میں خاصی گرما گرمی پیدا کی ہوئی ہے۔ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد شہباز شریف نے اپنے دورہ کراچی کے موقع پر بھی معنی خیز انداز میں یہ بات کہی تھی کہ ''کراچی میں بجلی جاتی ہے اور لاہور میں بجلی آتی ہے۔'' اس دوران سینیٹ کمیٹی نے بھی کراچی کی بجلی میں 350 میگا واٹ کٹوتی کے مطالبے کو دُہرایا۔
وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے بھی اس امر کا اظہار کیا کہ کہ کراچی کی بجلی کی 350 میگا واٹ کٹوتی سے باقی ملک میں لوڈشیڈنگ کم ہوگی! پیپلزپارٹی کے سینئر راہ نما تاج حیدر نے اس حوالے سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یک ساں لوڈشیڈنگ کا عدالتی فیصلہ خلاف آئین ہے۔ سندھ کی بجلی اور گیس چھینی جا رہی ہے۔ پنجاب کی بجلی کراچی کو دینے کا الزام حقائق کے منافی ہے۔ شہباز شریف کو پتا ہونا چاہیے کہ کراچی کو پنجاب نہیں، بلکہ واپڈا بجلی فراہم کرتا ہے جو کہ وفاقی ادارہ ہے۔ اس کے ساتھ سندھ اسمبلی میں بھی کراچی کی بجلی میں کمی کا مطالبہ کرنے پر سینیٹ کمیٹی کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہوئی۔
وزیراعلا سندھ قائم علی شاہ نے بھی کراچی میں بجلی کی کٹوتی کو غیر آئینی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پاکستان کو 71 فی صد گیس دیتا ہے جب کہ اسے ملتی صرف 32 فی صد ہے۔ باقی گیس پنجاب میں استعمال کی جاتی ہے۔ قائد حزب اختلاف فیصل سبزواری نے کہا کہ کراچی ملک کو 67 فی صد ریوینیو دیتا ہے۔ بجلی کی فراہمی روکنے سے ملکی معیشت کا پہیہ جام ہو جائے گا۔ کراچی والے بجلی چور نہیں۔ 350 میگا واٹ بجلی کم کرنے کے خلاف احتجاج کریں گے۔ یہاں صرف سندھ کے مستقل باشندے ہی روزگار حاصل نہیں کرتے بلکہ ملک بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں اور ہم ناانصافی پر مبنی اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔
شہر قائد کے منظر نامے میں 8جون کو پی ایس 128 کے 6 پولنگ اسٹیشن میں ہونے والے انتخابات بھی خاصے اہم رہے، جس میں متحدہ کے وقار شاہ اور متحدہ دینی محاذ کے اورنگزیب فاروقی مد مقابل تھے، جس میں صرف 202 ووٹوں کی برتری سے متحدہ کے امیدوار وقار شاہ کام یاب ٹھہرے۔
اے این پی نے پی ایس 128 کے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس حوالے سے بشیر جان کا مطالبہ تھا کہ پورے حلقے میں فوج کی زیر نگرانی انتخابات کرائے جائیں، کیوں کہ عام انتخابات کے روز ہم بم دھماکے میں مرنے والوں کی تدفین اور زخمیوں کی طبی امداد میں مصروف تھے اور انتخابات کے انتظامات نہ کرسکے۔ اے این پی کے بعد تحریک انصاف نے بھی چھ پولنگ اسٹیشن پر پولنگ کے عمل کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ گزشتہ دنوں لیاری میں بھی امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش رہی اور علاقہ مکین مسلسل کئی روز متحارب گروہوں کی جنگ میں محصور رہے۔اس دوران کئی بے گناہ شہریوں کی جان بھی گئی، جب کہ کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔
متحدہ کے ایک اور لاپتا کارکن محمد آصف کے قتل اور چار کارکنوں کو فیکٹری کی بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ نماز جنازہ کے موقع پر رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ خدارا ہمارے کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا نوٹس لیں۔ یہ قتل ہونے والے کارکنان بھی کسی دوسرے علاقے کے لوگوں کے جتنے ہی پاکستانی ہیں۔ اس سے قبل بسوں سے اتار کر اغوا اور پھر قتل کیے جانے والے متحدہ کے کارکنوں کا الزام کالعدم پیپلز امن کمیٹی پر لگایا گیا۔
رابطہ کمیٹی کے راہ نما حیدر عباس رضوی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ واقعے میں امن کمیٹی کا سہیل ڈاڈا نامی گروہ ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں امن کیسے ہوگا جب قائم علی شاہ وزارت اعلا کا حلف اٹھانے کے بعد مزار قائد پر حاضری دینے کے بہ جائے جرائم پیشہ عناصر کی کمین گاہوں پر حاضری دینے پہنچ جائیں گے۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ متحدہ سمیت کسی کو دیوار سے لگانے کا مختلف ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ جہاں ظلم وزیادتی ہو وہاں 1971ء جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ ہمارے لاپتا کارکنان کا اب تک کچھ پتا نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا انہیں مار دیا گیا۔ کراچی کی نمایندگی کی دعوے دار جماعتیں انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے لیے تو دھرنے دیتی ہیں لیکن شہر کے صنعت کاروں اور تاجروں اور عوام پر ظلم پر ان سے ہم دردی کے دو بول تک نہیں بولے گئے؟
حکومت سازی، امن ومان بجٹ اور بجلی کے علاوہ برما میں مسلمانوں کے قتل عام کی بازگشت بھی شہر قائد میں سنائی دی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جس میں مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کی سخت مذمت کی گئی اور مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم وبربریت کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