ہمدردی اچھا جذبہ ہے لیکن اس سے کہیں اوپر محبت کا جذبہ ہے
بصارت سے محروم استاد اورریڈیو اینکر جابرحسین کے حالات وخیالات
آنکھ کا نورقدرت کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس پر جس قدر شکرادا کیا جائے کم ہے لیکن انسان کے لیے محض یہی نور کافی نہیں اور اسے فرشتوں سے بہتر جو چیزبناتی ہے،اور جس میںبقول شاعر، پڑتی ہے محنت زیادہ، وہ آنکھ کے ساتھ دل کا بینا ہونا ہے، اس لیے توعلامہ اقبال نے کہا تھا :
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ خال خال ہیں، جنھیںقدرت نے دل بینا دیا ہو،ظاہرکی آنکھ سے تماشاکرنے کرنے والے تو بہتیرے ہیں لیکن ایسے بہت کم ہیں جو اقبال کا یہ مطالبہ پورا کرسکیں
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشاکرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
معروف ریڈیو اینکرجابرحسین کا معاملہ یہ ہے کہ ظاہر کی آنکھ سے وہ تماشا نہیں کرسکتے اور انھیں جو کچھ دیکھنا اور سامعین کو تصور کی آنکھ سے دکھانا ہوتا ہے، اس کے لیے دل بینا سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔وہ پیدائشی نابیناہیں،لیکن اس معذوری کو انھوں نے اپنے پر حاوی اور طاری نہیں ہونے دیا، اور پوری استقامت سے زندگی کا سفرجاری رکھا۔
گھرسے تعاون تو انھیں ملاہی باہر بھی ایسے مشفق انھیںملتے رہے، جنھوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا چڑھایا۔ ریڈیو سے ملنے والی شہرت اپنی جگہ لیکن ساتھ میں وہ تعلیمی قابلیت بڑھانے میں برابر جٹے رہے، موصوف نے انگریزی میں ایم فل کررکھا ہے اور اب ڈاکٹریٹ کے لیے پرتول رہے ہیں۔ وہ ایک وقت میں کئی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں،علم کا نور بانٹ رہے ہیں اور حاصل بھی کررہے ہیں،اور ساتھ میں ریڈیو کاروگ الگ سے پال رکھاہے۔بڑی بات یہ ہے کہ وہ یہ کام مجبوری سے نہیں بلکہ اپنے شوق سے کرتے ہیں، اور کام اگر شوق سے کیا جائے تو اس میں انفرادیت قائم ہوہی جاتی ہے۔
1981ء میں گجرخان کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولنے والے جابر حسین کے بچپن میں ان کی آنکھوں کی حرکات سے ان کے والدین کو اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ وہ انھیں مختلف ڈاکٹروں کے پاس لے کر پھرتے رہے، جس کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ان کا مرض پیدائشی ہے، اس لیے وہ عمر بھر بصارت سے محروم رہیں گے۔
بچپن میں انھوں نے ارادہ کرلیاتھا کہ ترس بن کر نہیں فخر بن کر زندگی گزاریں گے۔گھر والے شروع شروع میں تھوڑے پریشان ضرور رہے لیکن بعد میں ان کے طرز عمل نے انھیں بھی شانت کردیا، کہ ان کے بقول انھوں نے کبھی فرسٹریشن کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔اس کٹھن دور میں ، جن ہستیوں نے ان کی دلجوئی کی ان میں میٹرک میں اپنے انگریزی کے استادمحمد الیاس بٹ کا ذکر خاص طور پر کرتے ہیں۔وہ ہمدردی کواچھا جذبہ قرار دیتے ہیں لیکن ان کے خیال میں ہمدردی سے کہیں اوپرمحبت کا جذبہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں میں ہمددری کی علامت بننے کے بجائے معاشرے کی ضرورت بن کر جینے پر یقین رکھتے ہیں۔
