یونیورسٹی میں تشدد کی ڈاکٹرائن
یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ادارہ مستحکم نہیں ہوپا رہا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں ایک شادی شدہ جوڑے پر تشدد کی خبروں نے پھر ایک دفعہ رجعت پسندانہ بیانیے کو عریاں کردیا۔ اگرچہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے جوڑے پر تشدد کی وڈیو کا نوٹس لیا اور پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اپنے سیکیورٹی گارڈ اور بعض طالب علموں کو معطل کرنا پڑا، مگر تاریخ سے واقفیت رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ معطل شدہ افراد چند دنوں میں بحال ہوجائیں گے۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے اس معاملے سے خود کو علیحدہ رکھا ہے اور ان اہلکاروں کی پرتشدد سرگرمیوں کا دفاع نہیں کیا۔ 2007 میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایسے ہی حملے میں تشدد کا شکار ہوئے تھے۔ مگر حالیہ واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے قدامت پرست کارکن صنفی معاملے پر کچھ سیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور ان خواتین کے بارے میں رجعت پسندانہ سوچ کا شکار ہیں۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد اور ان کی تذلیل کا رویہ رجعت پسند سوچ سے منسلک ہے۔ ان لوگوں کو حالات کی تبدیلی، خواتین کی مردوں کے برابر حیثیت اور خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں برابر کی شرکت کسی صورت برداشت نہیں ہے۔ موقع ملتے ہی ان کے پرتشدد رویے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں 80ء کی دہائی تک انتہائی خراب صورتحال رہی۔
تھنڈر اسکواڈ کے جنگجوؤں نے طلبا کو نہ صرف نظریاتی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ عام طلبا بھی اس جبرکا شکار ہوئے۔ یہی صورتحال تھی کہ الطاف حسین کی قیادت میں آل مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن قائم ہوئی۔ یونیورسٹی تشدد کے ایک اور تجربہ سے گزری مگر کراچی میں جماعت اسلامی کی قیادت نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ تشدد کے ذریعے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اخلاق سدھارنے کا فریضہ نقصان کا سودا ہے اور نوجوانوں کو تبلیغ کے ذریعے ہی صالح بنایا جاسکتا ہے۔
جمعیت کے پرانے کارکن جو اب اساتذہ، صحافیوں اور وکلاء وغیرہ کی صفوں میں شامل ہیں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ تھنڈر اسکواڈ بنانے کی حکمت عملی درست نہیں تھی، مگر پنجاب یونیورسٹی میں 70ء کی دہائی کی صورتحال برقرار رہی۔
بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی میں دائیں بازو کی سوچ کے حامل کچھ کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد ان کا ایک ہتھیارہے اور اس ہتھیار کے ذریعے وہ نوجوان جوڑوں کو درست راستہ پر راغب کرسکتے ہیں۔ نیز وہ اس تشدد کے ہتھیار کے ذریعے بھٹکے ہوئے سیاسی مخالفین کو بھی درست راستے پر لاسکتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں تشدد کے اس نظریے کے پس پشت پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں مخصوص نظریات کے حامل افراد کی اکثریت ہے۔ یہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ اس انتہاپسندانہ رویہ کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی پنجاب یونیورسٹی کے کسی وائس چانسلر نے اس انتہاپسند گروہ کی طاقت کو کم کرنے کی کوشش کی تو یونیورسٹی کے اندر سے مزاحمت ہوئی اور پنجاب کی صوبائی انتظامیہ نے بھی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی خاطرخواہ مدد نہ کی اور مخصوص تنظیم نے لاہور شہر میں امن و امان کی خراب صورتحال پیدا کی۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ کراچی کی طرح لاہور کی قیادت نے بھی اس حقیقت کو کیوں محسوس نہیں کیا کہ تشدد کا یہ ہتھیار ان کے پیغام کی اثر پذیری کو کمزور کررہا ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ پنجاب میں انتہاپسند تنظیمیں مضبوط ہیں اور ان انتہاپسند تنظیموں کا بیانیہ شہروں اور گاؤں میں موجود ہے۔ یہ بیانیہ مخالفین کو شدت کے ذریعے راہ راست پر لانے کا ہے۔ قیادت یہ محسوس کرتی ہو کہ اگر نوجوانوں کو تشدد کے اس راستے سے گریز کی ہدایات دی گئیں تو وہ انھیں چھوڑ کر انتہاپسند تنظیموں کی صفوں میں شامل ہوجائیں گے۔
ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال پنجاب کی دیگر یونیورسٹیوں اور پشاور یونیورسٹی میں بھی پائی جاتی ہے۔ ٹی وی کے ایک سینئر اینکرپرسن جو دور طالب علمی میں ایک جماعت کے ہمدردوں میں شامل تھے ایک محفل میں بتا رہے تھے کہ انھوں نے پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک طالب علم جو موسیقی سے لطف اندوز ہورہا تھا، طلبا کے ایک گروہ نے اس پر تشدد کیا اور اس کو ہاسٹل کی عمارت سے نیچے پھینکنے کے بارے میں کہا۔
اپنے ٹی وی پروگرام میں متعلقہ رہنما سے سوال کیا تو اس طرح کے کسی واقعے کے رونما ہونے سے ڈھٹائی سے انکار کیا، جس کی وڈیو وائرل ہوچکی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے طالب علمی کے دور میں تشدد کے واقعے میں ملوث طلبا کے چہروں سے شرمندگی کا اظہار ہوتا تھا مگر اب تو سب کچھ بدل گیا ہے۔
ایک قوم پرست رہنما جو 80ء کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی میں ٹانگ میں گولی لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، نے ایک اجتماع میں کہا کہ گزشتہ سال بعض طالب علموں کو میوزیکل پروگرام منعقد کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان رہنما کی مداخلت پر ایک جماعت کے مرکزی رہنما نے ان طلبا کو اپنے مرکزی دفتر بلایا اور ان کی ضیافت کی، مگر کچھ عرصے بعد پھر ان طلبا کو اجتماعی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔
ولی خان یونیورسٹی مردان میں ایک طالب علم مشال خان کی ہلاکت اس جنونی صورتحال کی بنا پر تھی۔ اگرچہ دائیں بازو کے پالیسی ساز اور ادارہ کے ماہرین یونیورسٹیوں میں اس طرح کے تشدد کو کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیتے مگر پنجاب یونیورسٹی میں اس واقعے نے ایک منفی صورتحال پیدا کی ہے اور یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید اس سوچ کی جڑیں اب تک گہری ہیں۔ کچھ لوگ مخلوط تعلیم کے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں اور عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے۔ یوں کوئی لڑکی اور لڑکا کسی سلسلے میں کوئی بات نہیں کرسکتے اور جو یہ حرکت کرے گا وہ سزا کا مستحق ہے اور سزا دینے کا اختیار ان صالحین کے پاس ہے۔
اس صورتحال سے یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ادارہ مستحکم نہیں ہوپا رہا ہے۔ اساتذہ کلاس روم میں خوفزدہ ہیں، طلبا کھل کر تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیاں نہیں کرسکتے اور نہ یونیورسٹی میں کسی بھی موضوع پر کھل کر مباحثہ منعقد ہوسکتا ہے۔ علمی آزادی کا ادارہ کمزور ہونے سے یونیورسٹیاں معاشرے کے دیگر اداروں کی رہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے پارہی ہیں۔ دنیا بھر میں تو یونیورسٹیوں میں طلبا اور اساتذہ کو ہر مسئلے پر بحث و مباحثہ کی آزادی ہوتی ہے۔ جبھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں عظیم سائنسدان اور فلسفی جنم لیتے ہیںاور ہماری یونیورسٹیاں تشدد اور جبر کے ماحول میں بانجھ رہتی ہیں۔