وجدان کے کرشمے
گزشتہ کالم میں ہم نے وجدان کی قوت پر بحث کی۔ بے شک وجدان کا تعلق گیارہویں حس (جسے چھٹی حس بھی کہتے ہیں) سے ہے...
گزشتہ کالم میں ہم نے وجدان کی قوت پر بحث کی۔ بے شک وجدان کا تعلق گیارہویں حس (جسے چھٹی حس بھی کہتے ہیں) سے ہے، یہ گیارہویں حس بھی اسی طرح فطرت کا عطیہ ہے جس طرح دوسرے باطنی ظاہری حواس خمسہ! شاید ہی دنیا میں کوئی شخص ایسا ہو جسے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر چھٹی یا گیارہویں حس یا وجدان کی حیرت انگیز کرشمہ آرائیوں کا تجربہ نہ ہوا ہو۔ یہ اور بات ہے ہم اس بات یا واقعے کو بھول چکے ہوں، یا اسے حسن اتفاق (بائی چانس) کہہ کر آگے بڑھ گئے ہوں، حالانکہ دنیا میں کوئی واقعہ کبھی اتفاقاً پیش نہیں آیا کرتا۔ کائنات پر قانون کی حکمرانی ہے اور ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس قانون کو توڑ سکے۔ وجدان کے بھی کچھ قوانین ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کو جان لیں تو زندگی کی بہت سی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا سکتے ہیں۔
جیمز بی وارن کو چاند کی سطح پر قدم رکھ کر یکایک محسوس ہوا کہ اس کے اندر وجدانی قوتیں بیدار ہورہی ہیں۔ اب ہم لوگ تو چاند پر جانے سے رہے، ہم اسی زمین پر رہتے ہوئے نہایت آسانی کے ساتھ اپنے ذہن کی وجدانی صلاحیتوں کو جگا سکتے ہیں۔ چاند کا طلوع و غروب اور اس کی چاندنی (شب مہتاب) ہمیشہ سے وجدان کا سرچشمہ رہی ہے۔ چاند شاعروں کا محبوب، عاشقوں کا مطلوب، فن کاروں کے تخیل کا مرکز ہے اور چاند کی فرحت بخش، خیال انگیز اور مسحور کن چاندنی نہ صرف سمندروں میں اتار چڑھائو کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے بلکہ اس منظر سے روح انسانی میں ایسا تلاطم برپا ہوجاتا ہے کہ زبان اس کے بیان سے قاصر ہے۔ چاند اور چکور میں وہی تعلق خاطر فرض کیا گیا ہے جو گل و بلبل اور شمع و پروانہ کے درمیان ہے۔ چاندنی راتوں میں چکور ناچتا ہے، پھڑپھڑاتا ہے، چاند کی سمت پرواز کرتا ہے، بولتا ہے اور بولتے بولتے مدہوش ہوجاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ چاند کے اثر سے چکور پر بھی وجدانی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاندنی میں کائنات سحر زدہ نظر آتی ہے۔
میں نے عرض کیا تھا کہ وجدانی قوتوں کی بیداری کے بھی کچھ قوانین ہیں، جو لوگ ان قوانین پر عمل کرتے ہیں وہ عملی زندگی میں غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ پاس، انفاس، حبس دم، سانس کی مشقیں، ارتکاز توجہ (یعنی ذہن کو یکسو کرکے توجہ کی پوری قوت کسی ایک نقطے یا مرکز پر گاڑ دینا، یا پلکیں جھپکائے بغیر کسی ایک نقطہ کو دیکھتے رہنا) مراقبہ (تصور کو صرف ایک خیال پر مرکوز کردینا)، روزہ، ترک حیوانات یعنی انڈا، مچھلی، گوشت، تیل، ترش اور بادی اشیا کا استعمال ترک کردینا، کم بولنا، کم سونا، تربیت توجہ اور تہذیب نفس۔ حسین چہروں کا دیدار، روح پرور نغمے، مصوری کے بہترین شاہکاروں کا مطالعہ، رقص، خطابت اور خطاطی سے لذت اندوزی، غرض وہ تمام مناظر جمال جو براہ راست روح پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان سے نفس میں رفتہ رفتہ وجدان کی قوت بیدار ہونے لگتی ہے۔
اسی کے ساتھ مظاہر فطرت میں غور و فکر (مثلاً سورج کیوں روشن ہے، چاند کس درجہ دل فریب ہے، صبح کتنی روح پرور ہے اور شام کس درجہ سحر ناک ہے) مناظر قدرت کی عارفانہ سیر، طلوع آفتاب، غروب ماہ، قوس قزح کا نظارہ، آسمانوں پر بادلوں کی آوارہ خرامی، نسیم صبح کے کیف پرور جھونکے، دل کے داغ دھو دینے والی بارشیں، عظیم الشان پہاڑ، بے کراں سمندر، گھنے جنگل اور ویران ریگ زاری، اندھیری راتوں میں ستاروں کی جگمگاہٹ، سورج گہن، چاند گہن، الغرض اس قسم کے تمام مظاہر و مناظر شعور سے گزر کر لاشعور میں در آتے ہیں۔ وجدان کی قوت کو جگا دیتے ہیں۔ عشق، وصال، فراق اور غم کی کیفیت میں بھی بعض اوقات ذہن میں وجدان کے قمقمے جگمگانے لگتے ہیں۔
