ستر برسوں کا انتظار
مہنگائی کا رونا تو ہرحکومت میں رویا ہی جاتا ہے لیکن کسی بھی حکمران کو آج تک عوام پر ترس نہیں آیا۔
گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب حکومت نے پٹرول کی قیمتوںمیں بھی اضافہ کر دیا ہے یہ اضافہ حکومت کو بہت پہلے ہی کر دینا تھا لیکن عوامی دبائو کے باعث اس میں تاخیر ہوتی رہی اور اب عوام کے دبائو کے باوجود ملکی خسارے میں کمی کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔
یہ بات اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جن کا براہ راست بوجھ عوام کی جیب پر پڑے گا اور عوام جو کہ پہلے ہی مہنگائی میں پس رہے تھے اور ان کو یہ امید ہو چلی تھی کہ نئے حکمران ان کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کریں گے لیکن یہ نئے حکمران بھی پرانے حکمرانوں کی روش پر ہی چل پڑے ہیں اور مہنگائی میں اضافے کی جو رہی سہی کسر گزشتہ حکومت چھوڑ گئی تھی ان نئے حکمرانوں نے رفتہ رفتہ وہ پوری کرنی شروع کر دی ہے اور عوامی استعمال کی تینوں بنیادی چیزیں مہنگی کر دی گئی ہیں جن کی وجہ سے ضروریات زندگی کی دوسری اشیا میں بھی اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ ضروریات زندگی کی ہرچیز کی تیاری گیس، بجلی اور پٹرول سے ہی منسلک ہے.
یہ قدرتی بات ہے کہ ان تینوں کی قیمت میں اضافہ سے مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے اور اس دفعہ بھی یہی ہوا اور حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے اور ملکی خزانے میں اضافے کے لیے سب سے آسان اور تیزرفتار اور آزمودہ طریقہ کاراختیار کیا گیا اور راتوں رات ملکی خزانہ بھرنا شروع ہو گیا۔
مہنگائی کا رونا تو ہرحکومت میں رویا ہی جاتا ہے لیکن کسی بھی حکمران کو آج تک عوام پر ترس نہیں آیا اور حکومتوں نے عوام کو رونے دھونے کے لیے ہی چھوڑ دیا ۔ عوام بھی اتنے بے بس ہیں کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں اور وہ حکومت کی جانب سے اپنے اوپر مسلط کی گئی مصیبتوں کو چار و ناچار بھگتتے ہیں اور اُف تک بھی نہیں کرتے کیونکہ ان کی آہیں اب بے اثر ہو چکی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان آہوں پر اب کوئی کان بھی نہیں دھرتا کیونکہ یہ مشہور ہے کہ حکومت کے کان اور آنکھیں نہیں ہوتیں اس لیے وہ نہ کسی کی سنتی ہے اور نہ ہی دیکھتی ہے کہ کون کس حال میں زندہ ہے۔
ہر حکومت مہنگائی میں اضافے کا موجب اپنی پیشرو حکومت کو ٹھہراتی ہے اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ماضی کی حکومت ملکی معیشت کو اتنا خراب کر گئی جس کی وجہ سے عوام کومہنگائی کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے ۔یہ بات کسی حد تک درست بھی کہی جا سکتی ہے کہ ہم نے آج تک یہی کچھ دیکھا ہے لیکن کسی بھی حکومت نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا بلکہ اپنے آپ کو اس تاریخ میں شامل ہی کیا ۔کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی تو ایسی حکومت ہم بھی دیکھیں جس کے دور میں کسی ماضی کی حکومت کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے اور عوام کو بھی مہنگائی سے بچا کر رکھا جائے لیکن ایسی حکومت کب آئے گی اس کے ابھی تک دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
ہم نے موجودہ حکومت کو بھی بڑے نازونخرے کے ساتھ ووٹ دے کر منتخب کیا ہے اور ان کا بھی انتخابات سے پہلے یہ دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ملک کے ہر شعبہ کے ماہرین کی ٹیمیں تیار ہیں جو کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی اپنا کام شروع کر دیں گی اور پھر ہر طرف سکون اور امن و امان کا دور دورہ ہو گا راوی چین ہی چین لکھے گا یعنی ہماری توقعات کو اتنی بلندی تک پہنچا دیا گیا کہ عوام یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ جس نجات دہندہ کے انتظار میں تھے وہ عمران خان کی شکل میں آن پہنچا ہے اس لیے عوام نے اس امید پر کہ ان کے دکھوں کا علاج ہو گا انھوں نے عمران خان کو منتخب کر لیا اور معجزوں کے انتظار میں بیٹھ گئے ۔