ایف سی کالج سے ایم اے انگریزی اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ ٹیکنالوجی سے لسانیات میں ایم فل کرنے والے جابر حسین چار برس سے گورنمنٹ شیرانوالہ سکینڈری سکول فاربلائنیڈ میں پڑھا رہے ہیں۔ تدریس کے اس تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں ''میں صرف کتاب پڑھانے والا استاد نہیں۔طالب علموں کو بتاتا ہوں کہ وہ کس قدر اہم اور قیمتی ہیں۔میں طالب علموں کو خوش خبریاں دینے پر یقین رکھتا ہوں، انھیں نالائق اور جاہل کہہ کر شرمندہ نہیں کرتا۔ استاد کے لیے لازم ہے کہ شاگردوں کی عزت نفس کا پاس کرے۔
ہمارے ہاں!تو ایسے استاد بھی ہیں، جو بچوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور بچوں کے الٹے سیدھے نام ڈالتے ہیں۔''ریڈیو سے اپنے تعلق کو بڑا یادگارقرار دیتے ہیں۔ایف ایم103 سے وہ 2008ء میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے جڑے۔یہیں سے لوگوں تک اپنی آواز پہنچانے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ان کے ٹیلنٹ کو سب سے پہلے معروف شاعرفرحت عباس شاہ نے پرکھا، جن کا ذکر وہ بڑی ممنونیت سے کرتے ہیں۔
اُن کا خیال تھا کہ ان کی آواز میں درد اور مٹھاس ہے ، جس کے ذریعے وہ سامعین کے دراحساس پردستک دے سکتے ہیں۔'' رشتہ اچھا سا'' ان کا پہلا پروگرام تھا، جس پرملنے والے مثبت رسپانس نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ ''جسٹس''کے نام سے پروگرام بھی مقبول ہوا۔ ''تارہ تارہ جاگوں''کو بھی سامعین نے سراہا۔ریڈیو پر مارننگ شو کا تجربہ بھی خاصا کامیاب رہا۔ تین چار برس وہ ایف ایم103سے وابستہ رہے، اس سفر میں گردے کی تکلیف کے باعث سال ڈیڑھ سال کا رخنہ آیا، جس کے بعد وہ دوبارہ ریڈیو کی دنیا میں لوٹ آئے اور اس بارانھوں نے ایف ایم 95 سے ناطہ جوڑ کر اپنی آواز کا جادو پنجابی میں جگایا۔
جابرحسین نے ریڈیوپزیزنٹیشن میں کچھ نیاکرنے کی کوشش کی۔بات چیت میںرٹے رٹائے جملے بولنے سے پرہیز کیا، اور تازہ لفظیات کے سہارے بات آگے بڑھائی۔زبان کے ساتھ جو دوسرے تجربات انھوں نے کئے، ان کی بابت بتاتے ہیں''میرا مضمون چونکہ لسانیات ہے، اس لیے زبان کے استعمال اور نزاکتوں سے واقف تھا۔میرا خیال تھا کہ لوگوں سے ان لفظوں کے ذریعے بھی مخاطب ہوا جاسکتا ہے، جو کم استعمال ہوتے ہیں،لیکن ان کی نفسیات کے زیادہ قریب ہیں۔
مثلاً، ابرارالحق نے گلوکاری میں زبان کو بڑے بہتر انداز میں استعمال کیا، اور سائیکل جیسے لفظ کو گائیکی میں استعمال کرنا انکی وجہ شہرت بن گیا۔میں نے اپنے پروگرام میںپوچھاکہ ان لوگوں کا کیا حال ہے،جوآج کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پائے یا وہ لوگ جنھیں آج اپوائنٹ منٹ لیٹرملا ہے۔اس طرح دوسری چھوٹی چھوٹی باتیں، جن کی طرف عام طور پر دھیان نہیں دیا جاتا۔عام طور پرریڈیو پرdear listnerکہا جاتا ہے، جو ہماری نفسیات سے زیادہ قریب نہیں، اس لیے میں نے لوگوں کو میرے اچھے سامعین کہہ کر مخاطب کیا تو اسے پسند کیا گیا۔
