چین سے معاہدوں پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری

ریکوڈک، سیندک پراجیکٹس اور سی پیک کے حوالے سے وزیراعلیٰ کا حالیہ دورہ چین قابل ذکر ہے۔


رضا الرحمٰن November 07, 2018
ریکوڈک، سیندک پراجیکٹس اور سی پیک کے حوالے سے وزیراعلیٰ کا حالیہ دورہ چین قابل ذکر ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن موثر کردار ادا کرتے ہوئے صوبائی مخلوط حکومت کی نہ صرف کمزوریوں کی نشاندہی کر رہی ہے بلکہ بلوچستان کے حوالے سے بعض ایشوز کو بھی اسمبلی فلور پر اُجاگر کر رہی ہے جس سے اپوزیشن کے مثبت کردار کی جھلک نظر آرہی ہے۔

گڈ گورننس اور بلوچستان کے حقوق کے حصول کیلئے برسر اقتدار آنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کے سربراہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے یہ دعوے کہ وہ بلوچستان کے حقوق کیلئے ہر فورم پر آواز اُٹھائیں گے اور ان کی جماعت کی تشکیل کے وقت یہ نعرہ کہ اب بلوچستان کے فیصلے اسلام آباد کے بجائے بلوچستان میں ہی ہونگے کی بعض حکومتی اقدامات سے نفی دکھائی دے رہی ہے۔ جن میں ریکوڈک، سیندک پراجیکٹس اور سی پیک کے حوالے سے وزیراعلیٰ کا حالیہ دورہ چین قابل ذکر ہے ریکوڈک اور سیندک پراجیکٹ جو کہ صوبے کی معیشت کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور سابقہ دور حکومت میں بھی ریکوڈک پروجیکٹ پر صوبے کو اختیار دینے کے حوالے سے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں اور اس اہم ایشو پر موجودہ مخلوط حکومت کی خاموشی اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی اس حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں عدم شرکت باعث تشویش ہے جسے بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔

اسی طرح سی پیک کے معاملے پر وزیراعلیٰ بلوچستان کے وزیراعظم کے ساتھ دورہ چین کے حوالے سے بھی بلوچستان کی ان قوم پرست سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتماد میں لئے بغیر چین جا کر معاہدے کرنے پر تحفظات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کی اسٹیک ہولڈرز سیاسی، مذہبی و قوم پرست جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیراعلیٰ ایسا کوئی معاہدہ کرنے کیلئے چین جانے سے قبل سب کو اعتماد میں لیتے تاکہ مضبوط موقف اور اعتماد کے ساتھ چین میں صوبے کی بہتر نمائندگی کرنے کی پوزیشن میں ہوتے اور مضبوط پوزیشن میں ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کے ساتھ بھی صوبے کے عوام کے بہتر مفاد میں معاہدے کر سکتے۔

ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گو وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے جانے سے قبل کوئی مثبت اقدام نہیں اُٹھایا تاہم انہیں چاہیے کہ وہ اب واپس آکر ان معاہدوں اور بات چیت کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کو آگاہ کریں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے دورہ چین سے قبل بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں بلوچستان کو نظر انداز کرنے اور قومی کمیشن کی تشکیل سے متعلق ایک قرار داد کو آئندہ سیشن کیلئے موخر کردیا گیا تاکہ اس حوالے سے صوبائی حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ کا موقف بھی سامنے آسکے۔

اس قرارداد میں رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کی مد میں ملک بھر میں62 ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں احساس محرومی پایا جاتا ہے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سی پیک کی مد میں کی جانے والی غیر منصفانہ تقسیم کی بابت فوری طور پر ایک قومی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کرکے بلوچستان کو سی پیک منصوبے کی تفصیلات اور رقبے کی بنیاد پر اس کا حق ادا کرنے کو یقینی بنائے تاکہ یہاں کے عوام کے احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو سکے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سی پیک کے حوالے سے دورئہ چین اور معاہدوں میں شرکت سے قبل بلوچستان اسمبلی کو آگاہ کرتے تو یقینا اس قسم کے تحفظات اور خدشات کا اظہار اپوزیشن جماعتیں نہ کرتیں یقینا اب انہیں موخر شدہ اس قرارداد پر اپنا موقف ایوان میں رکھنا ہوگا اور دورئہ چین کے دوران کئے جانے والے معاہدوں سے بھی آگاہ کرنا ہوگا۔

سیاسی تجزیہ نگار گذشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں پیش کئے جانے والے اس مسودہ قانون کو بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ کیلئے مسودہ قانون پیش کرکے ایوان سے اُس کی منظوری لی گئی اس مسودہ قانون پر اپوزیشن نے بھرپور احتجاج بھی کیا اور بعد ازاں منظوری کے دوران واک آؤٹ بھی کیا لیکن اس کے باوجود اس قانون کی منظوری دے دی گئی۔ جبکہ منظوری کے وقت وزیراعلیٰ بلوچستان کا اس حوالے سے یہ موقف تھا کہ معاون خصوصی ماضی کی حکومتوں میں بھی تعینات کئے جاتے رہے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ ہم اسمبلی کی منظوری سے معاون خصوصی کی تعیناتی کو قانون کا حصہ بنا رہے ہیں جبکہ اپوزیشن رکن ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ اس مسودہ قانون میں ٹیکنیکل غلطیاں بھی موجود ہیں جبکہ اس کی ضرورت و افادیت کا بھی تذکرہ نہیں کیا گیا مسودہ قانون میں نہیں لکھا ہے کہ جو معاون خصوصی لیا جائے گا اس کی تعلیمی قابلیت کیا ہوگی۔

وزیراعلیٰ بل پیش کرکے 20گریڈ کے افسران کے بجائے معاون خصوصی سے کام لینا چاہتے ہیں آیا ہمارے صوبے میں لائق فائق آدمی پیدا نہیں ہو رہے کہ وزیراعلیٰ کو معاون خصوصی رکھنے کی ضرورت پڑرہی ہے ہم عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں آیا اب عوام سے بغیر ووٹ لینے والے کو معاون خصوصی مقرر کرکے ایک لاکھ روپے تنخواہ اور بیس گریڈ کے افسر کے برابر مراعات دی جائیں گی؟ ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آئین سے متصادم ہے اور چند لوگوں کو نوازنے کیلئے لایا جارہا ہے ۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلوں سے حکومت کے گڈ گورننس اورکفایت شعاری کے دعوؤں کی نفی ہو رہی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی گرفت بھی آہستہ آہستہ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔

ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق 18 ویں ترمیم کے بعد بلوچستان میں وزراء اور مشیروں کی تعداد میں کمی اور تعداد 14 وزراء اور5 مشیر مقرر کئے جانے کی حد مقرر ہونے کے بعد گذشتہ دور حکومت میں بھی مخلوط حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس پر موجودہ حکومت نے معاون خصوصی کی تعداد بڑھانے کیلئے بل ایوان سے منظور کروا کر اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جسے اپوزیشن کی طرف سے سخت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

گو کہ مخلوط حکومت نے اپنا یہ سیاسی اسکور تو کر لیا ہے لیکن مستقبل میں اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں میں وزیر یا مشیر بننے سے رہ جانے والے بعض اراکین اسمبلی اور پارٹی میں مضبوط سیاسی حیثیت رکھنے والے ارکان کسی نہ کسی طریقے سے حکومت کا حصہ بننے کیلئے کوشاں ہیں اور معاون خصوصی کے اس بل کے پاس ہونے پر وہ بھی سرگرم ہوجائیں گے جس سے وزیراعلیٰ پر مزید دباؤ بڑھے گا اورمعاون خصوصی کی تعیناتی سے قومی خزانے پر بھی بوجھ بڑھ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