وجدان کا اعلیٰ ترین درجہ ''وحی'' جو صرف انبیاء کے لیے مخصوص ہے، اگرچہ قرآن مجید میں شہد کی مکھی اور چیونٹی کو وحی کی فضیلت سے سرفرازی بخشی گئی ہے، وحی کے بعد الہام کا نمبر ہے، یہ استعداد بھی ہر شخص کے اندر موجود ہے۔ الہام کے بعد ''القا'' کا درجہ ہے، ''القا'' کہتے ہیں دل میں خود بخود کوئی بات ڈال دینا (مثلاً فلاں بات اس طرح ہے، اس طرح نہیں ہے) یا دماغ میں کوئی بخود بخود کوئی خیال پیدا ہوجانا۔ یعنی یہ کام اس طرح کرنا چاہیے۔ الہام اور القا، وجدان ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔ یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ ہر شخص کی ذہنی سطح اور دماغی استعداد کے لحاظ سے ''وجدان'' کی قوت بروئے کار آتی ہے۔ سائنس داں سائنسی وجدان سے مسلح ہوتا ہے۔ (آئن اسٹائن اور ایڈیسن اس کی مثالیں ہیں)۔ شاعر میں شاعرانہ وجدان کارفرما ہوتا ہے، طبیب کی حذاقت بھی صرف وجدان کا نتیجہ ہوتی ہے، تاجر تجارتی وجدان کا پتلا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ دنیا میں ایک فرد بھی ایسا نہیں، جسے اس قدرتی دولت سے محروم رکھا گیا ہو۔
عجیب تر بات یہ ہے کہ وجدان ہماری ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا علاج بھی کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں رئیس امروہوی ''لے سانس بھی آہستہ'' میں رقم طراز ہیں۔ ''کسی مایوس العلاج مریض کو یکایک وجدان ہوا کہ فلاں غذا یا دوا کے استعمال سے میری بیماری دور ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے معالج کی تجویز و تشخیص کو ٹھکرا کر وہ غذا یا دوا استعمال کی اور حیرت انگیز طور پر صحت یاب ہوگیا۔ مثلاً ابھی چند روز ہوئے ایک دوست کی گردن کے نیچے بائیں پٹھے پر سوجن پیدا ہوگئی، انھوں نے متعدد گولیاں استعمال کیں، کوئی فائدہ نہ ہوا، رات میں تکلیف کے سبب نیند بھی نہ آئی۔ اس مریض کا بیان ہے، میں نے سوچا کاش مجھے وجدانی طور پر اس درد کا علاج معلوم ہوجائے۔
کروٹیں بدلتے بدلتے آنک لگ گئی تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہے کہ سوجن کی جگہ دودھ لگائو گے تو ٹھیک ہوجائو گے، تقریباً گیارہ بجے شب آنکھ کھل گئی، حالانکہ مجھے عام طور پر خواب یاد نہیں رہتے، لیکن یہ خواب یاد تھا۔ خواب کی ہدایت کے مطابق گردن کے سوجے ہوئے پٹھوں پر دودھ لگایا، تقریباً آدھے گھنٹے کے اندر اندر درد کی شدت میں کمی آگئی، پھر دودھ لگایا تو نیند آگئی۔ دوسرے روز جاگا تو درد میں اسی فیصد کمی تھی، دوسرے روز درد بالکل جاتا رہا۔ اس مریض کو عالم خواب میں دودھ لگانے کا حکم کس نے دیا؟ کسی فرشتے نے؟ کسی جن نے؟ نہیں۔ اس کے اپنے وجدان نے! میں اور آپ بھی اپنے وجدان سے بخوبی کام لے سکتے ہیں۔ شرط صرف یہی ہے کہ اس کے استعمال کا طریقہ جانتے ہوں۔''
اور اب اپنی بات... کئی چاہنے والے ای میل اور خطوط میں شخصیت و کردار سازی کے حوالے سے مشوروں کی فیس معلوم کرتے ہیں، آن لائن کلاسز دینے کی بھی فرمائش کرتے ہیں۔ مانا کمرشل ازم کا دور ہے، ہر انسان پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کئی کاروباری اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں، کوئی یوگا کی کلاس دینے کے بہانے پیسے بٹور رہا ہے تو کوئی قمست کا حال بتا کر اپنی قسمت چمکا رہا ہے۔ لیکن زندگی میں سب کچھ پیسہ ہی نہیں ہے، ان کالموں کا مقصد بھی آپ لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے، اس سلسلے میں جس قدر ہوسکتا ہے فون کال اور ای میلز پر آپ کی فی سبیل اﷲ رہنمائی کی جاتی رہے گی، بس آپ کی دعائیں اور بے پناہ محبت ہی بطور فیس میرے لیے کافی ہے۔ اﷲ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)