’’ملاّ کو تھی ہند میں سجدے کی اجازت‘‘

کردار کی بلندی کو ریاست میں کسی فرد کے درجات کی بلندی کا معیار ٹھہرایا گیا۔


Abdul Qadir Hassan November 08, 2018
[email protected]

میرے خیال میں تو مسلمانوں کی کوئی بھی تحریک اگر وہ اسلامی تعلیمات اور مقاصد پر مبنی ہو تو وہ ایک ایسی تحریک ہو گی جسے دنیا سیاسی کہہ لے لیکن اسلام کو جاننے والے اسے دینی تحریک ہی کہیں گے کیونکہ اسلام میں دین و دنیا کی تفریق کا کوئی ادنیٰ سا تصور بھی موجودنہیں ہے۔

یہ جو ہمارے حکمران کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے نام پر سیاست نہ کی جائے وہ اسلامی تعلیمات سے مکمل بے خبری کی بات کہہ رہے ہیں۔ اسلام ایک ہمہ گیر انقلابی سیاسی نظام سے عبارت ہے جس نے عربوں کے اشرافیہ طبقے کی کمر توڑ کر اور زمین کے کمزور ترین افراد کو بلند مرتبہ بنا کر اپنی تحریک اور جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔

فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونے کا اعزاز جب اس انقلاب کے بانی کو نصیب ہوا تو ان کے ساتھ کوئی عرب سردار اور بالادست طبقات کا کوئی نمایندہ نہیں تھا، حبشہ کے علاقے کا ایک سابق غلام تھا جس نے بیت اللہ کی چھت پر چڑھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بلند کیا اور دنیا سے کہا ''حی علی الفلاح'' فلاح اور نجات کی طرف آؤ۔ یہ عوام کے لیے ایک فلاحی ریاست کی طرف آنے اور لائے جانے کا پہلا باقاعدہ اعلان تھا۔

مساوات عدل وانصاف قانون کی حکومت اور صرف نیکی کی بنیاد پر برائی اور اشرافیہ میں شمار ہونے کا پہلا تصور دنیا کو اسی انقلاب سے ملا۔ کردار کی بلندی کو ریاست میں کسی فرد کے درجات کی بلندی کا معیار ٹھہرایا گیا اور پروٹوکول میں اسے پہلی صف میں جگہ دینے کا اعلان ہوا۔

ہم مسلمان آج حضور پاک کی شان میں دنیا میں کہیں بھی ہونے والی گستاخی پر تڑپ اٹھتے ہیں لیکن کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ ہمارا پہلا قائد اور رہنما جو نظام زندگی لایا تھا کیا ہم نے کبھی اس کا احترام بھی کیا ہے بلکہ ہم تو اس کی شان میں عملاً گستاخی کرتے رہتے ہیں اور مساوات عدل و انصاف اور نیکی سے محروم معاشرے کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' میں نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق چل رہی ہے۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی بھی ایک بری شکل کے غلام ہیں جس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔

ہم اپنے دن رات اپنے ہادیٔ برحق ؐ کی یاد اور بے پایاں احترام کے سرور میں گزار رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور کی تاریخ پڑھی بھی ہے اور سنی تو بہت ہے ہمیں معلوم ہے کہ امت کے وہ خوش نصیب لوگ جو حضور پر نورؐ کی حیات مبارکہ میں زندہ تھے اور ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت سے سرخرو ہوتے تھے وہ جب بھی کچھ عرض کرتے تو اپنی بات اس جملے سے شروع کرتے '' میرے ماں باپ حضورؐ پر قربان ہوں''اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ بہت آہستہ آواز میں بات کیا کرو کہیں یہ نہ ہو کہ تمہارے اونچے بولنے سے بے خبری میں تمہارے اعمال ضایع ہو جائیں ۔ حضورؐ کے ساتھ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کرمحبت ایمان کی شرط اول ہے۔

عشق رسول ؐ کی اس کیفیت پر جو عہد نبویؐ میں صحابہ کرام ؓ پر طاری رہتی تھی اور جس کیفیت کو زندہ رکھنے کی بعد میں بھی تلقین کی گئی اگر ہم اس سے محروم ہو جائیں تو پھر ہم کیا ہیں، کچھ بھی ہو سکتے ہیں سوائے مسلمان ہونے کے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں اور جہاں کہیں بھی مسلمان موجود ہیں ناموس رسالتؐ کے تحفظ پر متفق ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہمیں مسلمان رہنا ہے تو پھر محمدؐ کی غلامی میں رہنا ہے۔

اس برصغیر میں جہاں ہم رہتے ہیں مسلمان جب بھی متفق ہوئے تو ناموس رسالتؐ پر ہی متفق ہوئے اس کے سوا کسی دوسرے سوال پر مسلمانوں کے اتفاق کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غازی علم دین شہید اور ختم نبوتؐ کے بعد آج مسلمان متفق ہیں تو ناموس رسالت پر ہیں۔ محمدؐ سے وفا ہی ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور اسوہ حسنہ ہمارا آئیڈیل ہے اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم جس نام پر جمع ہوں اور جس کی محبت اور عشق میں اپنی آواز بلند کریں تو اس کی تعلیمات اس کی زندگی اور اس کے طرز عمل کو سامنے رکھیں۔ ہم جلسے کر یں جلوس نکالیں مسلمان ریاست کی طاقت کے مقابلے پر کھڑے ہوں اور اس کے نام پر کھڑے ہیں جس کے نام پر یہ ملک بنا تھا تو ہمیں اسوہ حسنہ اور اخلاقیات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ہمارے حکمران چونکہ اقتدار کی لذت سے بے گانہ ہو جاتے ہیں اس لیے وہ تو اپنا اقتدار خطرے میں دیکھ کر دہائی دیتے ہیں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے عمل کو اپنی بقاء کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں لیکن ہوشمند مسلمان کسی کے اقتدار کے لیے آنحضرتؐ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلوس میں شامل افراد کو قطعاً کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو سرکاری یا انفرادی ملکیت کی تباہی کا سبب بن جائے۔حضورؐ اس پر ناراضگی فرمائیں گے اسے شرف قبولیت نہیں بخشیں گے کیونکہ اسوہ حسنہ یہی رہا ہے۔

اسلامی نظریات کا نام لینے والے دانشوروں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ مسلمانوں کے اس جذبے کو اسلام کے منصفانہ نظام زندگی کی جانب موڑ دیں جس کے لیے حضورؐ کی بعثت ہوئی تھی اور جس کی برکت سے دنیا نے پہلی اور آخری بار ایک ایسے معاشرے کا نقشہ دیکھا جو مکمل مساوات عدل اور کردار کی بلندی کے معیار پر پورا اترتی تھی۔ جس میں انسانوں کی بڑائی کا معیار اور پیمانہ ان کی دولت نہیں تھی ان کا کردار تھا اور جس نظام میں چھوٹوں کو بڑا بنایا گیا اوربڑوں سے چھوٹوں کا حق چھین لیا گیا۔

یہی وہ انقلاب تھا ورنہ ''ملا کو تھی ہند میں سجدے کی اجازت'' والا معاملہ تھا اس وقت محفوظ ہو گی جب ہم اپنے ملک میں اسوہ رسالتؐ کی پیروی کریں گے۔ ملک کی حکمرانی تو کفر کے سرمایہ دارانہ نظام پر ہے لیکن زبان پر ناموس رسالتؐ کا نعرہ ہو تو یہ دوغلا پن کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں