کشمیر کا حل اب دو ٹوک
اندرا گاندھی اچھی طرح جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان کے وجود سے الگ کرواکر وہ اسے بھارت کا حصہ نہیں بناسکتی۔
پچھلے چند ہفتوں میں تیس سے زائد آزادی کی جنگ لڑنے والے اپنی جانوںسے ہاتھ دھوچکے ہیں ۔ حال ہی میں جوان ساحر احمد اور اویس احمد نون کی شہادت نے اہل کشمیرکے صبر کا پیمانہ لبریزکردیا ، ہر دوسرے تیسرے روز ایک شہادت کیا کشمیریوں کے دل سے آزادی کی شمع کو بجھاسکتی ہے؟ کیا بھارتی افواج کی سفاکی اور خود غرض حکومت کی چالیں اہل کشمیر کو اپن حق آزادی حاصل کرنے سے روک سکتی ہیں؟
27 اکتوبر 1947 وہ سیاہ دن تھا جب اس وقت کے وزیر مملکت بھارتی جواہر لال نہرو کے حکم پر بھارتی افواج نے کشمیر پر اپنا پڑاؤ ڈالا یہ معاملہ اس وقت اس قدر آسان نہ تھا گو انٹرنیٹ اور دوسرے تیز رفتار مواصلاتی ذرایع نہ تھے لیکن 14 اگست 1947 کو مسلمانان ہند کے لیے ایک خطے کو پاکستان کے نام سے علیحدہ آزاد ریارست کا حق مل چکا تھا۔ اہل کشمیر بھی اپنے اس حق سے بخوبی واقف تھے، اسی لیے انھوں نے 19 جولائی 1947 کو جموں وکشمیر کی واحدہ نمایندہ جماعت مسلم کانفرنس کے نمایندہ اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد پاس کی تھی۔
یہ طے تھا کہ دوسری تمام ریاستوں کی مانند کشمیر کو بھی آزاد ریاست کے طور پر اس کی مرضی کے مطابق حق مل جائے گا لیکن اس وقت کی سیاسی چال نے آج تک لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ۔ ایک بھارتی نیوز چینل کے مطابق جمعے کے دن 26اکتوبر 2018 کو جنکشن کے نزدیک ایک بھارتی سپاہی مسی بوائے راجندرا سنگھ بارڈر روڈ پر پہرہ دے رہاتھا کہ کچھ نوجوانوں نے پتھراؤ کیا جس سے راجندرا سنگھ کی موت واقع ہوگئی ۔ اس حادثے کی وجہ سے بھارتی انڈین آرمی چیف بی پی راوت کو زہر افشانی پر مجبور کردیا ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ دہشت گرد اس طرح کے اقدام کرتے ہیں۔ بھارتی چیف کی بات میں خاصا وزن ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی فورس ہے جو پتھراؤکی مشق کراتی ہے تاکہ وقت پڑنے پر چڑیوں کا نشانہ لیا جائے۔ پڑوسیوں کے صحن میں رکھے مٹکوں کو پھوڑا جائے یا بھارتی افواج کے جوانوں پر طبع آزمائی کی جائے۔
بھارتی ناقدین اس انڈین آرمی کے جوان کے مرنے کو اس قدر سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ان کے خیال میں اب وقت آچکا ہے کہ وہ کشمیر سے ایسے تمام آزادی کے متوالوں کا صفایا کردیں جن کی وجہ سے امن عامہ خراب ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرد موسم کے آنے سے پہلے پہلے یہ کارروائی کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ پتھراؤ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فوجی نے اس معاملے کی سنگینی کو ظاہر کردیا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا ایشو ہے اسے حل کرنا اب وقت کی ضرورت ہے۔
ان کا فرمانا یہ بھی ہے کہ بھارت پولیس فورس نے پچھلے سال اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اسی کے نزدیک واٹس ایپ استعمال کرنے والے ایسے شر پسند عناصر کا سراغ لگالیا گیا ہے جو ان کے خیال میں ایسے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں پکڑ بھی لیا گیا ہے۔ لیکن اس برس کیا اسی کارروائیوں میں کمی آئی۔ ہرگز نہیں گویا ایسے واٹس ایپ استعمال کرنے الے شرپسند عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے۔
ایسے تمام بھارتی ناقدین سیاسی رہنما یا یہاں تک کہ بھارتی چیف کی نظر میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں پاکستان کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ یہ دہشت گرد جو کشمیر میں امن کی خوبصورت فضا کو خراب کررہے ہیں، پاکستان میں موجود ہیں اور ان کا صفایا ضروری ہے۔ ایک جانب یہ کہاجاتا ہے کہ ماضی کی طرح پاکستان سے جنگ کرنے کی حماقت نہیں کی جائے گی تو دوسری جانب پاکستان پرکشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کا الزام دھرا جاتا ہے اور ببانگ دہل کہاجاتا ہے کہ پاکستان دہشت پسند کو فروغ دے رہا ہے۔
کشمیر ایک خوبصورت زرخیز علاقہ ہے جسے بھارتی سرکار بخوبی اپنے وسائل کے لیے استعمال کرسکتی ہے لیکن جس طرح امن کی آشا جلاتے جلاتے پچھلے بھارتی لیڈران اپنی آرتھی جلا بیٹھے ،کیا آگے بھی یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔ سوال اسی طرح برقرار ہے کہ کیا کوئی قوم کسی طاقتور سامراجی نظام کے تحت زندگی گزارنا پسند کرے گی تو ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہی ملے گا۔ یہ سوال 14 اگست 1947کی رات کشمیریوں کے دل میں اٹھا تھا جب انھیں آزادی کا پروانہ ملنے میں حیل حجت کی چالیں منزل پر مکڑی کے جالوں کی مانند نظر آئی تھیں۔آج کے ترقیاتی یافتہ دور میں بہت سے ریاستوں کو ان کے حق رائے دہی کے ذریعے نصیب ہوئی ہے کوئی جنرل، پولیس یا طاقتور عناصر اس حق سے کسی قوم کو محروم نہیں کرسکتے، ماضی میں بھارتی سیاسی لیڈران کی ذاتی ضد، انا اور ہٹ دھرمی کی وجہ برصغیر کی تقسیم تھی جو انھیں ہرگز برداشت نہ تھی۔
اندرا گاندھی اچھی طرح جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان کے وجود سے الگ کرواکر وہ اسے بھارت کا حصہ نہیں بناسکتی لیکن اس طرح پاکستان ضرور کمزور ہوجائے گا اور اس بہانے انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کر ڈالے ۔ ایک جانب پاکستان کے ایک بازو کو بنگلہ دیش بننے میں سارے زہریلے تیر چلالیے تو دوسری جانب کشمیر کو ایک متنازعہ ریاست کے نام پر سلگنے کے لیے چھوڑ دیا کہ ایک ہاتھ سے محروم پاکستان کشمیر کی آزادی یا بھارت کے شکنجے سے نکالنے کے لیے کیا کرسکے گا۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھارتی کی موت کی وجہ ایک ننھی سی چیونٹی بھی ہوسکتی ہے۔ کیا سبب ہے کہ بھارت سربراہان اور ناقدین اپنے چند فوجیوں کے مرنے پر سیخ پا ہورہے ہیں اور پاکستان پر الزامات دھر رہے ہیں ۔ کیا وہ سمجھ رہے ہیں کہ کہیں کھیل کھیل میں اس بار بات سنجیدہ ہی نہ ہوجائے اور جواہر لال نہروکی ستر سالہ لانگ ٹرم سیاست کا شارٹ ٹرم میں خاتمہ ہوجائے۔