لوکل ٹرین دھابیجی ایکسپریس کا آغاز
کراچی کے شہریوں کے لیے دھابیجی ایکسپریس پاکستان ریلوے کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔
کراچی اورگردونواح میں رہنے والوں کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کراچی ڈویژن نے 11سال بعد سٹی اسٹیشن کراچی سے دھابیجی تک لوکل ٹرین کا باقاعدہ آغازکردیا ہے ۔
ابتدائی طور پر مسافروں کی تعداد کم ہوگی تاہم جیسے جیسے لوگوں کو لوکل ٹرین کے بارے میں معلوم ہوتا جائے گا ، مسافروں کی تعداد بڑھ جائے گی، کراچی کے شہریوں کے لیے دھابیجی ایکسپریس پاکستان ریلوے کی جانب سے ایک تحفہ ہے، اب شہریوں کو بھی چاہیے کہ لوکل ٹرین کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں تاکہ مزید لوکل ٹرینیں چلائی جائیں،اس لوکل ٹرین کے کل 7اسٹاپ ہوں گے، ڈرگ کالونی ، ملیر سٹی ، لانڈھی اور بن قاسم سمیت سات اسٹیشنوں پر رکے گی ، ٹرین کا روٹ 65کلو میٹر پر محیط ہوگا اور یہ سفر ایک گھنٹہ 40 منٹ میں طے کیا جائے گا، لوکل ٹرین سے سب سے زیادہ فائدہ اسٹیل ملزاور پورٹ قاسم میں کام کرنے والوں کو ہوگا۔
کراچی کی آبادی دوکروڑکے قریب ہے جہاں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی گھمبیر صورت حال سے دوچار ہے ، یہاں مسافر پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ایک جگہ سے دوسرے جگہ تک سفرکرتے ہیں اور جو محدود پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہر چندکہ ہر کسی نے کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کوششوں کا ذکرکیا لیکن عملی طور پر اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
جب کراچی کی آبادی محدود تھی تب پبلک ٹرانسپورٹ کی صورت حال بہترتھی، کشادہ سڑکوں پر ٹرام و سنگل اور ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھی اور لوکل ٹرینیں بھی چلنا شروع ہوئیں تو مسافروں کو مزید سفری سہولت میسر آگئی تھی ، لیکن نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے کے بجائے کمی آنا شروع ہوئی، ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں غائب ہوگئیں، اس پر بس نہ ہوا سرکلر ریلوے ٹرین کا خاتمہ کیا گیا، بڑی بسوں کی جگہ منی گاڑی ( چھوٹی پک اپ) کا رواج شروع ہوا جس میں سفر کرتے ہوئے مسافروں کو مرغا بننا پڑتا تھا پھر مزدا سڑکوں پر دوڑنے لگے جس سے شہر کراچی میں ٹریفک حادثات معمول بن گئے جس نے شہر میں ایک ناقابل تلافی فساد کو جنم دیااور اب ایک مرتبہ پھر کراچی کے لوگ چنگ چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔
کراچی میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ ترقی کرنے کے بجائے دن بہ دن زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے کسی جانب سے سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی ہے سب کچھ بیانات تک محدود دکھائی دیتا ہے ۔ ایک عرصے سے کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے قصے سنائی دیتے ہیں لیکن عملی کام کہیں نظر نہیں آتا یہ ایک طویل کہانی ہے جس کا اگلے کالم میں تفصیل سے ذکرکروں گا۔
فی الحال یہی کہا جارہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی پر کام کیا جا رہا ہے یہ کام کب پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ اس بارے میں سن سن کر کان پک چکے ہیں، اب لوگ مزید محض خوش کن باتیں سننے کو تیار نہیں ہیں ، خدا کرے کہ نئی لوکل ٹرین دھابیجی ایکسپریس سروس کامیابی سے ہمکنار ہو اور اس میں مزید ٹرینوں کا اضافہ ہو ۔
آئیے! جب تک ماضی کے کراچی سرکلر ریلوے کی یاد میں کھو جاتے ہیں ۔ پاکستان ریلوے نے کراچی میں آمد ورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغازکیا۔کراچی سرکلر ریلوے لائن کے اسٹیشنوں کی تعداد 29 تھی جب کہ یہ منصوبہ دو لائنوں پر مشتمل تھا ۔
پہلی لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی ۔ دوسری پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی شہر لانڈھی اورکراچی شہر تک لوکل ٹرینیں چلتی تھیں ۔کراچی سرکلر ریلوے اسٹیشن درج ذیل تھے ۔ ایک روٹ کراچی شہر ( سٹی اسٹیشن ) ، وزیر مینشن ، لیاری، بلدیہ ، سائٹ ، منگھو پیر ، اورنگی ، نارتھ ناظم آباد ، لیاقت آباد ،گیلانی، اردو سائنس کالج ، کراچی یونیورسٹی، ڈرگ روڈ ۔ دوسرا روٹ کراچی سٹی سے لانڈھی تک کا تھا ۔ جس میں لانڈھی ، ملیر ، ایئر پورٹ ، ڈرگ کالونی ، ڈرگ روڈ ، چنسر ہالٹ سے کینٹ اور سٹی اسٹیشنز شامل ہیں۔
کراچی کے شہریوں نے اس سروس کو بہت پسند کیا تھا اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ کا منافع ہوا تھا ۔ اس لوکل ٹرین میں یومیہ 7 لاکھ مسافر سفر کیا کرتے تھے ، یہ ایک تیز رفتار سواری تھی ۔ اوسط رفتار 44کلو میٹر فی گھنٹہ حد رفتار 100کلومیٹر فی گھنٹہ تھی نظام کی لمبائی (31.07MI50)KM) پٹری وسعت (4FT ساڑھے آٹھ انچ1,435)(MM تھا۔
بگھی جسے ریل کا ڈبہ اور ویگن بھی کہتے تھے سبز رنگ کا ہوا کرتا تھا جس کا اوپری حصہ پیلا رنگ کا تھا جس کے اوپر پاکستان ریلوے لکھا ہوا کرتا تھا ۔ ہر ایک ڈبہ لمبا اور کشادہ ہوا کرتا تھا ۔ ڈبے کے اندر دونوں جانب یکسر سیدھا بینچ نما لکڑی کے سیٹ ہوا کرتے تھے ۔
جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہوئے مسافروں کی سر کی طرف لمبا سا پائپ نصب تھا جس پر جگہ جگہ پکڑنے کے لیے بلیٹ لٹکے تھے ۔ ڈبے میں باتھ روم ہوا کرتے تھے۔ باقی وہی صورت تھی جو عام ٹرینوں کی ہے ۔ بڑا مزا آتا تھا اس کی سواری کرتے ہوئے ۔ یہ قومی اور ثقافتی یک جہتی کا مظہر بھی تھا ، لو گ جڑے رہتے تھے ، یگا نگت اورشیرازہ بندی سرکلر ریلوے کا ایک اہم عنصر تھا ۔
سستی سواری تھی ۔1970ء اور 1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکلر ریلوے عروج پر تھی روزانہ 104لوپ لائن پر چلتی تھیں ، لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹر وں کوکراچی سرکلر ریلوے کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کردیں ۔
1994ء کی دہائی کی شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا اور1999ء میں مکمل طور پر بند کر دیا گیا ۔ اس سے آگے کی داستان اگلے کالم میں ملاحظہ کریں ۔