روشنی کا سراغ
ریاست آگے بڑھ رہی ہے۔ جمہوریت اپنے نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔ اور ہمارے دوست و دشمن ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
عجیب ہوتے ہیں سیاست کے رنگ، جب ریاست کے ڈھنگ الگ ہوتے ہیں۔ ہاں یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ ہم کوئی بنانا ریپبلک بھی نہیں۔ آئین اور قانون اپنی راہیں متعین کرتا جارہا ہے۔ ن م راشد کے حسن کوزہ گر کو تو نو سال محبوبہ کی گلیوں کے دیوانہ وار پھیرے کاٹنے پڑے تھے، ہمیں بحیثیت قوم اس پاداش میں ستر سال گزرے ہیں جہاں سے گیارہ اگست کو جو راہیں ہمارے لیے جناح نے متعین کی تھیں۔ ٹھیک ہے سوموٹوز بھی ہیں اور جو ہو رہا ہے وہ بھی ہورہا ہے۔
دنیا کی آنکھ میں ہم اگر صحیح ڈگر پر نہیں تو صحیح ڈگر پر گامزن ہو بھی رہے ہیں۔ ہم بین الاقوامی مروج ریاست کی تشریح پر پورا اترنا چاہتے ہیں، اپنی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی تناظر میں۔ ہم ذمے دار قوم ہیں۔ طرح طرح کے خیال و فہم یہاں پروان چڑھتے ہیں، گھٹتے بڑھتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے، یہی تحقیق بھی ہے تو ارتقا کا تقاضا بھی۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر بات پر اتفاق رکھیں اور ایسا ہوتا بھی نہیں، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم مارنے اور مرنے پر اتر آئیں۔
اس حد تک چلے جانا، کوئی کسر نہ چھوڑنا۔ یہ کہاں کی بصیرت ہے، کون سی دانشمندی ہے؟ مگر کیا یہ سب اچانک ایک رات میں ہوا، حادثے اچانک جنم نہیں لیتے، ہم ان کو پروان چڑھاتے ہیں اور جب یہ نتیجہ خیز ہوجاتے ہیں تب شاید ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہاں حادثہ پیش آیا؟ لیکن ہمیں دیکھنا ہیں حادثے کی وجوہات، کہ حادثہ کیوں پیش ہوا ۔
یہ ہم تھے جو رونا روتے تھے اس بیانیہ کا۔ اس بیانیہ کے بگاڑ کا۔ ووٹ لینے تو وہ گئے تھے۔ پوچھیں ان سے کہ ووٹ کو مانتے بھی ہیں؟
ایک ہی جھٹکے میں عمران خان نے بتادیا کہ وہ صحیح جارہے ہیں۔ کپتان بڑے کٹھن زمانوں میں اننگ کھیلنے آئے ہیں۔ ان کا اپنا تجربہ بھی کوئی نہیں۔ ان کے پاس ٹیم بھی نہیں۔ ان کو اس بات کی پروا بھی نہیں کہ ان کی پاپولریٹی کا گراف بھی گر رہا ہے۔ جب نیشنل لیڈر ظہور پذیر ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ان کے حلقے میں لوگ کیا سوچتے ہیں، وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ اس ملک کے لیے ان مخصوص حالات میں اور آگے جانے کے لیے کیا بہتر ہے۔ کس راہ کا تعین کرنا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی ٹیم بناتا ہے۔ ایک ایک رنز سے اسکور کو بلڈ اپ کرتا ہے۔ فرد آتے جاتے رہتے ہیں۔ آج عمران خان ہیں، کل نہیں ہونگے، یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے کہ آیا وہ جناح اور بھٹو کی صف میں کھڑا ہوکر پاکستان کی تاریخ کا ورق بنے گا یا پھر کسی آمر کا سایہ۔
اور یہ بھی بیانیہ ہے کہ جمہوریت کے لیے ہر اول دستہ میاں صاحب بھی ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو اس دستور اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔میاں صاحب تو آئین اور قانون کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ باتیں جو ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھیں، وہ ایک نئے زاویے سے آج ہمارے سامنے پڑی ہیں۔ سعد رفیق پارلیمنٹ میں شیخ رشید کے حوالے سے صحیح کہہ رہے تھے۔ لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ جو اس ہاؤس کے فلور پر کیپٹن صفدر کہہ رہے تھے وہ کیا تھا؟ ہم سب نے اپنے مفادات کے لیے لوگوں کے جذبات سے کھیلا ہے۔ اب یہ ہے کہ ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے''۔ بہرحال پاکستان اپنی راہیں متعین کرتا جارہا ہے۔ اسے ایک بھرپور ریاست ہونے کے لیے انسانی وسائل کی ترقی کے لیے شرح نمو کے لیے کچھ بڑے فیصلے کرنے ہیں اور وہ فیصلے یہ ریاست کر رہی ہے۔
میاں صاحب جتنا بھی بھاگیں مگر ضیاء الحق کا بیانیہ ان کا پیچھا کرتا رہے گا، وہ اپنے ووٹ بینک کے تحفظ میں کسی کو تاش کے پتوں کی طرح یا شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتے رہیں گے۔ کیوں کہ میاں صاحب سینٹرل پنجاب کے مخصوص تناظر میں جمہوریت کو دیکھتے ہیں اور بلاول بھٹو سندھ اور پاکستان میں سیکولر قوتوں کے پس منظر میں حقائق کو دیکھتے ہیں۔
عمران خان کا طرز حکومت بھی جلد بازیوں پر منحصر ہے، اعظم سواتی کا معاملہ ہی دیکھ لیں ۔
یہ سچ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی فعالیت سے بہت سے اچھے کام بھی ہوئے ہیں مگر جو سول رٹ ہے وہ محدود ہوگئی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ سول لیڈرشپ جو کل تھی وہ بھی مایوس کن تھی اور جو آج ہے اس سے بھی عوام مایوس ہیں۔ امید دم توڑ رہی ہے، ان کی پگڈنڈی افسر شاہی ہے۔ اور یہ افسر شاہی سیاسی اثر کے تابع ہے۔ جو افسر شاہی ان سیاستدانوں کے خواہشات کو پورا کرتے ہیں ان کو اچھی پوزیشن اور پروموشن ملتے ہیں۔ یہی کرپشن کا سرطان ہے جس نے پورے نظام کو جکڑا ہوا ہے، جو ان سیاستدانوں کو بھی اس میں سے حصہ نہیں دیتے اور اس پورے سرطان زدہ سسٹم کی ذمے داری بھی ہم نے جو بیانیہ بنایا ہے اس میں ان سیاستدانوں پر ڈال دی ہے۔ کل تو سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ نیب کچھ کیسز میں زیادہ توجہ دیتی ہے اور کچھ پر کم توجہ۔ اس ملک میں ہر بیماری کی جڑ سیاستدان نہیں ہیں اور بھی ہیں پردے کے پیچھے۔
لیکن جو کام اومنی گروپ پر ہورہا ہے، جس طرح سندھ میں لوٹ مار ہوئی ہے۔ جس طرح یہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ہوئی ہے، اس کیس کی بھی اپنی میرٹ ہے۔ کس خوبصورتی سے زرداری کہتے ہیں کہ لوگ دوسروں کے اکاؤنٹ میں اپنی رقومات جمع کرتے ہیں۔ میں بھی پندرہ سال کا بینکنگ تجربہ رکھتا ہوں۔ کس طرح جعلی اکاؤنٹ ہوتے ہیں۔ جن کے چیک بک اکاؤنٹ ہولڈر کے پاس نہیں ہوتے ہیں، یہ کسی اور کے پاس ہوتے ہیں اور بینک منیجر پوری اس منی لانڈرنگ کو مانیٹر کرتا ہے۔ زرداری نے ایک طرح سے اعتراف کیا ہے یہ کہہ کر کہ یہ پریکٹس عام ہے۔ مگر لاکھوں اور کروڑوں کی بات سمجھ آتی ہے، اربوں جمع ہوں دودھ والے اور فالودے والے کے اکاؤنٹ میں اور اسے کوئی خبر بھی نہ ہو۔ یہ بات تحقیق طلب ہے۔
ریاست آگے بڑھ رہی ہے۔ جمہوریت اپنے نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔ اور ہمارے دوست و دشمن ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ سب سلیس انداز میں دیکھنا نہیں چاہیے، یہ بہت حساس اور گھمبیر معاملات ہیں۔ اور بالکل صحیح کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے، اور یہ ہر ریاست کرتی ہے۔