خوبصورت ادبی تقریبات کا تسلسل
پچھلے دنوں نیویارک میں دو اور نیوجرسی میں بھی کتابوں کی رونمائی دو تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
اکتوبرکا مہینہ آتے ہی نیویارک اور نیوجرسی میں خنک ہوائیں سردی کی آمدکی شہنائیاں بجانے لگتی ہیں اورگھروں میں ہیٹ(Heat) کھل جاتی ہے اور بیشتر گھروں میں تو آتش دانوں کو بھی تیاری کے مرحلے کا عندیہ دیا جانے لگتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ادبی، ثقافتی تقریبات کو بھی تیزی کے ساتھ سمیٹا جانے لگتا ہے کہ کبھی کبھی اکتوبر کے اختتام کے دوران ہی برف باری بھی اپنے جھنڈے گاڑنے کی تیاری پکڑلیتی ہے اسی وجہ سے ایک ایک ہفتے میں دو دو اور تین تین تقریبات کو تیزی سے نمٹانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
پچھلے دنوں نیویارک میں دو اور نیوجرسی میں بھی کتابوں کی رونمائی دو تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی پہلی تقریب نیوجرسی کے پرل بنکوئٹ ہال میں مشہور افسانہ نگار اور شاعر جمیل عثمان کی تیسری کتاب ''روشنی کے درخت'' کی تھی۔
تقریب رونمائی کا اجرا مقامی ادیب تنظیم کارروان فکر و فن کے بینر تلے کیا گیا تھا۔ اس تقریب کی صدارت مشہور شاعرہ ڈاکٹر صبیحہ صبا نے کی تھی اور مہمان خصوصی مشہور شاعر رفیع الدین راز تھے اور اس تقریب میں مہمان اعزازی کے طور پر ریڈیو کے ایک بہت ہی سینئر براڈ کاسٹر ابوالحسن نغمی بھی شریک ہوئے تھے۔ جمیل عثمان کی کتاب ''روشنی کے درخت'' ان کے افسانوں پر مشتمل ہے۔
اس تقریب میں خاص طور پر نیویارک پینسلوینیا، ورجینیا اور شکاگو سے بھی ممتاز ادبی شخصیات شرکت کی غرض سے آئی تھیں۔ مذکورہ کتاب پر جن لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں پروفیسر خالدہ ظہور، احتشام رضا کاظمی، یاسمین نغمی، ڈاکٹر عرفان لیاقت، احتشام ارشد نظامی، صبیحہ صبا اور رفیع الدین راز شامل تھے۔ جمیل عثمان نے اپنی کتاب کے بارے میں چند دلچسپ باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی آنے والی دو کتابوں کے بارے میں بھی بتایا جو جلد ہی منظر عام پر آئیں گی۔
مذکورہ کتاب کی تقریب کے بعد مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ مشاعرے کی میزبان فرح کامران تھیں۔ جو خود بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں۔ اس مشاعرے میں جن شاعروں اور شاعرات نے اپنا کلام سنایا اور خوب داد حاصل کی ان میں فرح کامران، ارشد حسین اویس راجہ، احتشام نقوی، جمیل عثمان، رفیق زخمی، پرویز فاروقی، ڈاکٹر شفیق، فرحت ندیم ہمایوں، زریں یاسین، یونس ہمدم، صبیحہ صبا اور رفیع الدین راز شامل تھے ۔
اس تقریب کے بعد نیویارک کے مقامی ہوٹل میں میری کتاب یادیں باتیں فلم نگرکی والیوم نمبر دو کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی مہمان خصوصی ٹیلی ویژن کی معروف فنکارہ نیلوفر عباس تھیں اور تقریب کے صدر مشہور شاعر، کالم نگار واصف حسین واصف تھے ۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور افسانہ نگار اور کالم نویس کامل احمد نے انجام دیے تھے۔ اس تقریب کا اہتمام سب رنگ اردو فورم اور سب رنگ ٹی وی یو ایس اے نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
اس تقریب میں صاحب کتاب اور اس کتاب پر جن لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں پاکستان ایکسپریس نیویارک کے ایڈیٹر ظفر قریشی، سینئر صحافی و کالم نگار حسن مجتبیٰ، نیویارک کی مشہور سماجی شخصیت فضل الحق پسند بھی شامل تھے۔ تقریب کی مہمان خصوصی نیلوفر عباسی صاحبہ نے ریڈیو سے لے کر کراچی ٹیلی ویژن اور پھر لاہور کی فلمی دنیا میں میری جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے فلمی دنیا کے سنہری دورکی شخصیات کے بارے میں کالموں کوکتابی شکل دینے پر اسے ایک خوبصورت کاوش قرار دیا اور کہا کہ یہ کتاب فلمی دنیا کی ایک تاریخ ہے آخر میں تقریب کے صدر واصف حسین واصف نے کتاب کو سراہتے ہوئے کہا کہ کتاب دلچسپ ہے اورکتاب پر صاحب کتاب کی گرفت مضبوط ہے۔
