یوریشیئن تصور
یوریشینزم کا تصور علاقائی تعلقات کو دور کے تعلقات پر ترجیح دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ISLAMABAD:
براعظم کو عام طور پر کسی بھی خطے کے مسلسل جاری زمینی علاقے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک سرزمین ہونے کے باوجود صدیوں سے یورپ اور ایشیاء کو دو مختلف براعظم قرار دینے پر حیرت ہوتی ہے۔
اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہوسکتا ہے کہ یوریشین سرزمین کے مغربی کنارے پر نشاۃ ثانیہ، سائنسی و صنعتی انقلابات اور ''جدیدیت'' کے نتیجے میں معاشی، سماجی اور فکری سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اور پہاڑی سلسلے کو ان دو خطوں کو الگ قرار دینے کے لیے خط فاصل قرار دینا جغرافیہ دانوں کی زیادتی ہے۔ برطانوی جغرافیہ دان سر ہافورڈ میکنڈر نے 1904ء کے اوائل سے اس نکتے پر توجہ دی تھی کہ یورپ اور ایشیا ایک ہی سرزمین ہیں اور مستقبل میں یہی ''تاریخ کا محور'' ہوں گے۔
پوری ایک صدی ، دو عالمی جنگوں اور کمیونزم کی شکست کے بعد یہ تصور عالمی تناظر کے خواب میں ایک سنگ میل کی صورت اختیار کرگیا۔ اگرچہ اس دوران پیش آنے والے کئی واقعات منفی پہلو بھی رکھتے تھے ، لیکن ان کی وجہ سے عالمگیریت کے عمل کو مہمیز ملی اور عالمی سطح پر طاقت کی تقسیم کی از سر نو صورت گری ہوئی۔
وہ دنیا جسے نوآبادیات اور سامراجیت نے ''تیسری دنیا'' بنا دیا تھا، اس میں کمیونزم کی شکست کے بعد ''دوسری'' دنیا کا خاتمہ ہوا، جس کے نتیجے میں کثیر القطبی دنیا یک قطبی ہوگئی، ہم 21 ویں صدی میں اسی یک قطبیت کو دیکھتے ہوئے داخل ہوئے اور اس کے بعد معاشی و سیاسی قوت کی نئی شراکتیں وجود میں آگئیں۔
ایشیاء کے تاریخ کا محور بننے کے آثار چین کی بے مثال ترقی سے نمایاں ہوئے ، جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مغرب، بالخصوص امریکا ، نے اس ترقی کے باعث مشرق کی طرف دیکھنا شروع کردیا، جہاں چین جیسی بڑی مارکیٹ کے مواقعے سے وہ پُرامید بھی تھا تو اس کی غیر معمولی طاقت سے خوفزدہ بھی۔ صدر اوباما نے امریکی پالیسی میں ایشیا کو محور بنانے کے لیے کاوشوں کا آغاز کیا اور ایشیا میں ہونے والی تیز ترین تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش بھی کی۔ انھوں نے خود کو ''پہلا پیسفک صدر'' بھی کہا لیکن یہ سب کوششیں بے نتیجہ رہیں۔
جب یہ واضح ہوگیا کہ مغرب اس دائرے سے باہر نہیں رہے گا جسے روس اپنا حلقہ اثر تصور کرتا ہے تو اس نے مشرق اور چین کی جانب دیکھنا شروع کیا، جو کہ مستقبل کی عالمی طاقت ہے۔ماضی میں سوویت یونین کے ساتھ چین کے تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہے، کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہی چین اور روس میں باقاعدہ ایک دوسرے کے قریب ہوئے۔
1992ء میں دونوں ممالک نے ''تعمیری شراکت داری'' کی جستجو کا اعلان کیا ، 1996ء سے 2001ء تک اسے ''تزویراتی شراکت داری کا نام دیا گیا اور دونوں ممالک نے ''دوستی اور باہمی تعاون'' کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس پیشرفت کا ایک بڑا نتیجہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی صورت میں برآمد ہوا۔ 2001ء میں قائم ہونے والا یہ فورم سیاسی ، اقتصادی اور سلامتی کی تنظیم ہے، اس کے چارٹر پر 2002ء میں دستخط ہوئے اور 19ستمبر 2003ء کو عمل درآمد کا آغاز ہوا۔
اس چارٹر کے مطابق یہ تنظیم رکن ممالک کے مابین اعتماد اور ہمسائیگی کے تعلق کو مضبوط کرنے اور ان کے مابین سیاسی، تجارتی، اقتصادی، ثقافتی اور تعلیم، توانائی اور نقل و حمل کے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہے گی۔ آج اس فورم کی توجہ کا دائرہ سلامتی سے متعلق امور اور باہمی معاشی تعاون تک پھیلا دیاگیا ہے۔ 2017ء سے پاکستان اور بھارت سمیت اس کے 8ارکان ہیں، افغانستان، ایران، منگولیا اور بیلاروس سمیت چار مبصر ریاستیں اور (ترکی، سری لنکا، نیپال، کمبوڈیا، آزر بائی جان اور آرمینیا)چھے مذاکراتی شراکت دار ہیں۔
یہ اگر سب سے بڑی نہیں تو اہم یوریشیئن تنظیم ہے جو اپنے ارکان کے مجموعی جغرافیائی حجم کے ساتھ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی اور پوریشین براعظم کے تین بٹا پانچ زمینی علاقے کی نمایندگی کرتی ہے، اس میں روس اور چین کی دو جوہری قوتیں شامل ہیں جنھیں سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت بھی حاصل ہے اور بھارت، پاکستان اور اسرائیل جیسے اہم ممالک بھی شامل ہیں۔ گوکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا ایجنڈا ارتقا پذیر ہے، تاہم یہ تنظیم ریاستوں کے مابین امور سے نمٹنے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی بنا پر اہم ہے، علاوہ ازیں اس کے ارکان میں سیاسی و معاشی نظام کے اعتبار سے جو تنوع پایا جاتا ہے اور ان کے سفارتی، معاشی قوت، مذاہب ، ثقافتیں اور جغرافیے میں بھی یہی خصوصیت پائی جاتی ہے۔
اسی تنوع کی بنیاد پر خطے کی سطح پر یہ تنظیم باہمی تعاون اور تمام ارکان کے رابطوں کو مستحکم کرنے کی اپنی صلاحیتوں کا درست دعویٰ رکھتی ہے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد روس نے سنبھلنا شروع کیا لیکن مغرب نے اسے تنہا چھوڑ دیا تو روس نے ''وسیع تر یوریشیئن شراکت داری'' کے منصوبے کی تشکیل کی۔
جون 2016ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی رکن کے طور پر روسی صدر ولادیمر پیوٹن اور چینی صدر شی جنپنگ نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے اور اپنے کا اہداف کا اعلان کیا: ''یورپ اور ایشیا کے مابین وسعت، شفافیت، دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر جامع شراکت داری کا قیام جس میں یوریشیئن اکنامک یونین، شنگھائی تعاون تنظیم اور آسیان کو ایک جگہ لانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔'' ہونے والی نئی پیشرفت کے باعث پاکستان کو بے انتہا اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔
ایشیا کے قلب میں پاکستان مختلف خطوں اور قوتوں کے مابین ایک پُل کی طرح واقع ہے، اسی لیے خطے میں استحکام اس کی خصوصی ذمے داری ہے اور ہماری خارجہ پالیسی اس عزم کی عکاس ہونی چاہیے۔ پاکستان ایشیا کے مرکزی علاقے اور خطے کے دوسرے ممالک اور طاقتوں کے مابین پُل کی حیثیت رکھتا ہے، علاقائی استحکام پاکستان کی اہم ترین ذمے داریوں میں شامل ہے اور ہماری خارجہ پالیسی اس حوالے سے ہمارے عزم کی عکاس ہونی چاہیے۔
جنوبی ایشیا کی آبادی 1.8ارب سے بھی زائد ہے، کام کرنے کے قابل عمر رکھنے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد اسی خطے میں بستی ہے اور ان کی اکثریت زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں خدمات کے شعبے میں ان کا حصہ غیر معمولی حد تک بڑھا ہے۔ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے چار بڑے ممالک؛ چین ، افغانستان، بھارت، ایران اور تیل سے مالال خلیج سے ملحق سرحدوں کے ساتھ جغرافیائی طور پر اہم یہ علاقہ قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال اور ترقی کی بے پناہ صلاحیت کا حامل ہے۔
خطے کے بدلتے سیاسی حقائق کے پیش نظر، غوروفکر کے بعد (عوامی و ادارتی سطح پر بحث کرکے) اتفاق رائے سے بنیادی قومی مفادات سے متعلق، قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ خطے کی غیر یقینی صورت حال، نئے اتحاد اور ممالک کے باہمی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔ ہمیں اپنی غیر جانب داری برقرار رکھتے ہوئے پڑوسی ملک ایران اور دیرینہ دوست سعودی عرب اور اسی طرح دیرینہ اتحادی امریکا اور روس سے بننے والے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔
یوریشینزم کا تصور علاقائی تعلقات کو دور کے تعلقات پر ترجیح دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسا پلیٹ فورم ثابت ہوسکتا ہے جو استحکام کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین بحرانوں کو حل کرنے کی راہیں فراہم کرتا ہو۔
یوریشیئن تصور کے تحت اقتصادی قوت کو یکجا کرنے کی عالمی حکمت عملی اس بات کی متقاضی ہے کہ معروضیت کے ساتھ عالمگیریت اور قومی ریاستوں کی کم ہوتی اہمیت پر غور کیا جائے۔ یہ مختلف منظر نامہ یک قطبی دنیا یا متحدہ عالمی حکومت کا تقاضہ نہیں کرتا بلکہ ایسے مختلف بین الاقوامی زونز فراہم کرتا ہے جس میں قومی ریاستوں کے بجائے براعظمی سطح کی کنفیڈرشنز یا ''جمہوری سلطنتیں'' قائم ہوں، جہاں بڑے پیمانے پر داخلی خود مختاری حاصل ہو۔
یوریشیئن تصور عالمگیریت یا کثیر القطبی دنیا کا متبادل ہے اور اس وقت عالمی سطح پر جاری عمل کے ذریعے جدید تاریخ کی سمت متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا مستقبل اس کے ہمسایہ خطے میں بننے والے تعلقات سے وابستہ ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)