مکالمے کی موت

ابھی پچھلے ماہ کے آغاز میں بھی اُن سے ایسی ہی ایک گزارش کی گئی تھی


Tanveer Qaisar Shahid November 05, 2018
[email protected]

راولپنڈی وہ بد قسمت شہر ہے جہاں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان شہید کیے گئے، جہاں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور جہاں پاکستان و عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ اور اب اِسی شہر میں پاکستان کے نامور عالمِ دین اور اکوڑہ خٹک کی عالمی شہرت یافتہ اسلامی درسگاہ کے سربراہ حضرت مولانا سمیع الحق شہید کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے : موت العالِم، موت العالَم۔ قبلہ مولانا سمیع الحق کی اچانک موت پریہ مقولہ سچا لگتا ہے۔

جہادِ افغانستان کے نتیجے میں ہمارے ملک کو دہشتگردی کی جس خونی بلا نے اپنے پنجوں میں جکڑا ،اِس نے جہاں پاکستان کے 80ہزار سے زائد معصوم شہریوں کی جانیں لی ہیں ، وہیں اِس نے ہمارے کئی ممتاز ترین اور بے بدل علمائے کرام کو بھی ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا ہے۔ دہشتگردی کے اس خونخوار طوفان نے کراچی میں مولانا محمد امین، مولانا مختار احمداور مولانا ڈاکٹر مسعود بیگ کو شہید کر دیا۔ ٹانک میں مولانا معراج الدین ایسے شاندار عالمِ دین کو شہید کیا گیا۔ پشاور میں جامعہ مسجدِ درویش کے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حسن جان علیہ رحمۃ کی جان لے لی گئی۔

لاہور میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم و متبحر عالمِ دین مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو خود کش حملہ آور نے شہید کر کے ہمارے دل خون کر دیے۔ کس کس کا ماتم کیا جائے؟ اور اب مولانا سمیع الحق کو ظالموں نے شہید کر کے پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کو گہرا زخم دیا ہے۔ یہ زخم جَلد مندمل نہیں ہو سکے گا۔یہ اندازہ لگانا سہل نہیں ہے کہ جس شخص نے 30 برس تک مسلسل اکوڑہ خٹک کی قدیم اور مستند درسگاہ کی سربراہی کی ہو، اُس نے کتنے شاگردوں میں اسلامی علوم کا نور تقسیم کیا ہوگا!! یہ ریکارڈ شائد اِس مدرسے کے پاس بھی نہیں ہوگا جواَب اسلامی یونیورسٹی کی ایک شاندار اور قابلِ فخر مثال بن چکا ہے۔

مولانا حسن جان علیہ رحمۃ ، جو راقم کے محسن بھی تھے اور مشفق بھی، کسی شقی القلب کے ہاتھوں شہید ہُوئے تھے تو دل خون کے آنسو رویا تھا۔ اب خنجروں کے وار سے مولانا سمیع الحق کی جان لی گئی ہے تو دل کی عجب کیفیت ہے۔ اُن سے ہونے والی لاتعداد ملاقاتوں کا اَب صرف دھواں باقی رہ گیا ہے۔اُن سے اوّلین اور تفصیلی ملاقات اَب تک دل پرنقش ہے۔ یہ ملاقات لاہور کی ایک مشہور دینی درسگاہ (نیلا گنبد، انار کلی) کے ایک سادہ سے کمرے میں ہُوئی تھی۔ راقم اُن دنوں ایک ہفت روزہ اخبار کا نائب مدیر تھا۔ اس ملاقات میں گوجرانوالہ کے ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب بھی شریک تھے۔

ملاقات کے اختتام پر راقم نے مولانا سمیع الحق صاحب سے عرض کیا:آج کی ملاقات اگلے ہفتے انٹرویو کی شکل میں ہماری ٹائٹل اسٹوری بنے گی۔سُن کر تبسم فرمایا اور خاموش رہے۔ گزشتہ روز مجھے انھوں نے پھر اپنے ہاں یاد فرمایا۔ حاضر ہُوا تو پہلے چائے اور بسکٹ عنائت فرمائے اور پھر دھیرے سے اپنی ایک شاندار تصویر بھی۔ یہی فوٹو اگلے ہفتے جریدے کے ٹائٹل کی زینت بنی۔ یہی ملاقات بعد ازاں اُن سے متعدد ملاقاتوں کا موجب بنی تھی۔ وہ لاہور تشریف لاتے تو ممکن ہی نہیں تھا کہ اُن کی خدمت میں حاضری نہ ہو۔ خوش مزاجی کے حامل اور خوشگوار گفتگو کرنے والے شہید مولانا اب ہمیں کبھی میسر نہیں آئیں گے۔

اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی، نئی کتاب کا تحفہ ضرور عنائت فرماتے۔ مسند پر جم کر بیٹھنے والے عالمِ دین تھے۔ عرق ریزی سے کتاب لکھنے والے محقق ۔ کتنے علما ء ایسے رہ گئے ہیں جنہیں کتاب پڑھنے سے رغبت ہے اور کتنے ایسے ہیں جو صاحبِ کتاب ہیں! ایسی جامعہ کے مہتمم تھے جہاں کبھی آٹھ سال تک حضرت مولانا فضل الرحمن بھی زانوئے تلمذ تہ کیے رہے۔