اب میں آتا ہوں اپنی اسی کتاب کی دوسری تقریب کی طرف جس کی پذیرائی کا اہتمام شاہنواز اڈلٹ ڈے کیئر کی جانب سے نیوجرسی ایڈیسن میں شاہ نواز ریسٹورنٹ میں کیا گیا تھا۔ اس تقریب کی صدارت نامور شاعرہ ڈاکٹر صبیحہ صبا نے کی تھی اور تقریب کے مہمان اعزاز ٹی وی ایشیا امریکا کے پروگرام ''ابھی تو میں جوان ہوں'' کے پروڈیوسر اور میزبان شیراز شریف تھے۔ اس تقریب کی میزبان بھی نیوجرسی کی معروف شاعرہ فرح کامران تھیں۔
اس تقریب میں لاہور فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر آفتاب قمر زیدی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں نے یونس ہمدم کے ساتھ لاہور کی فلم انڈسٹری میں دس بارہ سال گزارے ہیں۔ یونس ہمدم نے فلمی دنیا کے اس سنہرے دورکوکتابی شکل دے کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ جو ہر صورت میں سراہے جانے کے قابل ہے۔
مہمان اعزازی شیراز شریف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونس ہمدم کے سپرہٹ گیتوں کے بارے میں مجھے آج کی محفل میں پتہ چلا ہے یہ کسی طرح بھی کسی انڈین فلمی گیت نگار سے کم نہیں ہیں اور پھر ان کی کتاب کو میں نے جس دلچسپی سے پڑھا ہے میں سمجھتا ہوں انھوں نے اپنی کتاب میں نامور فلمی شخصیات کو ایک مہکتے ہوئے گلدستے کی شکل دی ہے۔ کتابیں انسان کو زندہ رکھتی ہیں اور یہ کتاب پاکستان فلم انڈسٹری کے ساتھ انڈین فلم انڈسٹری کی بعض نامور شخصیات کا بھی بڑی خوبصورتی سے احاطہ کرتی ہے۔ اور دل پر دستک دیتی ہے۔
تقریب کو سمیٹتے ہوئے تقریب کی صدر ممتاز شاعرہ ڈاکٹر صبیحہ صبا نے کہا کہ پاکستان کے اخبار روزنامہ ایکسپریس '' میں شایع ہونے والے کالموں پر مشتمل یونس ہمدم کی کتاب یادیں، باتیں فلم نگر کی ایک نہ صرف دلچسپ یادوں پر مشتمل کتاب ہے بلکہ فلمی دنیا کے سنہرے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے لکھنے کا انداز قاری کو اس کتاب سے اپنا رشتہ جوڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اور اس کتاب کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے پھر اس کی زبان بڑی سادہ ہے۔اس تقریب کے اختتام پر میں نے ''میرا کراچی'' کے عنوان سے ایک طویل نظم بھی سنائی جس میں کراچی کے ماضی اور حال کا پس منظر بیان کیا گیا تھا۔
اکتوبر کی آخری تقریب نیویارک ہی کے ایک ہوٹل میں سب رنگ ادبی فورم کی طرف سے سجائی گئی۔ اس تقریب کا عنوان تھا ایک شام نیلوفر عباسی کے ۔ اس تقریب کے صدر نیویارک کے مشہور ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر اعجاز احمد تھے اور مہمان خصوصی کے لیے مجھ خاکسار کو منتخب کیا تھا۔ اس تقریب کی میزبان، مشہور ٹی وی کمپیئر راحیلہ فردوس تھیں۔
یہ تقریب نیویارک کی ایک پرہجوم تقریب تھی جس میں کثیر تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کی تھی اور نیلوفر عباسی کی بہت سی دیرینہ ساتھی خواتین بھی موجود تھیں۔ ان کے ساتھ شام میں ان کی کتاب ''کہی ان کہی'' کی رونمائی کی گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب نیلوفر عباسی کو کراچی ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی کوئن کہا جاتا تھا۔
نیلوفر عباسی کی شخصیت اور فن پر بہت سی شخصیات نے گفتگو کی پھر بھی چند لوگوں کے خیالات بڑے گراں قدر تھے جن میں ڈاکٹر اعجاز، ڈاکٹر ناہید بھٹی، احتشام رضا کاظمی، ظفر قریشی، ظفر اقبال نیویارکر، کامل احمر، پروفیسر خالدہ ظہور، روحانی بانو، انسب خان کے نام خاص طور پر شامل ہیں۔ آخر میں راقم نے تقریب کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ نیلوفر علیم کے ساتھ رہا اور جب نیلوفر عباسی ہوئیں تو ان کی شخصیت کا حصہ بنا رہا اس طرح قدم قدم پر انھیں عزت، عظمت اور عروج حاصل رہا اور یہ تینوں چیزیں آج بھی انھیں حاصل ہیں۔