مزدور یونہی جھلستے رہیں گے
ہمارے حکمران بڑے دھڑلے سے کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم مزدوروں کے مسائل پر ترجیحی بنیاد پر توجہ دے رہے ہیں۔
شپ بریکنگ میں ہونے والے مسلسل المناک حادثات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ حکومت اور جہاز مالکان کو لیبر قوانین کی پاسداری کا رتی برابر احساس نہیں۔ گڈانی میں یکم جولائی 2016ء کے المناک سانحہ سے لے کر آج تک سیکڑوں چھوٹے بڑے حادثات ہوچکے ہیں، جس میں کئی ایک مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاز مالکان کام کے دوران حفاظتی اقدام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور ملکی لیبر قوانین کو روندتے ہیں۔
14 اکتوبر 2018ء کو ''کیروٹی'' نامی آئل ٹینکر جو کہ پچھلے پانچ مہینے سے گڈانی کے پلاٹ نمبر نو اور دس میں کٹائی کے لیے موجود ہے۔ انتظامیہ کی غیر ذمے داری اور حفاظتی طریقہ کار نہ استعمال کرنے کی وجہ سے اس میں آگ بھڑک اٹھی، جس کی وجہ سے سات مزدور جھلس گئے۔
اس حادثے سے تین روز پہلے بھی ایک اور پلاٹ نمبر چھ اور سات میں آگ لگی تھی، لیکن خوش قسمتی سے کوئی مزدور زخمی نہیں ہوا۔ جہاز پر آگ لگنے، بوائلر پھٹنے اور خطرناک گیسوں کے اخراج سے مزدوروں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کی اصل وجہ لیبر قوانین سے رو گردانی اور صحت اور حفاظت کے اقدامات سے پہلوتہی ہے۔
شپ بریکنگ یارڈ میں مالکان اور ٹھیکیداروں نے اتحاد کر رکھا ہے جس کے ذریعے مزدوروں کو مسلسل غلامی کے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ شپ بریکنگ کے ٹھیکیدار جو کہ خود کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں، انھوں نے مالکان کی پشت پناہی سے مزدوروں کے نام پر یونین بنائی ہوئی ہے ۔ مزدوروں کی اپنی یونین کو مختلف حیلے بہانے سے کام کرنے سے روکنے کی سازشیں کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے مزدور اپنے حقیقی مسائل کے حل میں دشواری محسوس کرتا ہے۔
شپ بریکنگ میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو حکومت حالات کو بہتر بنانے کے بجائے دفعہ 144 کے نفاذ کے ذریعے جہازوں کی کٹائی کو روک دیتی ہے جو کہ قابل مذمت اقدام ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں مزدور بیروزگار ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے خاندان فاقہ کشی کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی شپ بریکنگ خطے میں قدیم ترین جہاز توڑنے کی صنعت ہے، لیکن آج یہ حکومت اور مالکان کی نااہلی کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔
یہ صنعتی شعبہ جو ایک وقت میں پچیس ہزار سے زائد محنت کشوں کو روزگار فراہم کرتا تھا، وہاں آج صرف پانچ ہزار مزدور کام کر رہے ہیں، جب کہ ہمارے پڑوسی ملک میں بہتر طریقہ کار اور قوانین پر عمل درآمد کی وجہ سے وہاں دنیا کی سب سے زیادہ شپ بریکنگ ہو رہی ہے اور تقریباً ستر ہزار مزدوروں کو براہ راست روزگار مہیا ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو پاکستان دنیا کے لیے دوبارہ جہاز توڑنے کا مرکز بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے، صحت اور تحفظ کے انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ ہر زخمی کو نہ صرف علاج کی بہتر سہولت مہیا کی جائے بلکہ پانچ لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے۔
شپ بریکنگ کے تمام مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے۔ گڈانی میں مزدوروں کے لیے اسپتال، رہائشی کالونی، اسکول اور کینٹین کا فی الفور انتظام کیا جائے۔ مزدوروں کو یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کا حق دیا جائے۔ شپ بریکنگ میں حالات کار اور اوقات کار کو بہتر بنانے کے لیے آئی ایل او کی جنوبی ایشیا کے لیے شپ بریکنگ کی رہنمائی پر عملدرآمد کیا جائے اور ہانگ کانگ کنونشن برائے شپ بلڈنگ اور شپ بریکنگ کی توثیق کی جائے۔
اسی طرح محکمہ پاپولیشن کے ملازمین کا کہنا ہے کہ ہمارے ادارے میں سی آئی پی اور این جی اوز کی بے جا مداخلت کو ختم کیا جائے۔ انھوں نے اس مداخلت کی وجہ سے اپنی ڈیوٹی کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملازمین اور ادارے کے خلاف تمام نکالے گئے لیٹر واپس لیے جائیں۔2009ء تا 2012ء تک ٹھیکے کے ملازمین کو مستقل کرکے نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، ہائی کورٹ سے مستقل کیے جانے والے تمام مرد موبائل نرسز کو اسکیل دے کر مستقل ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، تمام کیڈرز ملازمین کا پروموشن کرنے کے لیے فوری طور پر ڈی پی سی اٹھایا جائے اور اٹھارہویں ترمیم سے پہلے پی سی ون کے تحت جنھیں گریڈ 5 سے 11 میں اپ گریڈ کیا گیا تھا۔
جنھیں فنانس والوں نے منسوخ کر دیا تھا، انھیں بحال کیا جائے۔ مزید برآں جوائنٹ نرسز ایکشن کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ میں نرسز کے لیے فائیو ٹائیر فارمولے کی منظوری دی جائے، صوبے بھر میں ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس دیا جائے، چار سو بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان نرسنگ کونسل اور صوبائی محتسب اعلیٰ کے خصوصی انتخابات لینے کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے، نرسز طلبا کا وظیفہ بیس ہزار روپے مقرر کیا جائے، نرسنگ اسکولز کو ڈی ڈی او پاور دی جائے، نرسنگ یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرکے اس کے لیے بجٹ مختص کیا جائے، سندھ بھر میں نرسنگ کی چودہ ہزار نئی بھرتیاں کی جائیں، سندھ سیکریٹریٹ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ایڈیشنل سیکریٹری ٹیکنیکل نرسنگ شعبے سے تعینات کیا جائے۔
کنٹرولر اور ڈپٹی کنٹرولر کی نشستوں سے متعلق پبلک سروس کمیشن پر عمل کیا جائے، پاکستان نرسنگ کونسل سلیکشن جو صوبہ سندھ میں پہلے ہی ہیں، اس سلیکشن کو منسوخ کیا جائے۔ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے محکمہ پاپولیشن ملازمین اور جوائنٹ نرسز ایکشن کمیٹی نے کراچی پریس کلب پر دھرنے بھی دیے۔ نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی یوٹیلٹی اسٹورز کی نجکاری کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے خلاف اسلام آباد ڈی چوک پر ہزاروں محنت کشوں نے مظاہرہ کیا۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ اسٹور کی نجکاری سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوجائیں گے۔ نرسوں اور یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین کے مطالبات حکومت نے مان لیے ہیں، اب دیکھنا ہے کہ اس پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔
یہ ہے مزدوروں کے حالات کار کی ایک جھلک۔ اس طرح لاکھوں مزدوروں، کسانوں کے ساتھ روز زیادتی اور ظلم ہورہا ہے، جب کہ ہمارے حکمران بڑے دھڑلے سے کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم مزدوروں کے مسائل پر ترجیحی بنیاد پر توجہ دے رہے ہیں۔