ایک عظیم عالمِ دین ، مولانا عبدالحق علیہ رحمہ، کے فرزندِ ارجمند۔ وہی مولانا عبدالحق مرحوم و مغفور جنہوں نے بطورِ رکن ِ قومی اسمبلی پاکستان کے پہلے متفقہ آئین پر خود بھی دستخط کیے اور دوسرے علمائے کرام کو بھی اس پر متفق کیا۔ مولانا سمیع الحق نے اپنی سرکردگی میںجہادِ افغانستان کے لیے اَن گنت مجاہدین کو تیار کیا۔ برسوں اُن کامدرسہ افغان مجاہدین کا مرکز بنا رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے مقربین علماء میں سے ایک رہے۔ ایک دَور میںنواز شریف کے معتمد علماء میں بھی شامل تھے۔ ایک سے زائد بار سینیٹر بھی چُنے گئے۔

افغانستان میں مُلا محمد عمر کے طالبان اقتدار میں آئے تو افغانستان بھر میں مولانا سمیع الحق کے احترام و اکرام کا پرچم بھی لہرانے لگا تھا۔مُلا محمد عمر بھی اُن کے مدرسے کے طابعلم رہے اور افغانستان میں امریکیوں کے اعصاب توڑنے والے اور ''حقانی نیٹ ورک'' کے خالق مولانا جلال الدین حقانی بھی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل تھے۔ مولانا سمیع الحق صاحب ''بابائے طالبان'' کہلاتے تھے تو اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ مغربی میڈیا انھیں ''فادر آف دی طالبان'' کے نام سے یاد کرتا اور پکارتا تو وہ بُرا نہیں مناتے تھے۔

وطنِ عزیز کی سیاست کا بھی وہ ایک متحرک کردار تھے۔ ہمیشہ چاہا کہ دین کا نام بلند آہنگ سے پکارنے اور دین کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں ، فرقہ و مسلک سے بلند تر رہ کر، ایک متحدہ اور مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائیں؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس ضمن میں اُن کی کوششیں ثمر آور بھی ہُوئیں، ایم ایم اے کی شکل میں۔ جنرل پرویز مشرف کے دَورِ اقتدار میں متحدہ مجلسِ عمل کو خیبر پختون خوا میں اقتدار ملا تو اس میں مولانا سمیع الحق کی مساعیِ جمیلہ کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ پاکستان انکل سام کی خفیہ وارداتوں اور زیادتیوں کا ہدف بننے لگا تو انھوں نے ''دفاعِ پاکستان کونسل'' بنا کر حُب الوطنی کا عملی ثبوت دیا۔اس پلیٹ فارم پر اُن کے ساتھ پروفیسر حافظ محمد سعید بھی تھے اور جنرل حمید گل بھی، شیخ رشید احمد بھی تھے اور جنرل ضیاء الحق کے فرزند اعجازالحق بھی۔

عملی جہاد کے وہ علمبردار تو تھے ہی، مجاہد ساز بھی تھے اور جہاد کو اسلامی مملکت کا سب سے بڑا ستون بھی قرار دیتے تھے۔ مولانا سمیع الحق صاحب شہید مگر مکالمے کے آدمی بھی تھے۔ زندگی کے ان آخری برسوں میں تو وہ مکالمے کے بڑے مبلّغ اور پیامبر بن گئے تھے۔ انھوں نے مکالمے کی طاقت سے افغان طالبان کے بھی کئی متحارب دھڑوں کے تفرقات بھی مٹا ڈالے تھے۔ وہ افغان امن عمل کو ہر صورت کامیاب کیے جانے کے متمنی تھے۔ افغان حکام، خواہ وہ صدر حامد کرزئی تھے یا صدر ڈاکٹر اشرف غنی ہیں، بخوبی جانتے تھے کہ مولانا سمیع الحق افغان طالبان پر گہرا رسوخ رکھتے ہیں؛ چنانچہ دونوں افغان صدور نے کئی بار اُن سے درخواست کی کہ وہ افغان امن عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور افغان طالبان قیادت کو اس جانب مائل فرمائیں۔

ابھی پچھلے ماہ کے آغاز میں بھی اُن سے ایسی ہی ایک گزارش کی گئی تھی ۔ ایک ہائی فائی افغان سرکاری وفد بھی اِسی غرض سے اُن کی خدمت میں حاضر ہُوا تھا۔ مولانا صاحب مگر افغانستان میں امریکیوں اور بھارتیوں کی شیطانیوں کے کارن اس امن عمل سے تقریباً مایوس ہو چکے تھے، اس لیے اِس جانب اپنا ہاتھ آگے بڑھانے سے گریزاں رہے۔اتحاد بین المسلمین کے اس عظیم علمبردار کو شہید کرکے دراصل مکالمے کی طاقت کو قتل اور خاموش کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ حکومتِ پاکستان اور ہمارے اداروں نے ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ، مکالمے کی بنیاد پر، پیغامِ پاکستان کا ڈول ڈالا تو اِس کے حق میں بھی مولانا سمیع الحق صاحب کی آواز سب سے توانا اور نمایا ں ہو کر سامنے آئی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی شہادت سے کئی فریقین کے درمیان بنا مکالمے کا پُل ٹوٹ گیا ہے۔ اس ناگہانی موت پر ہم سب بہت رنجیدہ اور دلگرفتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنت میں مولانا سمیع الحق شہید کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں