عمران خان کا دَورہ چین توقعات کیا ہیں
چین نے ہمارے وزیر اعظم کی مالی دستگیری کی تو آئی ایم ایف کے وفد سے معاملات طے کرنے میں کئی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
وزیر اعظم عمران خان کا پہلا دَورہ چین آج مورخہ 2نومبر2018ء سے شروع ہو رہا ہے۔ وہ چار روز تک چین میں رہیں گے ۔ واپس وطن پہنچیں گے تو آئی ایم ایف کا وفد بھی پاکستان پہنچ چکا ہوگا۔ اگر توقعات کے مطابق چین نے ہمارے وزیر اعظم کی مالی دستگیری کی تو آئی ایم ایف کے وفد سے معاملات طے کرنے میں کئی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
عمران خان دَورہ چین کے دوران شنگھائی بھی جائیں گے جہاں ایک بین الاقوامی ایکسپو ہو رہی ہے۔ یہ چین کی پہلی انٹر نیشنل امپورٹ ایکسپو ہے۔ چین میں پاکستانی سفیر، مسعود خالد، نے اس میں پاکستانی مصنوعات کو دُنیا بھر کے سامنے متعارف کروانے کے لیے بڑی محنت کی ہے۔ وزیر اعظم کی اس نمائش میں بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت پاکستانی صنعتکاروں کے لیے بڑی مفید ثابت ہو گی۔چینی دارالحکومت، بیجنگ، میں وزیر اعظم پاکستان کو کئی اعلیٰ سطح میٹنگوں میں شریک ہونا ہے۔
ان میٹنگوں میں ''سی پیک'' سے متعلقہ کئی معاملات مرکزی مقام رکھتے ہیں۔عمران خان کویہ دعوت اپنے چینی ہم منصب Li Keqiang کی جانب سے ملی تھی؛ چنانچہ دَورہ چین میں خان صاحب صدرِ چین جناب ژی جنگ پنگ سے بھی ملاقات کریں گے اور وزیر اعظم چین سے بھی۔ 25جولائی کے انتخابات میں برتری حاصل کرتے ہی عمران خان صاحب کو دَورہ چین کی دعوت اُس وقت مل گئی تھی جب پاکستان میں متعین چینی سفیر نے فوری طور پر اُن سے بنی گالہ میں ملاقات کی تھی؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان جناب عمران خان کے اِس دَورہ چین کی تیاری پچھلے کئی ہفتوں سے کررہا تھا۔ یہ دَورہ ایسے نازک حالات میں ہورہا ہے جب امریکا نے نئے انداز میں رُوس اور چین کے خلاف نئی سرد جنگ شروع کررکھی ہے۔عالمی اقتصادی نظام دباؤ میں ہے؛ چنانچہ چین اور پاکستان خاصی احتیاط کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
خصوصاً ''سی پیک'' کے منصوبوں کے بارے میں دونوں فریقین محتاط لہجہ اختیار کیے ہُوئے ہیں۔ یہ احتیاط کی بھی جانی چاہیے کہ اس منصوبے کے کئی عالمی دشمن اس گھات میں بیٹھے ہیں کہ جونہی دونوں فریقین میں سے کسی سے کوئی غلطی سرزَد ہوتو اس منصوبے کے خلاف طوفان اُٹھا دیا جائے۔امریکا اور بھارت کی نظریں جناب عمران خان کے اِس اوّلین دَورہ چین پر ہمہ وقت لگی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ہر رُخ سے اس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ یہ دونوں ممالک ''سی پیک'' کے بارے جو خیالات رکھتے ہیں، ہم سب ان سے آگاہ ہیں۔ ہر محبِ وطن پاکستانی کو ان خیالات سے آگاہی رکھنی چاہیے کہ 60ارب ڈالر کا یہ ''سی پیک'' پاکستان کی معیشت اور صنعتی ترقی میں گیم چینجر کا کردار ادا کرنے والا ہے۔
جوں جوں ''سی پیک'' کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں، خصوصاً بھارت کو اس منصوبے سے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے؛ چنانچہ جناب عمران خان کے اس دَورہ چین کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے بھارت نے اپنی دُور بینیں اور خوردبینیں سنبھال لی ہیں۔نئی دہلی میں بروئے کار ایک تھنک ٹینک کے سربراہ اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ہرش وی پنت (جن کی لکھی گئیThe China Syndromeنامی کتاب خاصی معروف ہے)نے اپنے تازہ آرٹیکل میں بھارتی حکومت کو مشورے دیے ہیں کہ امریکا سے مل کر عمران خان کے اس دَورے کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وزیر اعظم عمران خان اس دَورے میں چین سے کیا کیا حاصل کر سکتے ہیں؟ بھارتی وزیر اعظم ، نریند مودی، اب تک پانچ بار چین کا دَورہ کر چکے ہیں لیکن پاکستان کو کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی ہے لیکن ہمارے خانصاحب کے پہلے دَورے پر ہی بھارتی اعصاب تناؤ میں آ گئے ہیں۔ بھارت اتنا بڑا ملک ہے مگر ہمسایوں کے لیے اس کا ظرف چیونٹی سے بھی کم ہے۔
پاکستان یقینا یہ چاہتا ہے کہ عمران خان کا یہ دَورہ چین ہر لحاظ سے کامیابی سے ہمکنا ر ہو ۔ دوسری جانب چین کی بھی یہی خواہش ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے بیجنگ پہنچنے سے چند دن پہلے چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان Hua Chunyingنے اخبار نویسوں کو بریفنگ دیتے ہُوئے کہا:''ہمیں اُمید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دَورہ چین ہر لحاظ سے کامیاب ہوگا۔ ہم پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر اچھی ہمسائیگی، گہری دوستی اور قریبی تعاون کی ایک مثال بننا چاہتے ہیں۔ یہ دوستی علاقائی امن، خوشحالی اور استحکام کے لیے ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔''