معجزے تو خیر کیاہونے تھے البتہ عوام کو ایک بار پھر ان کی اوقات یاد دلا دی گئی اور مہنگائی کا بم گرا دیا گیا جس کی توجیہہ یہ پیش کی جارہی ہے کہ بہت جلد حالات اچھے ہو جائیں گے اوراشیا کی قیمتیں واپس اپنی پرانی سطح پر آجائیں گی ۔ شاید یہی وہ معجزانہ باتیں ہیں جن کو سن کر عوام بہک گئے کیونکہ ہم نے اپنی ستر سالہ تاریخ میں یہ نہیں دیکھا کہ مہنگائی واپس پرانی سطح پر آ گئی ہو البتہ اس میں مزید اضافہ ہی دیکھا اور اس کو برداشت بھی کیا۔
آج کے ظالمانہ سر مایہ دارانہ نظام میں اب اس بات کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے کہ عوام کو کوئی سہولت فراہم کی جائے بلکہ ان پر مزید بوجھ لادنے کی پہلے سے ہی تیاری کر لی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کو عوام تک منتقل کیاجاتا ہے تا کہ وہ اس بوجھ کو برداشت کرنے کی عادت بنا لیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام کی یہ خوبی ہے کہ یہ امیر کو امیرتر اورغریب کو غریب تر بنا دیتا ہے اور کسی تیسری بات کی اس میں بالکل بھی گنجائش نہیں اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ غریبوں کی حالت بدلنے کے بجائے پہلے سے بدترہوتی جارہی ہے اور امیروں کی دولت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس کو سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے اور ہم اس دور میں ہی زندگی گزار ہے اور ہماری معیشت بھی اسی نظام کے تابع ہے۔
عالمی ساہوکاروں نے تیسری دنیا کے ملکوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیا اور ابتداء سے ہی ان کو قرض کی مے پلاتے رہے اور تیسری دنیا کے حکمران اس قرض کی مے میں مدہوش رہے جس نے عوام کا خون چوس لیا اور اب تو حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ان ملکوں کی یہ جرات نہیں کہ وہ اپنے ساہوکاروں کی پالیسیوں سے رو گردانی کا سوچ بھی سکیں ۔
اب تو یہ عالمی ساہوکار قرض بھی اپنی شرائط پر دیتے ہیں اور یہ شرائط عموماً عوام دشمن ہی ہوتی ہیں کیونکہ ان کو اپنے قرض وصول بھی کرنا ہے لہذا وہ خود سے ہی حکومتوں کو ہدایات دیتے ہیں کہ کون کون سے ٹیکس عوام پر لگا کر ان سے اپنا قرض وصولی کو ممکن بنانا ہے اور ہماری حکومتیں مجبور ہوتی ہیں کہ ان کی شرائط کو من و عن قبول کریں کیونکہ تیسری دنیا کے ملکوں کواپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔
بات مہنگائی سے شروع ہو کر عالمی قرضوں تک پہنچ گئی دراصل یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے ۔عوام اب باشعور ہو چکے ہیں وہ دیکھ رہے ہیںکہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور کون اس کا ذمے دار ہے وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں لیکن اگر سچ بات کی جائے تو پاکستانیوں کے کسی مسیحا کا ابھی دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں ۔
ہمارا ہر حکمران ہمارے لیے ظالم حکمران ہی ثابت ہوا کسی نے عوام دوست حکمران بننے کی کوشش نہیں کی سب نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس ملک کے عوام کا سودا کیا اور ان کو مزید پستیوں میں دھکیل دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت عمران خان کی قیادت میں پہلی بار اقتدار میں آئی ہے لیکن یہ حکومت بھی ابھی تک عوام کو کوئی بھی ریلیف فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے بلکہ آئے روز مہنگائی کے تحفے ہی دیے جا رہے ہیں اور سنایا یہ جاتا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں ۔ پاکستانی ان اچھے دنوں کا گزشتہ ستر برسوں سے انتظار کر رہے ہیں ۔