خوف ختم کر دیں

سقراط نے کہا ہے کہ ایسی زندگی جس کا جائزہ نہیں لیا گیا رہنے کے قابل نہیں ہوتی۔ ہمیں سب سے پہلے۔۔۔


Aftab Ahmed Khanzada June 23, 2013

سقراط نے کہا ہے کہ ایسی زندگی جس کا جائزہ نہیں لیا گیا رہنے کے قابل نہیں ہوتی۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ پر رشک اور فخر کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں سر بسجود ہوجانا چاہیے کیونکہ ہم جس راہ پرچل پڑے تھے اس کی منزل اب بہت ہی نزدیک بلکہ بالکل ہی سامنے ہے، ہم نے دنیا بھر کے لیے ایسی ایسی انمول اور نایاب مثالیں قائم کردی ہیں جن پر پوری دنیا حیران و پریشان اور سکتے کے عالم میں ہے۔ کون کہتا ہے کہ ہم دنیا بھر کی قوموں کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں؟ اس بے خبر کو بتا دیا جائے، بلکہ وہ خود ہی آنکھیں کھول کر دیکھ لے کہ ہم ساری دنیا سے آگے سب سے آگے اور آگے سے بھی آگے نکل گئے ہیں، بس صومالیہ اور افغانستان ہم سے ذرا سا ہی آگے ہیں لیکن پریشانی اور فکر کی کوئی بات نہیں ہم دھن کے پکے ہیں اور بڑے ہی ضدی واقع ہو ئے ہیں۔

بس ذرا سا سانس لے لیں ہم ان کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے، پھر اس کے بعد ہم سے نہ آگے کوئی ہوگا اور نہ ہی ہم سے پیچھے بلکہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہوں گے جہاں آج تک نہ کوئی پہنچا ہے اور نہ ہی کوئی پہنچنے کی جرات کرسکے گا۔ ہماری شاندار اور قابل رشک کارکردگی کا آغاز بانی پاکستان قائداعظم کے انتقال کے فوراً بعد ہی ہوگیا تھا۔ پہلے پہل ہم نے ان کے نظریات کی دل بھر بھر کے بے حرمتی شروع کردی، جتنا ہم ان کی روح کو تڑپا سکتے تھے، تڑپاتے رہے، یہ اعزاز دنیا بھر کی کسی اور قوم کو آج تک حاصل نہیں ہوا۔ پھر اس سے بھی ہمارا دل نہ بھرا تو ہم ان کی نشانیوں کے پیچھے پڑگئے ہیں اور انھیں بموں سے اڑانا شروع کردیا ہے۔

یہ اعزاز بھی ہم دنیا بھر میں سب سے پہلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، انہی اعزازات کی وجہ سے پوری دنیا ہماری دشمن بن چکی ہے، پوری دنیا میں ہم شک و شبے کی نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیں۔ ہم جہاد کے نام پر معصوم بچیوں کو بموں سے اڑا رہے ہیں، عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں، نماز جنازہ ادا کرنے والوں، مزاروں پر دعا مانگنے والوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں مصروف ہیں۔ چنگیز خان، ہلاکوخان، قبلائی خان کی ساری کی ساری تاریخ کھنگال لی جائے تو ایسی وحشت، بربریت، جنونیت اور ایسے گھنائونے کارنامے انھوں نے بھی سر انجام نہیں دیے۔ اس کے باوجود بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ شرم کرو، حیا کرو یہ اپنے آپ پر ماتم کرنے کا وقت ہے، اپنے آپ کو پیٹنے کا وقت ہے، اپنے آپ کو کوسنے کا وقت ہے، اس سے زیادہ برا وقت آہی نہیں سکتا ہے۔

ماضی میں والٹیر نے اپنے ملک کے حالات دیکھ کر مسکرانا چھوڑ دیا تھا جب کہ ہمارے حالات فرانس کے اس وقت کے حالات سے زیادہ خراب ہیں لیکن پھر بھی ہم خوشیاں منارہے ہیں، مسکرا رہے ہیں، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمیں والٹیر کی طرح مسکرانا اور خو شیاں منانا اپنے اوپر اس وقت تک حرام کردینا چاہیے تھا جب تک ہم اپنے ملک کے حالات ٹھیک نہ کرلیتے۔ ہمیں اپنے آپ سے گھن آنی چاہیے، ہم جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہوچکے ہیں، ہر طرف مجرمانہ شرمناک خاموشی طاری ہے، ہم ماضی کے مزاروں کے متولی بن چکے ہیں، ہم حال کے بجائے ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم اپنی شرمناک نااہلی کا الزام اپنے سر لینے کے بجائے دوسروں پر اس کا ملبہ ڈالنے کے گھنائونے عادی مجرم بن چکے ہیں۔ منافقت، حسد، جلن، کرپشن، لوٹ مار، دوسروں کو برا بھلا کہنا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے، ملک میں بیمار ذہنوں کے بازار کے بازار بن چکے ہیں۔

