ناانصافی انصاف کے تعاقب میں
انتہاپسندی ہر سطح پر تقسیم کا کام کرتی ہے تو پھر آغاز سے ہی انتہا پسندی کے خاتمے کا مطالبہ ہوتا۔
خون خرابے سے بچنے کے لیے مطمئن کرنے کی پالیسی، غیر ریاستی عناصرکے لیے خطرناک پیغام ہے۔ یہ پالیسی پر امن احتجاج کے حق کے تصورکو متاثر کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری اپنی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ٹیوٹر پر لکھتی ہیں کہ ریاست کو قانون کی عملداری قائم کرنی چاہیے اور اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن (HRCP) نے حکومت کی جانب سے شدت پسند ہجوم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے گزشتہ ہفتے ملک میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں پرتشدد کارروائی اور خوف کی فضا طاری کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ ناانصافی انصاف کے قدموں کا تعاقب کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ جنہوں نے برسوں پرانی دستاویزات پیش کرکے ان کو آئین کے آرٹیکل 61اور 62 کے تحت نا اہل ہونے سے بچایا تھا، نے بھی حکومتی فیصلے پر تنقید کی ہے۔
جمائما نے ایک بیان میں کہا کہ دلیرانہ تقریر کے بعد جھکنا یہ وہ نیا پاکستان نہیں جس کی امید تھی۔ جمائما نے پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات پر لندن سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس پاکستان کی امید کر رہے تھے، عدلیہ کے دفاع میں بڑی دلیرانہ تقریر ہوئی مگر تین دن بعد حکومت جھک گئی۔ اگرچہ وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ نے اس پوری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ قانون شکنی کرنے والے ہر فردکے خلاف کارروائی ہوگی اور جس شخص نے بھی قانون کو توڑا ہے اس کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وزیر مملکت شہریار آفریدی کہتے ہیں کہ حکمت نے ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت لوگوں کو اشتعال کی صورتحال سے نکالا اور ہجوم کو منتشر کرنے کا موقع دیا مگر اب ریاست قانون کی عملداری کو یقینی بنائے گی۔
ملک بھر میں نومبر کے پہلے دو دنوں میں جو کچھ ہوا اور جس طرح کی لاقانونیت سڑکوں پر نظر آئی جس کا نشانہ کیلے فروخت کرنے والے نوعمر بچے سے لے کر ہائی وے پر بسوں اور گاڑیوں میں سفر کرنے والے بچے، خواتین، بوڑھے سب بنے اور ریاست کے سب سے بڑے ستون کے وقارکو تہس نہس کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب واقعات اچانک رونما ہونے والی صورتحال کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے جنرل ضیاء الحق کے دور سے ملتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے جب ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو پھانسی دی تھی تو پاکستان پوری دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔ امریکا کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے افغانستان میں نور محمد تراکئی کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع کیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے اس پروجیکٹ میں شمولیت اختیارکی۔
جنرل ضیاء الحق نے اس پروجیکٹ میں شرکت کے لیے بعض مذہبی جماعتوں کو شامل کیا۔ سی آئی اے کے تھنک ٹینک نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جہاد کو برآمد کرنے کی حکمت عملی تیارکی، یوں افغانستان میں یہ پروپیگنڈا زور شور سے ہوا کہ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے قیام سے مسلمانوں کو خطرہ ہے۔
اس صورتحال میں بااثر وار لارڈز کو افغانستان چھوڑنے پر آمادہ کیاگیا، یوں ان وار لارڈز کے ساتھ ان کے قبیلے کے افراد بھی ہجرت کر کے پاکستان میں داخل ہوئے۔ مسلمان ممالک میں مذہبی انتہاپسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور انھیں جہاد کے لیے افغانستان بھیجا جانے لگا، اسامہ بن لادن سمیت بہت سے جنگجو پشاور اور اسلام آباد اورکوئٹہ میں آباد ہوئے اور افغانستان منتقل ہوئے۔
حکومت نے مذہبی انتہاپسندی کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلیاں کیں اور سائنس، سماجی سائنس، تجارت غرضیکہ ہر شعبے میں انتہاپسند داخل ہوئے۔ مدارس کا پورے ملک میں جال بچھا دیا گیا۔ اربوں ڈالر کی امداد نے مدرسوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا۔ افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی اور پھر سوویت یونین کے عالمی نقشے سے غائب ہونے کے بعد اب جہاد کا رخ امریکا کی طرف ہوا۔ افغانستان میں ملا عمر کی خلافت قائم ہوئی اور اسامہ بن لادن، ملا عمر کے اتالیق مقرر ہوئے، افغانستان میں بھیانک طرز حکومت کا تجربہ ہوا۔
نائن الیون کے بعد ان مذہبی انتہاپسندوں نے پاکستان میں کمین گاہیں قائم کیں۔ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلے کیا تو یہ انتہاپسند ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ مذہبی دہشت گردی شہر شہر پھیل گئی مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان مذہبی انتہاپسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع ہوا، پاکستان سے ہجرت کرنے والے ایک عالم کینیڈا سے واپس آئے اور اسلام آباد میں پہلا دھرنا ہوا۔
تحریک انصاف والے اس دھرنے کے سب سے زیادہ حمایتی بنے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ملک بھر میں جنون اور خوف کی فضا بنی۔ دائیں بازو کی جماعتیں بشمول مذہبی تنظیمیں اس فضا کو تقویت دیتی رہیں۔ پنجاب انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی سے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہوا مگر ڈاکٹر طاہر القادری انتہا پسند قوتوں کی ہر مسئلے پر نکل کر حمایت نہیں کرتے تھے اس بناء پر معاملہ بہت زیادہ اجاگر نہ ہوا۔
2018ء کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے فیض آباد کے مقام پر دھرنا ہوا۔ تحریک انصاف اس دھرنے کی بھی سب سے بڑی حامی بنی۔ جب راجہ ظفر الحق رپورٹ شایع ہوئی تو یہ سچ سامنے آیا کہ متنازعہ قانون کے مسودے پر وزیر قانون زاہد حامد کے علاوہ تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود کے بھی دستخط تھے مگر عتاب کا نشانہ صرف مسلم لیگ ن کی حکومت ہی بنی۔ کسی نے شفقت محمود سے سوال نہیں کیا کہ انھوں نے متنازعہ مسودہ قانون پر دستخط پڑھ کر کیے تھے یا بغیر پڑھے ہی دستخط کردیے تھے۔
تحریک انصاف دس برسوں سے اس ہتھیار کو استعمال کر کے مسلم لیگ کو نقصان پہنچاتی رہی مگر اب خود یہ ہتھیار تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مشکل پیدا کررہا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس مشکل صورتحال میں حکومت کے مؤقف کی حمایت کی مگر یہ بات پھر درست ثابت ہوئی کہ انتہاپسندی پیدا کرنا آسان ہے مگر اس پر قابو پانا مشکل ہے۔
اگر ریاستی ادارے جنرل ضیاء الحق کے دور سے محسوس کرتے کہ انتہاپسندی کی سرپرستی خطرناک ہتھیار ہے اور انتہاپسندی ہر سطح پر تقسیم کا کام کرتی ہے تو پھر آغاز سے ہی انتہا پسندی کے خاتمے کا مطالبہ ہوتا اور انتہاپسند اتنے مضبوط نہ ہوتے تو ریاستی اداروں کا تقدس خطرے میں نہیں پڑتا۔