’’خود کو پہچانو‘‘
خدا کی تمام مخلوقات میں یہ قوت صرف انسان ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے ماحول کے رحم و کرم پر نہیں رہتا بلکہ وہ ...
خدا کی تمام مخلوقات میں یہ قوت صرف انسان ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے ماحول کے رحم و کرم پر نہیں رہتا بلکہ وہ اس کو بدلنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ بہت شروع میں انسان بھی اپنے ماحول کا غلام تھا وہ نہ تو اس کے باہر کچھ دیکھ سکتا تھا اور نہ سوچ سکتا تھا وہ پورے طور پر قوانین فطرت کے تابع تھا و ہ ہر چیز کو آنکھ بند کر کے مانتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ ابتداء میں انسان کی سماجی زندگی میں کسی قسم کی تنظیم نہ تھی مملکت یا حکومت کا وجود نہ تھا اس کے نہ ہونے سے انسان کو بے شما ر دقتیں اور مصیبتیں سہنی پڑتی تھی اندھا دھند اور بے قید آزادی نے سب کے لیے دشواریاں پیدا کر دیں اس افراتفری کو دور کرنے کے لیے مملکت کا قیام عمل میں آیا اور انسانوں نے اپنی زندگی سیاسی تنظیم کے ماتحت گزارنی شروع کی اور دنیا حکومت کے نام سے آشنا ہوئی لیکن قانون اور اخلاق الگ الگ نہ تھے خیالات کی بنیاد رواج یا رسموں پر تھی۔ لوگوں کو اس کی آزادی حاصل نہ تھی کہ وہ خیالات کو آزادی کے ساتھ ظاہر کر سکیں۔
اس زمانے کی سیاسی فکر کا خلاصہ یہ تھا کہ مملکت، مذہب اور اس قسم کی ساری تنظیموں کی پوری طرح سے اطاعت کی جائے بادشاہ کی بے چوں و چرا اطاعت کی جائے کلیسا، پروہتوں اور پجاریوں کی آنکھ بند کر کے تعمیل کی جائے مملکت اور مذہب دونوں میں مطلق العنانی کا دور دورہ تھا کسی شخص کو اس کی آزادی نہ تھی کہ وہ مذہب یا حکومت کے خلاف کچھ کہہ سکے۔ اس زمانے میں مملکت خالص مذہبی تھی مصر میں شہنشاہ یا فرعون کی پرستش کی جاتی تھی اسے دیوتا سمجھا جاتا تھا سیریا (ملک شام) اور فارس (ایران) میں شہنشا ہ کو دیوتائو ں کا نائب سمجھا جاتا تھا لیکن ساتھ ساتھ اس دور میں چینی، ہند ی، عبرانی یا یہودی مفکرین مملکت کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کے اظہار کرتے رہے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پانچویں صدی قبل مسیح کا آخری حصہ یونان کی انتہائی ذہنی سرگرمیوں کا زمانہ تھا اس زمانے میں سیاسی مسئلوں پر غور و خوص کیا گیا اور اسی کے نتیجے میں افلاطون اور ارسطو کی سیاسی تصنیفیں عالم وجود میں آئیں لیکن ان سے پہلے بھی سیاسی مسئلوں پر غور و خوص شروع ہو چکا تھا اور مختلف سیاسی نظریے قائم ہو چکے تھے۔ سولن نے اپنی نظموں میں سیاسی اصولوں کو بیان کیا دوسرے فلسفیوں فیساغورث نے، جو ریاضی کا ماہر اور زبردست عالم تھا، ریاضی سے زندگی کا ایک خاص فلسفہ مرتب کیا جس کا دوسرے سیاسی مفکروں خصوصاً افلاطون پر گہرا اثر پڑا۔
فیسا غورث کے فلسفے کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ ایک عدد اس وقت تک ثابت رہتا ہے جب تک اس کے اجزا میں مساوات ہو اور انصاف کا مقصد ہی اس مساوات کو قائم رکھنا ہے اس نے انسانوں کو 3 قسموں میں تقسم کیا (۱) عقل پرست (۲) شہرت پرست (۳) دولت پرست اور انہیں اس نے سماج اور مملکت کا جزو قرار دیا۔ پاکستان جمہوریت کی جانب ایک بہت ہی مشکل دور سے گزر رہا ہے چھ دہائیوں کے گزر جانے کے با وجود پاکستان کے 18 کروڑ عوام کا حق حکمرانی آ ج بھی ہچکیاں لے لے رہا ہے شہرت پرست اور دولت پرست ٹولے کی طرف سے دیے گئے زخموں سے آج تک خون رس رہا ہے جس سے پورا پاکستان لہو لہان ہے ہم اس جگہ پر کھڑے ہیں جہاں ہمارا اپنا وجود ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے ہم آج بھی بنیادی سوالوں کے جواب کی تلاش میں بھٹکتے نظر آتے ہیں کیا یہ ملک ایک فلاحی ریاست کے طور پر قائم رکھنے کے لیے وجود میں آیا تھا جہاں سماجی، معاشی اور معاشرتی انصاف کا بول بالا ہو گا جہاں مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کوئی تفریق نہ ہو گی یا پھر چند شہرت پرست، دولت پرست، جنونی، استحصالی ٹولے کا راج ہو گا، نطشے نے کہا تھا کہ تاریخ کبھی کبھار ہمارے راستے کا پتھر بن جاتی ہے اور کوئی بڑا تخلیقی کارنامہ انجام دینے کے لیے بعض اوقات تاریخ کو بھولنا ضروری ہو جاتا ہے ذہنی طور پر آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں۔ جہاں بنی اسرائیل اپنی ہجرت کے فورا ً بعد پہنچے تھے ہم ان کی طرح ماضی و حال کو تو کوس سکتے ہیں لیکن کسی نئی تعمیر کا نقشہ ہمارے ذہن میں موجود ہی نہیں ہے۔
خو شحالی، ترقی، امن اور استحکام ہمارے لیے اس کا لی بلی کی طرح ہو گئی ہے جسے ہم اندھیرے کمرے میں ڈھو نڈ رہے ہیں پاکستان کے عوام کو اپنی عظمت کا احساس اور شخصیت کے لا محدود امکانات کا علم اب ہو جانا چاہیے۔ ہندوستان کے رشی، چین کے جہاں گرد راہب، اسرائیلی بنی اور یونانی فلسفی دنیا کو ایک ہی پیغام دیتے سنائی دیے ''انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہائیوں میں کھو کر ہی کائنات کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نور باطن اور فکر و وجدان ہی وہ مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر وہ اس مسرت لازوال کو پا سکتا ہے جس کی جستجو وہ ازل سے کرتا آیا ہے سقراط کی بھی یہ ہی تعلیم تھی ''خود کو پہچانو''۔
ہمیں خود اپنی آگ میں جلنے اور خود اپنا تماشا بنانے کی بجائے خود کو پہچانا ہو گا چند شہرت پر ست اور دولت پر ستوں کی ہم پر حکمرانی ہمارا مقدر یا نصیب نہیں اور نہ ہی یہ ہمارا حاصل جدوجہد ہے یہ ٹولہ ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہم پر مسلط ہو گیا ہے ان سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ہی آسان کام ہے بس ہمیں خود کو پہچانا ہو گا، مملکت کا وجود عوام کے لیے ہے نا کہ عوام کا وجود مملکت کے لیے۔ عوام کو با اختیار، خوشحال کیے بغیر مملکت قائم نہیں رہ سکتی، حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔ ہماری یہ بھی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم سوچنا چھوڑ دیا۔ ہم اس وقت تک آگے بڑھ ہی نہیں سکتے جب تک ہم اپنے تمام سیاسی مسئلوں کا حل آئین کے مطابق نہیں ڈھونڈ لیتے، سیاسی مسئلوں کو طے کیے بغیر نہ ہم خو شحال بن سکتے ہیں اور نہ ہی سرخ رو ہو سکتے ہیں۔