باتیں کرتی نظمیں
نظم گو شاعر اپنی نظم کے پہلے مصرعے کو ہی عنوان بنالیتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں، ان کے ذوق اور وسعت مطالعہ اور مختلف زبانوں پر ان کی دسترس کا تو مجھ سمیت ایک زمانہ قائل ہے لیکن ان کی نظموں کا تخلیقی حسن، انوکھا پن اور موسیقیت بھی اپنی جگہ پر ایک فضا اور مقام رکھتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان کی شخصیت کے مخصوص ٹھہراؤ اور عالمانہ تاثر کے باعث اس طرف ادبی دنیا کی توجہ نسبتاً کم کم رہی ہے۔
کئی مشاعروں اور شعری نشستوں میں ان کو سننے کا اتفاق تو بارہا ہوا ہے مگر ہر بار ان کے سنجیدہ طبعی اور علمیت کا احساس اس قدر غالب رہا کہ بطور شاعر وہ مولانا حالی کے اس مصرعے کی طرح ہی رہے کہ ''اک مرغ ہے خوش لہجہ کہ کچھ بول رہا ہے'' مگر اب جو ان کی بہت سی نظموں کو (جو کتابی صورت میں شایع بھی ہورہی ہیں) ایک ساتھ پڑھنے اور ان کے موضوعات کی وسعت، داخلیت اور اظہار کی کاریگری کو تفصیل سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے تو ان کے لیے فوری طور پر میرے ذہن میں جو ترکیب اور عنوان اترے وہ ''بولتی ہوئی نظمیں'' یا ''باتیں کرتی نظمیں'' کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔
امیجری یا تمثال کاری یوں تو شاعری کی ہر صنف میں رواں دواں ہیں مگر میرے نزدیک ان کا روپ ''نظم'' کی شکل میں سب سے زیادہ دلکش اور متنوع ہوتا ہے کہ اس میں کسی تمثال کے مختلف شیڈز کو ایک جگہ جمع کردینے سے جو گلدستے کی سی صورت بنتی ہے وہ شاید کسی اور صنف میں اس طرح سے ممکن نہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ نظمیں ایک ہی وقت میں خود کلامی اور مکالمے یعنی Monologe اور Dialogue دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ایک ایسی حیرت انگیز اور پر لطف خصوصیت سے متصف ہیں کہ جیسے آپ کسی منظر کو ایک ساتھ دوربین اور خوردبین سے دیکھ رہے ہوں۔
مزید لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ خوبی نظموں کے عنوان سے لے کر آخری لائنوں تک نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ بھی ہوتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چند عنوانات دیکھیے جو اپنی جگہ پر مکمل مصرعے بھی ہیں۔
''آنکھوں میں چھپے موتی'' ''چلو تصویر سے پوچھیں'' 'سمے کا پارکھ'' کرن، خاک اور خواب'' مٹھیوں میں بند خواب'' ''رکو، دیکھو'' ''سینے میں سانس لیتی کرن'' تمہارے ہاتھ کتنے خوبصورت ہیں'' ''ان گنت صدیوں کے پیچاک میں دمکتا ستارہ'' ''کوئی شجر کسی پرندے سے'' ''یہی دن تھے'' ''محبت آزمائیں گے'' ''نظم تم سے کلام کرتی ہے، ''ترا عکس آئینوں میں'' ''اداسی کو بہانا مل گیا ہے'' ''تمہیں کیسے مناؤں'' ''بچھڑ جانے والوں سے پہلی رات کا مکالمہ'' وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ نظم گو شاعر اپنی نظم کے پہلے مصرعے کو ہی عنوان بنالیتے ہیں لیکن زاہد منیر عامر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اتنے خوش رنگ اور خوش صورت مصرعے ہونے کے باوجود ان میں سے بیشتر کو عنوانات تک ہی محدود رکھا ہے۔
اب آئیے کچھ نمونے خود کلامی اور مکالمے کی ملی جلی فضا کے بھی دیکھتے ہیں۔ زاہد منیر عامر نے یہاں بھی ''علامت'' کے حسن کو بہت کفایت سے برتا ہے اور زیادہ تر نظموں کا اختتام ایک ایسے انداز میں کیا ہے کہ نظم استعارہ در استعارہ چلنے کے باوجود ایک نوع کی شاعرانہ Statement کا سا تاثر دیتی ہے۔
مکمل نظم (اپنے عمومی اختصار کے باوجود) درج کرنے کی گنجائش چونکہ کم ہے اس لیے مختلف نظموں کی چند جستہ جستہ لائنوں پر اکتفا کرنا پڑے گا یہ اور بات ہے کہ ان بکھری ہوئی لائنوں میں بھی وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جنھیں زاہد منیر عامر کی نظموں کی پہچان اور انفرادی خصوصیت کہا جاسکتا ہے۔
''محبت سے پہلے
کسی روپ میں دلکشی نے بسیرا کیا ہی نہیں تھا
نئی زندگی اور نئے روز و شب میں
نئے سلسلوں میں سجی ہیں بہاریں
محبت سے پہلے تو کچھ بھی نہیں تھا،
میں شیشے کی دیوار میں قید ہوں
یہی آب و گل ہے، یہی سبزہ و گل
انھی پتھروں میں مجھے ڈھونڈنا ہے
وہ نغمہ کہ جس سے رواں ہے یہ پانی
مری آگ پانی میں رکھ دی گئی ہے''۔
''لیکن کسے فرصت ہے؟
رک کر وہ ہمیں تھامے
اور کون ہے جو روکے؟
ہر ایک کی دنیا کے
کچھ اپنے مسائل ہیں''
''تمہاری ضرورت سے میں آشنا ہوں
مرے سحر سے تم مگر بے خبر ہو
بتائے دنوں کو بدلنے کی قیمت
وہ دن ہیں، ابھی منکشف جو نہیں ہیں
فزوں تر ہے تم سے، تمہارا تخیل''
''تمہاری آنکھ کے روشن ستارے نے
مہ و مہر و فلک کے استعارے نے
تمناؤں کے دھارے نے
تمہارے خواب نے بے خواب آنگن کو اجالا ہے
مگر یہ خواب۔۔۔۔
یہ تعبیر سے ناآشنا سپنا''
اگرچہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی شخصیت کے بہت سے رنگ ڈاکٹر خورشید رضوی سے ملتے جلتے ہیں مگر شاعری کی حد تک دونوں کے راستے یکسر جدا جدا ہیں، زاہد منیر عامر کی جہاں گردی نے ان کے اسلوب شعر اور انداز نظر میں جس وسعت اور گہرائی کو یکجا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے کہ ان نظموں میں ایک حساس دل کی دھڑکن اور ایک وسیع المطالعہ اور حقیقت پسند دماغ کی معاملہ فہمی ایسی ہے کہ جو ان کو اپنے ہم عصر شاعروں سے واضح طور پر ممیز اور ممتاز کرتی ہے اور جدید بین الاقوامی رویوں اور نظریات کا ایک ایسا منظرنامہ بناتی ہے کہ ہر منظر دامن دل کو کھینچتا اور نت نئے سوال اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ اور یوں ہر نظم آپ کو باتیں کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