دوراہا
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان نے پنڈت نہرو کو مشترکہ دفاع کی پیش کش کی تھی لیکن پنڈت جی نے سوال کیا، ’’کس کے خلاف‘‘؟۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان نے پنڈت نہرو کو مشترکہ دفاع کی پیش کش کی تھی لیکن پنڈت جی نے سوال کیا، ''کس کے خلاف''؟حالانکہ پنڈت نہرو کو بخوبی علم تھا کہ ایوب خان کی پیشکش کا کیامطلب ہے۔ یہ سرد جنگ کے دور کی باتیں ہیں۔ اس زمانے میں سارا وسط ایشیا سوویت یونین کا حصہ تھا اور اس کی فوجیں افغانستان کی سرحد تک آ چکی تھیں۔کمیونزم کی اگلی منزل افغانستان اور پھر وہاں سے پاکستان اور ایران تھی، گرم پانی زیادہ دور نہیں تھے۔ پنڈت نہرو ان دنوں سوویت یونین کے سحر میں گرفتار تھے۔ ایوب خان نے جو پیشکش کی تھی' اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت اور پاکستان متحد ہو کر کمیونزم کا راستہ روکتے ہیں لیکن پنڈت جی نے ایسا نہیں کیا۔ اگر وہ کمیونزم اور کیپٹل ازم کی وقتی آویزش کو نظر انداز کرتے ہوئے گہرے تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتے اور ایوب خان کی پیشکش مان جاتے تو شاید سوویت افواج افغانستان میں داخل ہی نہ ہوتیں اور عالمی سیاسی صف بندیاں ایک نئی شکل میں سامنے آتیں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگیں بھی نہ ہوتیں اور آج دونوں ملک ایک دوسرے کے یوں قریب ہوتے جیسے یورپی یونین کے ممالک ہیں۔ بہر حال اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ پلوں کے اوپر سے پانی بہہ چکا ہے۔ سوویت یونین بکھر گیا ہے' سرد جنگ ختم ہو گئی ہے' پرانے اتحاد ٹوٹ گئے ہیں' وسط ایشیا قومی ریاستوں کی شکل میں آزاد ہے۔ افغانستان امریکا کی گود میں بیٹھ گیا ہے۔ امریکا نے نیشنل آرمی کے نام سے افغانستان کے لیے نئی فوج تیار کر دی ہے جس نے اپنے ملک کی سیکیورٹی کی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ اگلے برس وہاں سے امریکا اپنی فوج کے بڑے حصے کو واپس لے جائے گا لیکن اس کے اڈے قائم رہیں گے اور وہاں اس کی فوج بھی موجود رہے گی۔ اب افغانستان برصغیر پاک و ہند اور سوویت یونین کے درمیان بفر اسٹیٹ نہیں رہا' وہ ایک بالکل نئی شکل میں ابھر رہا ہے۔
افغان فوج کی جن خطوط پر تربیت کی جا رہی ہے' اس میں پاکستان دوست نہیں بلکہ دشمن ملک قرار پاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ علاقے کو ہم اسٹرٹیجک ڈیپتھ کہتے ہیں' وہاں سے اسے خطرہ محسوس نہیں ہوتا بلکہ اسے وہ اپنا علاقہ سمجھتی ہے۔ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔افغانستان کے سیاسی اور علمی ماحول میں تاجکستان دشمن ہے نہ ازبکستان نہ ترکمانستان' ایران کے ساتھ بھی ان کی دشمنی نہیں کیونکہ تاریخی طور پر افغانستان ایرانی سلطنت کا ہی حصہ رہا ہے۔ اسے عناد ہے تو اپنے جنوب سے ہے۔ وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں تو جنوب سے اور جنوب میں کوئی اور نہیں ہم آباد ہیں۔ یہ تاریخی سچائی ہے' بالکل اسی طرح جیسے عرب و عجم کی تقسیم ہے۔ عرب بھی مسلمان ہیں اور ایران بھی مسلمان لیکن ہزاروں برسوں کی جو تاریخ اور جغرافیہ ہے' اسے نہیں بدلا جا سکتا' اس طرح برصغیر پاک و ہند اور وسط ایشیاء اور ایران کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے اور اسے بھی خواہشوں سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
میں یہ سن کر حیران رہ گیا جب حامد کرزئی کے ساتھ ایک ٹی وی انٹرویو میں میزبان نے حامد کرزئی سے یہ بات منسوب کی کہ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ ہوئی تو ان کی خواہش ہو گی کہ وہ اپنے اکلوتے صاحبزادے کو اس جنگ میں لڑنے کے لیے بھیجیں۔ یہ ایسے شخص کی بات ہے جسے پاکستان نے پناہ دی تھی لیکن وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ شاید تاریخ کا جبر اور جغرافیائی حقیقتوں کا اظہار ہے' میں بھی اگر کابل کا شہری ہوتا تو اسی طرح سوچتا کیونکہ ہر شخص اپنے ارد گرد ماحول، سیاست اور معاشرت کا اسیر ہوتا ہے۔ اگر یہی حامد کرزئی جلا وطن ہوتا اور اسلام آباد میں مقیم ہوتا تو کبھی ایسی بات زبان پر نہ لاتا۔ میری یہ باتیں بہت سے لوگوں کے لیے عجیب بھی ہوں گی اور کئی اس پر سیخ پا بھی ہوں گے لیکن ملکوں اور قوموں کے جغرافیے اور ان سے جنم لینے والی تاریخ خواہشوں اور تمنائوں سے نہیں بدلی جا سکتی۔ برصغیر اور وسط ایشیا کے مابین ایک تاریخی آویزش ہے' اس کے درمیان ہی کہیں محبت بھی منڈلاتی رہتی ہے۔
برصغیر میں مغل خاندان کی حکمرانی کی داغ بیل ڈالنے والا ظہیر الدین بابر افغان نہیں تھا' وہ ازبک تھا' خود کو چنگیز خان کی اولاد کہلاتا تھا۔ اس نے پہلے افغان علاقے کی باہمی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر وہاں حکمرانی قائم کی اور پھر ہندوستان میں ابراہیم لودھی اور رانا سنگرام سنگھ (رانا سانگا) کی چپقلش سے فائدہ اٹھایا۔ رانا سانگا نے بابر کی فوج کا ساتھ دیا' یوں ظہیرالدین بابر شمالی ہند کے حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر تخت دہلی پر قابض ہو گیا' یہ الگ بات ہے کہ اس کے جانشین ہندوستان کا ہی حصہ بن گئے، اس وقت اگر ابراہیم لودھی اور رانا سنگرام سنگھ کے زیر اثر اسٹیبلشمنٹ اپنی نفرت اور تعصبات کو کنٹرول کرتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کے اصول پر اپنے اپنے مفادات کا کوئی قابل قبول ارینجمنٹ کر لیتی تو شاید بابر نامی حکمران کا ہندوستان کی تاریخ میں ذکر نہ ہوتا' شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ لمحوں کی غلطی صدیوں کی سزا بن جاتی ہے۔
پاکستان آج تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے' اس ملک کی اشرافیہ تاریخی شعور سے نا آشنا ہے یا حقائق جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے تاریخ کو اپنی خواہش کے مطابق بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے ملک کے شمال مغربی علاقے میں ایسی باغی یا دہشت گرد فورس موجود ہے جو افغانستان اور وسط ایشیاکے لیے تو نرم گوشہ رکھتی ہے لیکن پاکستان کو تباہ کر رہی ہے۔ بلوچستان میں قائد اعظم کی تاریخی رہائش گاہ کو جلا کر جو پیغام دیا گیا ہے' حکمرانوں کو اس کا پورا ادراک ہے۔ تاریخ کا سچ کھڑکیاں دروازے توڑ کر ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ ایک ایسا مسلح گروہ جس نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی حصہ نہیں لیا' قومی خزانے میں کبھی ٹیکس جمع نہیں کرایا' وہ ایک سامراجی ذہن بنا کر اس ملک پر قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بنے بنائے گھروں میں خود آ کر رہنا چاہتا ہے' کھیتوں میں لہلہاتی فصلوں کو خود کاٹنا چاہتا ہے' اس انتہائی نازک وقت میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ نظریاتی خلفشار کا شکار ہے' اگر اس نظریاتی خلفشار پر جلد قابو نہ پایا گیا تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک نکلیں گے۔ کسی کو یقین نہیں آتا تو شہرہ آفاق انگریزی فلم دی فال آف رومن ایمپائر دیکھ لے' اگر انگریزی سمجھ نہیں آتی تو برصغیر پاک و ہند کی اردو میں لکھی تاریخ ہی پڑھ لے۔ شاید کچھ سمجھ آ جائے۔