ٹالسٹائی کا کہنا ہے، ہر شخص دنیا کو تبدیل کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی بھی اپنے آپ کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا۔ ہم مکمل ناکامی کی اس گاڑی میں سوار ہیں جس کے بریک فیل ہوچکے ہیں اور جو تیزی سے دوڑی جارہی ہے۔ ہمارا سفر شروع ہی دن سے نامعلوم منزلوں کی جانب رہا، ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ ہمیں کرنا کیا ہے اور ہم کیا کرنا چاہتے ہیں، ہم بس غنیمتیں سمیٹنے اور لوٹ مار کرنے میں مصروف رہے۔ ہم مسلسل سو رہے ہیں، دنیا ایک سمت جارہی ہے تو ہم دوسری سمت جارہے ہیں۔ ماضی میں امریکا میں ہم سے بھی زیادہ برے حالات رہے ہیں لیکن انھوں نے ایک زندہ قوم کی طرح ہمت نہیں ہاری۔ مارچ 1933 کو جس دن روز ویلٹ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا، ایک بڑا بحران سامنے تھا، ملکی بینکوں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا تھا۔ وہ ان سے اپنے پس انداز کیے ہوئے پیسے واپس مانگ رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ انھیں کسی مرتبان، کسی چمنی میں، گدے یا تکیے کے نیچے رکھ لیں گے۔ عجیب مایوسی کا دور تھا۔ ایک ایسا بھنور جس سے باہر نکلنا آسان نہ تھا۔ اس نے ایک لاکھ لوگوں کی موجودگی میں بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ کروڑوں گھروں میں بیٹھے ریڈیو کے ذریعے تقریب کا احوال سن رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ عوام نے اس پر جو اعتماد کیا ہے، آیا وہ اس پر پورا اترے گا یا نہیں۔ حلف ختم کرنے کے بعد اس نے خدا سے مدد مانگی اور اپنی تعارفی تقریر کا آغاز کیا۔ تقریر بہت متاثر کن تھی۔ درمیان میں کئی بار اسے تالیوں کے شور کی وجہ سے رکنا پڑا۔ لوگوں نے جانا کہ اب وہ انسان آگیا ہے جو ان کے مسائل کو حل کرے گا۔ اس نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے کہا ''جس چیز سے ہم خوفزدہ ہیں وہ دراصل خوف ہے'' اس کے ان الفاظ سے دلوں میں نیا جذبہ پیدا ہوا اور خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

کئی ذہن ایسے بھی تھے جو شکوک و شبہات کا شکار تھے، ملک کی حالت بڑی ابتر تھی۔ فارم اور کاروبار دیوالیہ ہوچکے تھے۔ بیروزگاروں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ گلیوں میں فاقہ زدہ لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب تھے کہ یہ خوشیاں منانے کا کون سا وقت ہے۔ لیکن یہ واقعی خوشیاں منانے کا وقت تھا۔ تقریب کے ختم ہوتے ہی روز ویلٹ نے اپنا کام شروع کردیا۔ اس نے ملک کا انتظام اس وقت سنبھالا تھا جب وہ ایک تاریک دور سے گزر رہا تھا، اس نے اسے خوشحالی عطا کی، عزت نفس سے نوازا، اس نے ملک سے مایوسی دور کی اور وہ لوگوں کا خوف ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آج اسی کی وجہ سے امریکا دنیا کا خوشحال ترین ملک ہے۔

ہم اپنے ملک میں معاشی خوشحالی لائے بغیر، اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لائے بغیر موجودہ عذابوں سے ہرگز ہرگز جان نہیں چھڑا سکتے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے خوف کو ختم کرنا ہوگا اور اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے آپ کے لیے، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے، ان جنونیوں، وحشیوں کے خلاف جو ہم سب کے دشمن ہیں۔ ہمیں ماضی کے بجائے حال میں رہنا ہوگا اور مستقبل پر نظر رکھنی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں