سارے رنگ

’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔۔۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘


’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔۔۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘ فوٹو: فائل

بیسویں صدی کے حشرات الارض
قدرت اللہ شہاب


بیسویں صدی کے حشرات الارض میں اخبارات کا مرتبہ بہت بلند تھا، کیوں کہ ان کا کاٹا پانی تک نہیں مانگتا تھا، اخباروں کو کانٹنے کا مرض ہی بلکہ جنون تھا، سچ تو یہ ہے کہ ان کی زندگی کا دارومدار ہی اس فن پر تھا۔ جس طرح سانپ کے پالنے والے کو سپیرا اور ریچھ والے کو قلندر کہا جاتا تھا۔ اسی طرح اخبار والے کو ایڈیٹر کہتے تھے۔ ایڈیٹر کا کام یہ تھا کہ وہ موسم کے مطابق اخبارات کو پال پوس کر تیار رکھتا تھا، تاکہ وقت آنے پر وہ کاٹنے کے فرائض بطریق احسن سر انجام دے سکیں۔

(کتاب ''سرخ فیتہ'' سے انتخاب)

۔۔۔

ابن انشا کا عشق !
ممتاز مفتی



احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابن انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچوں والی تھی۔ جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہمدردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

مواقع تو ملے مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا:

'' یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔''

اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا:

''دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔۔۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔''

محبوبہ تیز طرار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔

انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔

میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تن خواہ لگ جائے گی۔

انشا بولا۔ ''مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا۔ شہرت دی۔۔۔ زندگی دی!''

انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

(کتاب '' اور اوکھے لوگ'' سے ماخوذ)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
باورچی


گھر میں ہر ڈرائیور 'باورچی' کے کہنے پر چلتا تھا۔
کوئی اگر باورچی کو کچھ کہہ دے تو 'صاحب' بگڑنے لگتے تھے۔
ثمر جی بھر کے باورچی کی بھڑاس بھی ڈرائیور پر ہی نکال لیتا تھا۔
ایک دن ڈرائیور 'باورچی' سے بِھڑ گیا۔
ثمر کو مجبوراً ڈرائیور کی طرف داری کرنا پڑی، مگر ڈرائیور کو نکال دیا گیا اور ایک نیا ڈرائیور متعین کر دیا گیا۔
اگلے روز ثمر ڈرائیور کی کسی بات پر اعتراض کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے ٹہوکا دیا اور کہا:
''اب ذرا احتیاط کرنا، نیا ڈرائیور 'باورچی' ہی لے کر آیا ہے۔۔۔!''

۔۔۔

انوکھا ترکہ
مرسلہ: آصف بٹلہ



ایک باپ بستر مرگ پر تھا، اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ ''اے میرے عزیز بیٹے! مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں، مگر میرے پاس مال ومتاع کے باب میں تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

تمہیں اب زندہ رہنے اور خود کو کسی قابل بنانے کے لیے خود بہت محنت کرنا ہو گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تمہارے پاس پیسہ ہے اور نا کوئی عہدہ واختیار، پھر بھی میں تمہیں اپنے 'ترکے' کے طور پر کچھ نصیحتیں دینا چاہتا ہوں۔ بس تم ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھنا۔

٭ ''وہ'' سے کبھی خوف زدہ مت ہونا

دنیا میں لوگ سب سے زیادہ ''وہ''سے ڈرتے ہیں۔ حتیٰ کہ دنیا کے بڑے بڑے جرنیل اور حکم راں تک ''وہ'' سے خوف کھاتے ہیں۔ اس طرح تمام کامرانیوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ ''وہ کیا کہیں گے''، ''وہ کیا سوچیں گے''، ''وہ کیا کریں گے'' تم بس ''وہ'' سے ڈرنا چھوڑ دو!

٭ کبھی 'بے جان' اشیا کو جمع کرنے پر زور مت دینا

اگر تم کبھی اس چکر میں پڑ گئے، تو پھر بہ جائے اس کے کہ تم ان اشیا کو جمع کرو، یہ اشیا تمہیں اپنے قابو میں کرنے لگیں گی۔ مجھے دیکھو، میں نے صرف ضرورت کی چیزوں پر زور دیا۔ اس لیے آج اتنا ہلکا پھلکا ہوں۔ تم جتنی چیزیں جمع کرو گے، اتنا ہی ان کے زیر اثر دبتے جاؤ گے۔

٭ ہمیشہ خود پر ہنسو۔۔۔!

دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی کم زور پہلو ہوتا ہے اور دوسرے اس پر مذاق اڑانا اور ہنسنا اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن اگر تم خود ہی اپنے آپ پر پہلے ہنس دو تو دوسروں کی ہنسی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور نہ ہی تمہیں اس سے کوئی تکلیف پہنچے گی۔

زندگی کا راز


بل کازبی (Bill cosby) ایک سیاہ فام امریکی ہے۔ وہ 1937ء میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ ابتدا وہ بہ مشکل ایک ہزار ڈالر سالانہ کماتا تھا۔ آج اس کی سالانہ آمدنی کئی ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سفید فام امریکا میں ایک سیاہ فام شخص کو یہ غیرمعمولی کام یابی کیوں حاصل ہوئی۔

جواب یہ ہے کہ تعلیم اور دانش مندانہ جدوجہد کے ذریعے۔ بل کازبی فلاڈالفیا کے ایک اسکول میں پانچویں گریڈ میں تھا۔ وہ اسکولوں میں اکثر تماشے کیا کرتا تھا اور پڑھائی پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ اس کی خاتون ٹیچر نیجل (Nagle) نے ایک روز اس سے کہا کہ اگر تم جو کرنا چاہتے، ہو تب بھی تمہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ تعلیم کے بغیر تم کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کر سکتے۔

بل کازبی نے اس نصیحت کو پکڑ لیا۔ اس نے پڑھنے میں محنت شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اس نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے تفریحی پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ آخر کار اس کو ٹیلی ویژن پروگرام ملنے لگے۔ آج وہ امریکا کا مشہور ترین کامیڈین ہے۔ بل کاز بی شو امریکی ٹی وی کا سب سے منہگا پروگرام ہوتا ہے۔ دوسرے بہت سے سیاہ فام امریکیوں کے برعکس، اس نے نسلی امتیاز کی باتیں کرنے سے پرہیز کیا۔ اس نے اپنی کہانیاں عالمی واقعات کی بنیاد پر بنائیں، جو تمام لوگوں کے لیے قابل فہم ہو سکیں۔

امریکی عام طور پر سیاہ فام لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے، مگر وہ بل کاز بی کے پروگرام کو نہات شوق کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ بل کاز بی نے سفید فام لوگوں کی رعایت کی تو سفید فام لوگوں نے بھی بل کاز بی کی رعایت کرنا شروع کردیا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ میں دل چسپی لیں، تو آپ بھی دوسروں میں دل چسپی لینا شروع کردیجیے اور اس کے بعد آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔

(''کتاب زندگی'' سے مستعار لیا گیا)

۔۔۔

محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہے۔ محبت کی تعریف مشکل ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، افسانے رقم ہوئے، شعرا نے محبت کے قصیدے لکھے، مرثیے لکھے، محبت کی کیفیات کا ذکر ہوا، وضاحتیں ہوئیں، لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہوسکی۔ واقعہ کچھ اور ہے، روایت کچھ اور۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہرہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا انداز بدل جاتا ہے، کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے بلکہ ظاہروباطن کا جہاں بدل جاتا ہے۔ (تصنیف ''دل دریا سمندر'' سے چُنا گیا)

رابطہ
اس صفحے کے 'سارے رنگ' باذوق قارئین کے لیے ہی سجائے جاتے ہیں، آپ بھی اپنے حاصل مطالعہ یا کسی نثر پارے کے ذریعے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔۔۔ اپنا انتخاب بھیجتے ہوئے کتاب کا حوالہ دینا نہ بھولیں۔ برقی و عمومی مراسلت کے لیے ہمارا پتا مندرجہ ذیل ہے:
[email protected]
رضوان طاہر مبین، (انچارج سارے رنگ) میگزین سیکشن، روزنامہ ایکسپریس، پلاٹ نمبر 5، ایکسپریس وے آف کورنگی روڈ، کراچی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں