ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت
5 نومبر کو ایران پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ 6 نومبر کو امریکا کے مڈٹرم الیکشن ہوں گے
www.facebook.com/shah Naqvi
آج کل عرب ممالک بڑی تیزی سے اسرائیل کے قریب آ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اکتوبر میں سلطنت عمان کا خفیہ دورہ کیا۔ جس کی پہلے سے کسی کو خبر نہ تھی۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے واپس اسرائیل پہنچ کر اس دورے کی ویڈیو جاری کی تاکہ دنیا کو یقین آ جائے۔ اسرائیل کے کسی وزیراعظم کا یہ 22 سال بعد سلطنت عمان کا دورہ تھا۔ اس سے قبل دونوں ملکوں میں آمد و رفت قائم تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دورے سے ایک ہفتے پہلے فلسطین کے صدر محمود عباس عمان کا دورہ کر چکے تھے۔ مبصرین کے نزدیک فلسطین کے صدر کے دورے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ معنی خیز ہے۔
اسی دوران 6 خلیجی ممالک نے فوجی اتحاد بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس میں مصر بھی شامل ہو جائے گا۔ اس اتحاد کو عرب نیٹو کہا جائے گا۔ اس سے پہلے سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوج کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے ۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ نئے عرب نیٹو اتحاد کا ہدف کون ہو گا، اشارے تو ایران کی طرف ہی جاتے ہیں تاہم ایران خود بھی سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کو بار بار پیش کش کر چکا ہے کہ آئیں مل کر ایران عرب اتحاد بنائیں اور امریکا کو اس خطے سے نکالیں۔ ایرانی پیشکش بھی کوئی بری نہیں ہے۔
چند دن پیشتر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اس پس منظر میں پاکستان کا ایک روزہ دورہ کر چکے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ ان کا دوسرا دورہ تھا۔ خلیجی ریاستیں امریکا پر انحصار کی وجہ سے اس قدر کمزور ہو چکی ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب کا مذاق اڑاتے ہوئے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکی فوج کی مدد نہ ہو تو سعودی بادشاہت دو ہفتے سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ اب وہ اس مدد کا سعودی عرب سے سے اربوں ڈالر معاوضہ مانگ رہے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی تیل کمپنیوں کی خلیجی تیل پر اجارہ داری ہے تو دوسری طرف خلیجی ریاستوں کے علاوہ صرف سعودی عرب سے امریکا کئی سو بلین ڈالر اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کر چکا ہے۔ اس پر سعودی عرب کو بھاری رقوم خرچ پڑنا پڑی ہیں، ایک لحاظ سے یہ امریکا کو معاوضہ کی ادائیگی ہی ہے۔ ادھر مسلم دنیا ابھی تک سمجھ نہیں پا رہی کہ اسرائیل امریکا کی آنکھ کا تارہ کیوں ہے۔ خلیجی ریاستیں اس وقت جتنی کمزور ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔ صورتحال بڑی تیزی سے عرب ممالک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف جا رہی ہے کیونکہ پچھلے پچاس سال سے راستے کی تمام رکاوٹیں ایک ایک کر کے مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی بالادستی کے لیے دور کی جا چکی ہیں۔
اسرائیل مخالف ممالک عراق، لیبیا، شام اور یمن کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ یہی وہ ممالک تھے جو اسرائیلی توسیع پسندی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ ترکی بھی امریکی ہدف پر آ چکا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کو بھی امریکا نے کمزور کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستانی طالبان کی بلاواسطہ اور بالواسطہ سرپرستی کی گئی، یہاں تک یہ لوگ پاکستان پر قبضہ کرنے والے تھے لیکن پاکستانی فوج نے ان کی کمر توڑ دی لیکن دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔ یہ نقصانات کئی سو ارب ڈالر تک پہنچتے ہیں۔ ان نقصانات نے پاکستانی معیشت کو انتہائی کمزور کر دیا۔
اسرائیلی بالادستی کے لیے راہ کس طرح ہموار کی گئی کہ چالیس سال پہلے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ جس میں پاکستان سمیت لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ القاعدہ طالبان، داعش کو تخلیق کیا گیا۔ ایک امریکی تھنک ٹینک نے داعش کی مثال شہد کے چھتے سے دی۔
اس کے لیے داعش کی شام میں ریاست قائم کی گئی تاکہ تمام دنیا کے جہادی وہاں اکٹھے ہو جائیں۔ ابتداء میں داعش کو کامیابیاں ملیں۔ جب پوری دنیا سے جہادیوں کی بہت بڑی تعداد اکٹھی ہو گئی تو ان میں بیشتر کو مار دیا گیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ دنیا میں بکھرے ہوئے جہادیوں کو پہچاننا اور ان کو مارنا مشکل کام تھا۔ شام اور عراق کے کچھ علاقے پر ایک ریاست قائم کر کے ان کو ترغیب دی گئی کہ وہ ایک جگہ پر آ جائیں۔ جب وہ ایک جگہ پر آئے تو ان کے خلاف ایکشن ہوگیا۔ چنانچہ شہد کی مکھیوں کے چھتے کی تشبیہ اسی لیے دی گئی تھی ۔جب کہ دنیا کے سادہ لوح مسلمان اس خوشی سے سرشار تھے جلد ہی ایک بہت بڑی اسلامی ریاست بننے والی ہے۔
5 نومبر کو ایران پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ 6 نومبر کو امریکا کے مڈٹرم الیکشن ہوں گے۔ اگر اس انتخاب میں ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو ہمارا خطہ جنگ کا میدان بنے گا۔ انارکی دبے قدموں بڑی تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ نیا سال ایک عالمی جنگ کے خطرات لے کر آرہا ہے۔
اس پس منظر میں جب کہ پاکستان بہت بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے، وزیراعظم عمران خان اس مسئلے کے حل کے لیے چین میں ہیں۔ یہ آرمی چیف اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی تھے جنہوں نے بار بار مداخلت کرکے وقت پر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا ورنہ غیر جمہوری قوتوں کی پوری کوشش تھی کہ انتخابات سرے سے منعقد نہ ہوں۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف وجوہات کو جواز بناتے ہوئے انتخابات کو ملتوی کرنے کا شوشہ چھوڑا لیکن آرمی چیف اور چیف جسٹس کسی طور راضی نہ ہوئے کیونکہ انھیں پتہ تھا کہ اگر ایک مرتبہ انتخابات ملتوی ہوئے تو پھر ان کا انعقاد بہت مشکل ہوگا۔ پاکستان دشمن طاقتیں بھی یہی چاہتی تھیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا بوریا بستر گول کردیا جائے۔
جس بحران کا ہم خطے میں سامنا کرنے والے ہیں اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ سیاسی اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہو۔ ہمیں بہت زیادہ خبردار اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے چاہئیں۔ مولانا سمیع الحق کا پراسرار قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
٭... حالیہ بحران کے حوالے سے اہم تاریخیں 7,6 اور 11,10,9 نومبر ہیں۔