ہم اکثر دوسروں سے کہتے ہیں کہ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے گا، میں نے اس میں اضافہ یہ کیا کہ سامعین سے کہا کہ مجھے دعاؤں کے آئی سی یو میں رکھیے۔کسی عام لفظ کے ساتھ کسی ان سنے لفظ کو ملادیں تو اس لفظ میں خاص معنویت پیدا ہوجاتی ہیں۔ایف ایم95پر ان دنوں میں پنجابی کا جو پروگرام کررہا ہوں، اس کا نام ''سکھ کی کال''رکھا ہے، ایک لفظ انگریزی سے لیا اور دوسرا پنجابی سے، اور مجھے لگتا ہے کہ میرے پروگرام کا نام لوگوں کو دوسرے پروگراموں کی نسبت زیادہ یاد ہے۔''
جابر حسین کی خواہش رہتی ہے کہ ان کے سننے والے ان کا پروگرام اس حوالے سے یاد نہ رکھیں کہ اس میں فلاں گانا چلا تھا بلکہ اس لیے یاد رکھیں کہ فلاں جملہ انہوں نے کہا تھا۔ ریڈیو کو وہ آواز جس کو وہ اپنے لیے انسپریشن قرار دیتے ہیں، وہ سجاد بری کی آواز ہے۔تلفظ کی درستگی کے لیے ضیاء محی الدین کو سن کر بہت سیکھا۔ پنجابی میں ریڈیو پروگرام کے تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں ''پنجابی کے بارے میں ہمارا رویہ بڑا تکلیف دہ اور بے حسی پر مبنی ہے۔پنجابی جو صوفیا کی زبان ہے اسے توتکار اور جگت بازی تک محدود کرنا بڑی زیادتی ہے۔
اس کو character assassinationکے طور پر استعمال کرنا بہت تکلیف دہ بات ہے۔نعیم بخاری کے بارے میں لوگ کہتے ہیں، وہ اپنے پروگراموں میں پنجابی زبان کا بڑا بڑھیا استعمال کرتے تھے لیکن میرا کہنا ہے کہ انھوں نے صرف اس وقت پنجابی زبان برتی جب انھیں مذاق کرنا ہوتا تھا۔
میں پروگرام میں کوشش کرتا ہوں اس زبان کی جو اصل خوبصورتی ہے، اس کو سامنے لاسکوں۔'' پنجابی میں ان کا پہلا پروگرام 23مارچ کے حوالے سے تھا۔کمپیئرنگ کے دوران انگریزی کے ان الفاظ کو تو قابل قبول جانتے ہیں، جو گفتگو میں فطری طور پردر آتے ہوں لیکن جان بوجھ کر انگریزی لفظوں کے استعمال کو وہ صحیح خیال نہیں کرتے۔ مطالعہ کو وہ اپنے کام کے سلسلے میں ضروری جانتے ہیں لیکن علم کا دوسروں پر رعب گانٹھنا انھیں کھلتا ہے۔
ان کے بقول''مائیک پکڑنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہوناچاہیے کہ لوگ میری آواز سنیں۔میں لوگوں کو بتاؤں کو پارک میں ڈیٹ کیسے ماری جاتی ہے، اور اس نوع کے پروگرام ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔انٹرٹینمنٹ ہمارا مقصد ہونا چاہیے، لیکن کچھ ضابطوں کو بہرحال مدنظر رکھنا ضروری ہے،کام میں مقصدیت ہونا لازمی ہے۔'' وہ کہتے ہیں کہ باہر کی دنیا کے بارے میں دوستوں سے برابرپوچھتے رہتے ہیں، جو ایک طرح سے ان کے لیے مترجم کا کام کرتے ہیں ان کے بقول ''جب دوست مجھے بتارہے ہوتے ہیں تو لگتاہے، میں لوگوں کو دیکھ رہا ہوں ، اور پھریہ سب سنا ، میں ان کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، جو دیکھ سکتے ہیں، اور پھر ان کی اوراپنی رائے کا موازنہ کرتا ہوں۔'' بینائی سے محروم اس شخص کو جس ہستی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکنے کا سب سے زیادہ افسوس ہے، وہ ان کی والدہ محترمہ ہیں۔