چینی وزارتِ خارجہ کی مذکورہ ترجمان نے اس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ عمران خان کے دَورے سے ''سی پیک'' کے حوالے سے کئی معاملات مزید مستحکم اور مضبوط ہوں گے۔ عمران خان کے اس دَورے سے قبل چند پاکستانی صحافیوں کو چین بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مقصد غالباً یہی تھا کہ خان صاحب کے دَورہ چین سے قبل کچھ راہیں ہموار کی جا سکیں۔
اِن اخبار نویسوںمیں سے بعض نے وطن واپسی پر جو مشاہدات رقم کیے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ چین ہر معاملے میں پاکستان کا ساتھ نبھانے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے چینی حکام کے ساتھ قریبی اور گہرے روابط استوار کیے تھے لیکن اب جب کہ شریف برادران اقتدار میں نہیں ہیں، چین یہ چاہتا ہے کہ بدلے سیاسی حالات میں نئے پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ پوری طرح ایڈجسٹمنٹ کر سکے۔
چین کسی بھی طرح پاکستان میں کی گئی سفارتی،سیاسی ، سماجی اور مالی انویسٹمنٹ ضایع نہیں کرنا چاہتا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے چین روانہ ہونے سے ایک ہفتہ قبل پاکستان میں متعین چینی سفیر (ژاؤ جنگ) نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی تھی اوراسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا:''چین کو عمران خان کے دَورے کا انتظار ہے۔ ہم عمران خان کے وژن ''نئے پاکستان'' سے آگاہی چاہتے ہیں۔''چینی قیادت تک یہ خبریں پہنچی ہیں کہ پاکستان میں کہیں کہیں ''سی پیک'' کے بعض منصوبوں کے بارے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں، اِسی لیے چینی سفیر نے اپنے مذکورہ خطاب میں یہ بھی کہا کہ سی پیک پاکستان کے لیے ہر گز بوجھ نہیں ہے اور یہ کہ اگر ''سی پیک'' بارے کہیں خدشات ہیں بھی تو چین ان سب کا ازالہ کرے گا۔
لگتا یہی ہے کہ جناب عمران خان کے دَورہ چین کے دوران ''سی پیک'' بارے مکالمے کومرکزی مقام حاصل رہے گا۔ پاکستان یقینا یہ بھی چاہے گا کہ ''شہد سے زیادہ شیریں'' اُس کا یہ دیرنیہ دوست غیر معمولی طور پر اُس کی مالی مدد بھی کرے۔ چینی قیادت تک غیر ملکی اخبار نویسوں سے کہے گئے عمران خان کے یہ الفاظ یقینی طور پر پہنچے ہوں گے کہ ''ہمیں مالی امداد کی شکل میں روپوں کی بے حد اور فوری ضرورت ہے۔''
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ چین جس نے چند ماہ قبل ''ایف اے ٹی ایف'' بحران میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کر دیا تھا،کیا ہمارے وزیر اعظم کی فوری طور پر مالی مشکلات حل کر سکے گا؟ بعض امریکی پابندیوں سے چینی خزانے میں خاصی کمی آئی ہے۔
کیا چین ان لمحات میں پاکستان کی مشکل کشائی کر سکے گا؟چین اہم اسٹرٹیجک معاملات میں پاکستان کا اہم ترین پارٹنر ہےاور پاکستان رواں لمحات میںبھارت کے تازہ ترین ڈیفنس معاملات بارے جن تحفظات کا اظہار کررہا ہے، اُمید ہے عمران خان یہ معاملات بھی چینی قیادت کے سامنے اُٹھائیں گے۔ خاص طور پر بھارت نے رُوس سے حالیہ ایام میںپانچ ارب ڈالر کے جو ''ایس400'' نامی دُور مار میزائل خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔
دوسری طرف چینی قیادت ہمارے نَو منتخب وزیر اعظم سے یہ چاہے گی کہ ساؤتھ چائنہ سمندر تنازع ،تائیوان کے بارے میں وَن چائنہ وَن پالیسی اور چینی (یغور) مسلمانوں کے حوالے سے چین کی مرکزی پالیسیوں کا ساتھ دیا جائے۔ مغربی اور امریکی میڈیا یغور مسلمانوں کا منفی ذکر کرکے چین کو بدنام کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ اس مغربی پروپیگنڈے کے کچھ جراثیم ہمارے میڈیا میں بھی سرائت کر گئے ہیں۔
چینی قائدین وزیر اعظم عمران خان سے ان جراثیموں کے تدارک کے بارے میں بھی بات کر سکتے ہیں۔ ہمیں اگر چینیوں سے ہر شعبہ حیات میں مدد لینی ہے تو اُن کی مدد بھی کرنا ہو گی۔ ہر پاکستانی کی یہ فطری خواہش ہے کہ عمران خان کا یہ دَورہ چین ہر رُخ سے کامیاب ہو۔سچی بات تو یہ ہے کہ اِس وقت چین اور پاکستان ، دونوں کو ایک دوسرے کی سخت ضرورت ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے اس اہم ترین دَورہ چین کے موقع پر سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے پس منظر میں ملک میں امن و امان کی صورتحال کچھ خراب ہے۔ اُمید ہے حالات جَلد ہی نارمل ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