ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا پہلی قسط

دنیا کی قدیم داستانیں اور قدیم شاہراہیں اسی شہر، سکھر سے منسلک ہیں اور یہیں سے ہوکر گزرتی ہیں


ببرک کارمل جمالی November 11, 2018
دنیا کی قدیم داستانیں اور قدیم شاہراہیں اسی شہر، سکھر سے منسلک ہیں اور یہیں سے ہوکر گزرتی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہم صبح سویرے بلوچستان کی سرد ہواؤں کو خیرباد کہہ کر سندھ میں داخل ہوئے۔ سندھ جو باب الاسلام (اسلام کا دروازہ) کے نام سے جانا جاتا ہے، کسی زمانے میں دنیا کے بادشاہ اس صوبے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ہم باب الاسلام کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں موجود تھے۔ سکھر پاکستان کا 14واں بڑا شہر اور صوبہ سندھ کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے، اور ایسے ہے جیسے ہمارا گھر۔ ملک کے کسی بھی کونے میں جانا ہو تو ہم سکھر کا رخ کرتے ہیں؛ اور جہاں بھی دل کرے، اندرون یا بیرون ملک، چلے جاتے ہیں۔ سکھر شہر ہزاروں سال پرانا ہے اور اپنی رنگارنگ ثقافت اور دلکش نظاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ دنیا بھر میں معروف کھجوروں کے بڑے بڑے باغات بھی یہیں موجود ہیں۔ دنیا کی قدیم داستانیں اور قدیم شاہراہیں اسی شہر سے منسلک اور ہو کر گزرتی ہیں۔ سکھر دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے۔ 1397 میں ایشیا کا سب سے بڑا فاتح امیر تیمور اسی دریائے سندھ کے راستے سے ہندوستان آیا تھا۔

دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد یہ شہر اپنے چند دلچسپ اور پرکشش مقامات کے باعث دیگر شہروں کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ سکھر یا کسی اور شہر جانا ہو تو میں صبح سویرے بلوچستان میں واقع اپنے گھر سے سکھر کی جانب روانہ ہو جاتا ہوں۔ کئی ہوٹل اس شہر کی پہچان ہیں۔ کہیں پر بھی ڈیرہ ڈال لیتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک ہوٹل پر بیٹھ کر چائے کا آرڈر دیا کہ اسی اثناء میں ایک فقیر آگیا۔ بھائی پانچ روپے کا سوال ہے۔ جواباً دس روپے فقیر کو دیتے ہوئے کہا کہ بھائی دعا کرو، آج کا دن اچھا گزرے۔ فقیر نے چند دعائیں دیں اور آخر میں کہا کہ اللہ سندھو دریا کے واسطے سب کام اچھے کر دے گا۔



ایک لمحے کےلیے فقیر کی دعا پر غور کیا کہ آخر سندھو دریا کی حیثیت اتنی ہے کہ فقیروں نے دعا بھی اس کے نام سے دینی شروع کردی ہے۔ اسی دوران بوٹ پالش والا بھی آگیا، اس نے پچاس کا نوٹ مانگا جبکہ چائے والے نے چالیس روپے، ایک پراٹھے اور ایک چائے کی قیمت دے دی۔ حیران تھا کہ بوٹ پالش والے کی قیمت ان سے بھی سے زیادہ تھی۔ واہ سندھو دریا واہ!



اس دن کچھ پل شہر میں گزارنے کے بعد چند مقامات کی سیر کےلیے نکل کھڑے ہوئے۔ ہم سکھر شہر کو بہت قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی خواہش میں سب سے پہلے سکھر بیراج گئے، جو انجینئرنگ کا ایک حیرت انگیز کمال اور شاہکار ہے۔ 1932 میں تعمیر کیا جانے والا یہ بیراج 10 ملین ایکڑ سے زائد رقبے کی حامل زمین کی آبپاشی کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ بیراج سے نکلنے والی تین نہروں کا ایک دلچسپ نظارہ بھی اس کے حسن میں اضافہ کرتا ہے جو دادو کینال، رائس کینال اور کیرتھر کینال کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان میں سے کیرتھر کینال کا پانی میرے پیارے بلوچستان کی سرزمین کو سیراب کرتا ہے جبکہ باقی دونوں کینالوں کا پانی سندھ دیس کی سیرابی کےلیے ہے۔ رات کے وقت بیراج رنگارنگ روشنیوں کی بدولت انتہائی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔


سکھر کا مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر چوک







 

اگر کوئی شخص سکھر گیا اور اس نے ریل کا پل نہ دیکھا تو سمجھیے کہ کچھ بھی نہیں دیکھا۔ جس طرح لاہوری کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا، یہی مثال اس پل کی بھی ہے۔ یہ سکھر کا مشہور ''لینس ڈاؤن پل'' ہے جو ''قینچی پل'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ریلوے پُل 1889 میں تعمیر کیا گیا لیکن اس وقت انجینئر اس کے استحکام کے حوالے سے پرامید نہیں تھے۔ پل پر کھڑے ہو کر ایسا خوبصورت نظارہ دریا سندھ کا دیکھا جو بہت خوبصورت بھی تھا اور دل دہلا دینے والا بھی۔ سندھ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻟﻮﮎ ﮔﯿﺖ ''ﮨﻮ ﺟﻤﺎﻟﻮ'' ﭘﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮔﯿﺖ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺳﮑﮭﺮ ﮐﺎ یہی ﭘﻞ ﮨﮯ۔



1889 ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﭨﮭﺎﭨﮭﯿﮟ ﻣﺎﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﭘﺮ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﭘﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮨﻮﭼﮑﺎ، ﺗﺐ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮر اﺱ ﭘﻞ ﭘﺮ ﺭﯾﻞ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﻮ ﺍٓﻣﺎﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ؛ کیونکہ ﯾﮧ ﭘﻞ ﺑﻐﯿﺮ ''ﮐﮭﻤﺒﮯ'' ﮐﮯ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﮐﺎ ﺣﻞ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﮐﮧ ﺳﮑﮭﺮ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭨﺮﯾﻦ ﭼﻼﻧﮯﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﺮﯾﻦ ﭼلواﺋﯽ جائے۔ ﺳﮑﮭﺮ ﺟﯿﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺪﯼ ﺟﻤﺎﻟﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭﮧ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﻞ ﭘﺮ ﺳﮯ ﺭﯾﻞ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺟﻤﺎﻟﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍئے ﻣﻮﺕ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﮐﮯ اسے ﺍٓﺯﺍﺩ ﮐردﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔

ﭘﻞ ﮐﮯ ﭨﺮﺍﺋﻞ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﻤﺎﻻ ﺭﯾﻞ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﭘﻞ ﭘﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﺳﮑﮭﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﮨﮍﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﮍﺍ ﻣﯿلہ لگا اور جشن برپا ہوا۔ ﺍﺱ ﺟﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﺎﻟﮯ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮔﯿﺖ ﮔﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ:

ﮨﻮ ﻣﻨﮭﻨﺠﻮ ﮐﮭﭩﯽ ﺍٓﯾﻮ ﺧﯿﺮ ﺳﺎﻥ، ﮨﻮ ﺟﻤﺎﻟﻮ
ﮨﻮ ﺟﯿﮑﻮ ﺭﻭﮨﮍﯼ ﻭﺍﺭﯼ ﭘﻞ ﺗﺎﮞ، ﮨﻮ ﺟﻤﺎﻟﻮ
ﮨﻮ ﺟﯿﮑﻮ ﺳﮑﮭﺮ ﻭﺍﺭﯼ ﭘﻞ ﺗﺎﮞ، ﮨﻮ ﺟﻤﺎﻟﻮ
ﮨﻮ ﻣﻨﺠﮭﻮ ﺟﻤﺎﻟﻮ ﺟﺘﻦ ﺳﺎﮞ، ﮨﻮ ﺟﻤﺎﻟﻮ


اور یوں یہ گیت سندھ کی ثقافت کا جزوِ لازم بن گیا۔

صبح کا سورج اپنی کرنیں دریا پر ایسے پھیلا رہا تھا جیسے ماں، بچے کو گود میں سلا رہی ہو۔ ایک دوست سے پل کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں تو حیرانی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ اس پل سے گزرنے والی ٹرین پر کچھ قیدی سوار کیے گئے تھے، تجرباتی طور پر پہلی ٹرین کو پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں کے ساتھ گزارا گیا۔ تجربہ کامیاب رہا چنانچہ اس خوشی میں ان تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا۔


بلاگر، میر معصوم شاہ کے مزار پر







 

سکھر کے مرکز میں واقع معصوم شاہ قدیمی و تاریخی مقام ہے، اسے میر معصوم شاہ کا مینارہ کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی پر واقع ہے اور اس کی تعمیر میں پکی اینٹیں اور چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ یہ 84 فٹ چوڑا، 84 فٹ لمبا ہے اور گولائی میں سیڑھی کے قدموں کی تعداد بھی 84 ہے۔ سید میر محمد معصوم بکھری مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے اُمراء میں شامل تھے اور مریدین میں اتنے محبوب تھے کہ کچھ عاشقوں نے اس مزار کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اپنی جان قربان کردی تھی۔ عشق بھی کیا چیز ہے کہ عاشقوں کو اس مقام پر لاتا اور جان قربان کردینے پر آمادہ کرتا ہے۔



ہم نے بھی دیکھا، اور سوچا کہ چلو! آج ہم بھی آزما لیں۔ پھر سوچا جان ہے تو جہاں ہے، سو عاشقوں کے اس گروپ میں شامل ہونے سے باز رہے۔


معصوم شاہ کے مینار سے سکھر شہر کا ایک منظر







 

یہاں پر مشہور فاتح اسلام محمد بن قاسم کی تاریخی مسجد کی باقیات بھی موجود ہیں۔ یہ مسجد 711 عیسوی میں محمد بن قاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے محمد بن قاسم ملتان کی طرف بڑھے تھے۔



سکھر کا قدیمی قبرستان بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے




 

دریائے سندھ کے کنارے پر موجود ایک مقام ''لبِ مہران'' ہے۔ اس جگہ کی خوبصورتی مشہور ہے۔ دریا کی موجیں اور حسین درخت مل کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ لب مہران پر کئی سندھی گانے فلمائے گئے، اور بہت مشہور ہوئے۔ مقامی شہریوں کےلیے یہ تفریح سے بھرپور مقام ہے۔ خاص کر اتوار کے دن شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس مقام کا رخ کرتی ہے۔ یہاں نہ صرف کھانے پینے کی اشیاﺀ کے اسٹالز موجود ہیں بلکہ دریا میں کشتی کی سواری سے بھی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔

صبح سے شام ہوگئی۔ سکھر شہر چھٹی کی اجازت تو نہیں دے رہا تھا مگر مجبوراً اس شہر دلدار کو الوداع کہنا پڑا؛ اور اس کی یادیں آپ کے سامنے پیش کردیں۔ ہماری اگلی منزل موئن جو دڑو یعنی ''مُردوں کا ٹیلہ'' ہے۔

سفر ابھی جاری ہے... اگلے پڑاؤ کےلیے اگلی قسط کا انتظار کیجیے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں