بھارت کی سب سے بڑی انویسٹی گیشن ایجنسی سی بی آئی میں کھیلا گیا انوکھا ڈرامہ
مودی حکومت نے رافیل معاہدے میں ہوئی اپنی بھاری کرپشن چھپانے کی خاطر خفیہ ادارے کو تضحیک واستہزا کا نشانہ بنا ڈالا۔
معاہدے سے متعلق متفرق ٹھیکے کمیشن لے کر من پسند بھارتی کمپنیوں کو دیئے گئے۔ فوٹو: فائل
یہ 23 اکتوبر کی بات ہے،بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو خبر ملی کہ الوک ورما نے وفاقی سیکرٹری دفاع، سنجے مترا کے نام ایک ٹاپ سیکرٹ خط لکھا ہے۔
خط میں سیکرٹری دفاع سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ فرانس اور بھارت کے مابین ہونے والے 36 رافیل جنگی جہازوں کے معاہدے کی فائلیں سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کو فراہم کردیں۔الوک ورما سی بی آئی کے ڈائریکٹر (سربراہ) تھے۔ سنجے مترا نے انہیں مطلوبہ فائلیں بجھوانے کے بجائے یہ خبر وزیراعظم تک پہنچا دی کہ اسے الوک ورما کا ٹاپ سیکرٹ خط ملا ہے۔
یہ یقینی ہے کہ سنجے مترا مملکت بھارت نہیں مودی سرکار کا وفادار کارندہ تھا۔ اگر سیکرٹری دفاع ملک و قوم سے وفادار ہوتا، تو وہ سی بی آئی کو رافیل معاہدے سے متعلق فائلیں فراہم کردیتا۔سی بی آئی بھارت کی سب سے بڑی تحقیقاتی (انوسٹی گیشن) سرکاری ایجنسی ہے۔ اس میں سات ہزار سے زیادہ مردو زن ملازمت کرتے ہیں۔ جب بھی دنیائے جرم و سزا میں کوئی خاص معاملہ جنم لے، تو سی بی آئی ہی اس کی تفتیش کرتی ہے۔
آئین اور حکومت کے مطابق یہ ایک خود مختار سرکاری ادارہ ہے۔دو ہفتے قبل سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، مشہور بھارتی سپریم کورٹ وکیل، پرشانت بھوشن اور ممتاز صحافی ارون سوری نے الوک ورما سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے سربراہ سی بی آئی سے درخواست کی کہ رافیل معاہدے کے سلسلے میں تحقیق و تفتیش کی جائے۔ انہیں یقین ہے کہ اس معاہدے میں مودی سرکار نے کرپشن کی ہے۔
یاد رہے، مودی حکومت نے ستمبر 2016ء میں فرانسیسی کمپنی، داسو ایسوسی ایشن سے چھتیس ملٹی رول جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے مالی امور مودی حکومت نے خفیہ (کلاسیفائیڈ) رکھے ہوئے ہیں۔بھارتی حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے میں مودی سرکار نے مختلف طریقوں سے کرپشن کرکے پیسے کھائے ۔ مثال کے طور پر ہر طیارہ اصل قیمت سے زیادہ مہنگا خریدا گیا۔ نیز معاہدے سے متعلق متفرق ٹھیکے کمیشن لے کر من پسند بھارتی کمپنیوں کو دیئے گئے جن میں کھرب پتی انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ سرفہرست ہے۔ رافیل معاہدے میں ہوئی کرپشن کا معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
جبری رخصتی کا کھیل
سی بی آئی کے سربراہ، الوک ورما نے رافیل معاہدے کی تفتیش کرنے کے لیے بھارتی معززین کی درخواست قبول کرلی۔ اسی درخواست کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے وفاقی سیکرٹری دفاع کے نام خط لکھا کہ سی بی آئی کو رافیل معاہدے سے متعلق کلاسیفائیڈ فائلیں مہیا کی جائیں۔ خط لکھنے کی خبر نے مگر وزیراعظم ہاؤس میں کھلبلی مچادی۔ اسی دن 23 اکتوبر کو رات دو بجے نریندر مودی کے حکم پہ الوک ورما کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ مودی جی کا خیال تھا کہ بھارتی میڈیا اس جبری رخصت کی چھوٹی سی خبر دے کر خاموش ہوجائے گا۔ مگر اس خبر نے سعودی صحافی، جمال خاشقجگی کے قتل کی طرح بھارت میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔
مودی حکومت نے الوک ورما کو اس لیے ہٹایا کیونکہ وہ رافیل معاہدے میں کی گئی کرپشن دریافت کرنا چاہتے تھے۔ اس عمل سے عیاں ہے کہ رافیل معاہدہ واقعی کرپشن کی گندگی میں لتھڑا ہوا ہے۔ جب سربراہ سی بی آئی نے اس گندگی کا پردہ چاک کرنا چاہا، تو انہیں زبردستی گھر بھیج دیا گیا۔نریندر مودی کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ وہ عمدہ انتظامی صلاحیتوں (اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں) کے ذریعے قومی افق پر نمایاں ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ہر قسم کی کرپشن سے پاک شخصیت ہیں۔ مگر سانحہ گجرات کے بعد اب رافیل معاہدہ بھارتی وزیراعظم کے بظاہر اجلے دامن پر ایک بڑا سیاہ دھبہ بن چکا۔ یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ پاک صاف بنا بھارتی وزیراعظم بھی لالچ اور ہوس میں مبتلا ہوگیا۔
اکسٹھ سالہ الوک کمار ورما بھارتی پولیس کے حلقوں میں دیانت دار اور بااصول افسر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ جہاں بھی تعینات ہوئے، جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف سرگرم رہے۔ نیز انہوں نے عوام اور پولیس کا تال میل بڑھانے کی خاطر کئی پروگرام بھی متعارف کرائے۔ انہیں فروری 2017ء میں سی بی آئی کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ واضح رہے، وزیراعظم بھارت، پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا قائد اور چیف جسٹس سپریم کورٹ پر مشتمل کمیٹی نئے سی بی آئی ڈائریکٹر کا انتخاب کرتی ہے۔ اس امر سے عیاں ہے کہ یہ ایک نہایت اہم عہدہ ہے۔
یہ سچائی بھارتی حزب اختلاف سامنے لائی کہ سربراہ سی بی آئی کو اسی لیے ہٹایا گیا تاکہ وہ رافیل معاہدے میں ہوئی کرپشن طشت ازبام نہ کرسکیں۔ مودی حکومت نے عوام کو تو یہ بتایا کہ سی بی آئی میں جاری خانہ جنگی روکنے کے لیے الوک ورما کو جبری رخصت پر بھیجا گیا۔ اس خانہ جنگی کی داستان بھی حیرت انگیز اور چشم کشا ہے۔
ایک کرپٹ سی بی آئی افسر
نریندر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، ان کی بھر پور کوشش رہی ہے کہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں قوم پرست افسر تعینات کیے جائیں... ایسے افسر جو بھارت کو ہندو مملکت بنانے کے نظریے سے متفق ہوں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے چار برس میں عدلیہ، پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے لے کر تعلیم، صحت وغیرہ کے محکموں تک تمام کلیدی عہدوں پر نظریہ ہندتوا پر عمل پیرا افسر تعینات کیے جاچکے۔
الوک ورما نے مگر ہندو قوم پرست جماعتوں کے ایجنڈے پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مودی سرکار پر واضح کیا کہ اگر اس نے کوئی کرپٹ یا غلط کام انجام دیا تو سی بی آئی مجرموں کو نہیں چھوڑے گی چاہے وہ کتنے ہی بااثر اور طاقتور ہوں۔ یہ دھمکی نریندر مودی کو پسند نہ آئی، وہ تو سرکاری افسروں سے ''جی حضور'' سننے کے عادی ہوچکے تھے۔ پھر سی بی آئی سب سے بڑی قومی تحقیقاتی ایجنسی تھی، اس کا سربراہ تو ان کی مٹھی میں ہونا چاہیے تھا۔
بھارتی وزیراعظم کو محسوس ہوگیا کہ مستقبل میں الوک ورما ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اسی لیے الوک ورما کی طاقت و حیثیت کم کرنے کی خاطر مودی سرکار نے اپنے خاص کارندے، راکیش استھانہ کو جولائی 2017ء میں سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر بنا دیا۔ گویا راکیش اب ایجنسی میں الوک ورما کا نائب بن گیا۔راکیش استھانہ کے حالات زندگی بڑے سبق آموز ہیں۔ یہ عیاں کرتے ہیںکہ جب کسی سرکاری افسر کو سیاسی حکمرانوں کی آشیرباد اور سرپرستی مل جائے، تو پھر وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرکے ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
اکسٹھ سالہ راکیش استھانہ تعلیم مکمل کرکے پولیس میں بھرتی ہوا۔ اس کی پہلی تعیناتی ریاست گجرات میں ہوئی۔ بعدازاں وہ پٹنہ (ریاست بہار) میں ایس پی بنایا گیا۔ جب وزیراعلیٰ بہار، لالو پرشاد کے خلاف فوڈ سکینڈل سامنے آیا تو راکیش استھانہ ہی نے ان سے تفتیش کی تھی۔اس کیس سے اسے بہ حیثیت ایماندار پولیس افسر شہرت ملی۔مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ وہ جلد ہی لالچ و ہوس کی آغوش میں جا بیٹھا۔1997ء میں راکیش استھانہ کو واپس گجرات بھیج دیا گیا۔ 2000ء میں بی جے پی کے رہنما، ایل کے ایڈوانی نے گجرات کا دورہ کیا۔ اس کی سکیورٹی کا ذمے دار راکیش تھا۔ اس دورے کے دوران ایڈوانی اور راکیش دوست بن گئے۔ راکیش نے اسے بتایا کہ وہ قوم پرست رہنما، ولبھ بھائی پٹیل کا پرستار ہے اور یہ کہ بھارت کو ہندو مملکت میں ڈھل جانا چاہیے۔
ظاہر ہے، ایڈوانی اس سرکاری افسر کے خیالات سن کر خوش ہوئے اور اسے اپنا آدمی سمجھنے لگے۔ایڈوانی نے پھر وزیراعلیٰ گجرات، نریندر مودی سے راکیش کا تعارف کرایا اور مشورہ دیا کہ اسے اہم ذمے داری سونپی جائے۔ مودی نے ہامی بھرلی۔ راکیش سے اہم کام لینے کا موقع جلد ہی آپہنچا۔27 فروری 2002ء کو گودھرا (گجرات) کے ریلوے اسٹیشن پر کار سیوکوں اور مقامی مسلمانوں کے مابین جھگڑا ہوگیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کارسیوک مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ ان کی اشتعال انگیزی کے باعث ہی جھگڑے نے جنم لیا اور وہ بڑھتا چلاگیا۔ ہنگامے میں کسی نے کارسیوکوں (شری رام کے پرستاروں) کی بوگیوں کو تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ نتیجتاً انسٹھ کارسیوک جل کر چل بسے۔
نریندر مودی کا ناپاک منصوبہ
اس افسوس ناک واقعے کے بعد پورے گجرات میں ہندو مسلم فساد ہونے لگا۔ سابق اعلیٰ سرکاری افسروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے حکم پر فسادیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی تاکہ وہ نہتے مسلمانوں کا قتل عام کرسکیں۔ غیر جانب دار بھارتی تنظیموں کا دعوی ہے کہ دو ماہ تک جاری رہنے والے فسادات میں فسادیوں نے کم از کم دو ہزار مسلمان شہید کر دیئے۔ نیز مسلمانوں کے کاروبار تباہ کردیئے گئے۔
گودھرا ریلوے اسٹیشن میں بوگیوں میں آگ لگنے سے متعلق مقامی پولیس نے ابتدائی تفتیشی رپورٹ مرتب کی، اس میں کہیں یہ ذکر نہیں تھا کہ ریل میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آگ لگائی گئی۔ مگر نریندر مودی کی خواہش تھی کہ خوفناک ہندو مسلم فساد کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا جائے... وہ ایسے کہ گودھرا کے مسلمانوں نے ٹرین کی بوگیوں کو آگ لگانے کا منصوبہ پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔اب نریندر مودی ایسے پولیس افسر کو تلاش کرنے لگا جو اس کے بھیانک منصوبے کو عملی جامہ پہناسکے۔ اس کی نظر یں راکیش استھانہ پر ٹک گئیں۔ یہ قوم پرست بھگت اس کی امیدوں پر پورا اترتا تھا۔ چناں چہ حکومت گجرات نے بوگیوں میں آگ لگنے کے واقعہ کی تفتیش کے لیے جو خصوصی پولیس ٹیم بنائی، اس کا سربراہ راکیش استھانہ کو بنایا گیا۔ موصوف نے اپنے شاطرآقا کے گھناؤنے منصوبے کو کامیابی سے عملی جامہ پہنادیا۔
اس خصوصی ٹیم نے ''افشا'' کیا کہ گودھرا کے مسلمانوں کے ایک گروہ نے کارسیوکوں کی بوگیاں جلانے کا منصوبہ بنارکھا تھا۔ اس گروہ کا سردار مقامی سماجی رہنما، مولانا عمر جی کو قرار دیا گیا۔ پولیس ٹیم کے مطابق گروہ میں ایک سو سے زائد مسلمان شامل تھے۔حقیقت یہ تھی کہ گودھرا ریلوے اسٹیشن پر کارسیوکوں کی اشتعال انگیزی کے باعث ہندو مسلم فساد ہوا اور اس دوران کسی وجہ سے بوگیوں میں آگ لگ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ کارسیوکوں نے بوگیوں میں مٹی کے تیل والے چولہے رکھے ہوئے تھے۔ انہی چولہوں کی وجہ سے آگ لگی۔ لیکن نریندر مودی نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر مسلمانان گودھرا پر سازش سے یہ دھر دیا کہ وہ پہلے ہی بوگیاں جلانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے۔ اس سازش کو راکیش استھانہ نے عملی شکل دی۔
چناں چہ عدالتوں میں مولانا عمرجی اور دیگر بے گناہ ''94'' مسلمانوں پر مقدمہ چلنے گا۔ 2011ء میں خصوصی عدالت نے 63 مسلمان بے گناہ قرار دے کے رہا کردیئے جن میں مولانا عمر جی بھی شامل تھے۔ مگر باقی مسلمان مجرم قرار پائے۔ ان میں سے گیارہ کو پھانسی اور بیس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔2017ء میں گجرات ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزاؤں کو عمر قید میں بدل دیا۔ گویا راکیش استھانہ نے اتنی عیاری و مکاری سے مسلمانان گودھرا خلاف کیس بنایا کہ انھیں عدالت سے رہا کرانا مشکل مرحلہ بن گیا۔راکیش نے سیکڑوں مسلم گھرانوں کی زندگیاں برباد کر ڈالیں جبکہ سانحہ گجرات کے دیگر کیسوں میں اصل ہندو دہشت گردوں اور غنڈوں میں کسی ایک کو بھی پھانسی یا عمر قید کی سزا نہیں سنائی گئی۔ گویا بھارتی عدالتیں بھی مسلم اقلیت کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہیں بلکہ انہوں نے ایک طرح سے عدل و انصاف کا قتل کر ڈالا۔
سندسیارا برادران کی داستان جرم
جب راکیش استھانہ نے کامیابی سے نریندر مودی کی سازش کو تکمیل تک پہنچایا، تو اسے بطور انعام ریاست کے تیسرے بڑے شہر، وڈورا کا پولیس کمشنر بنادیا گیا۔ وہ پھر دوسرے بڑے شہر سورت کا بھی کمشنر رہا۔ اسی تعیناتی کے دوران وہ وڈورا کے صنعت کار بھائیوں، نتین سندسیارا اور چیتن سندیسارا کا بھی دوست بن گیا۔ان دونوں بھائیوں نے اکیسویں صدی کے اوائل میں ایک ادویہ ساز کمپنی، سٹرلنگ بائیوٹیک کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی چل پڑی اور انہیں خوب آمدن ہونے لگی۔ اس آمدن کے سہارے انہوں نے مختلف شعبوں میں مزید کمپنیاں قائم کرلیں اور یوں ان کا ''اسٹرلنگ گروپ'' وجود میں آگیا۔
یہ دونوں بھائی اپنی ترقی و کامیابی پہ خدا کا شکر کرنے کے بجائے لالچ اور ہوس کا شکار بن گئے۔ لالچ نے انہیں جرم کی دنیا میں دھکیل دیا۔ ان بھائیوں نے اپنی دولت میں اضافے کے لیے انوکھا طریق واردات ڈھونڈ نکالا۔ وہ یہ تھا کہ دونوں بھائی کمپنیوں کے حسابات میں ہیرپھیر کرکے دکھانے لگے کہ وہ خوب منافع میں جارہی ہیں۔ اس دھوکے بازی کی بدولت انہیں بینکوں سے بھاری بھرکم قرضے مل جاتے۔نیتن اور چیتن نے پھر بھارت اور بیرون ممالک میں بے نامی اور شیل کمپنیاں کھول لیں۔
بینکوں سے حاصل کردہ رقم ان کمپنیوں کے ذریعے بیرون ممالک بجھوادی جاتی۔ گویا دونوں بھائیوں نے منی لانڈرنگ کا طریق کار ایجاد کرلیا۔دونوں عیار بھائی کئی سال بھارتی بینکوں سے قرض لے کر انہیں لوٹتے رہے۔ انہوں نے بینک افسروں کو منہ مانگی رشوت دی تاکہ وہ قرضوں کی واپسی کا تقاضا نہ کریں۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افسروں کو بھی خاموش رہنے کے لیے بھاری رقم دی جاتی رہی۔ مقصد یہ تھا کہ وہ سندیسارا بھائیوں کے جرائم سے پردہ پوشی کیے رکھیں۔ انہی کرپٹ پولیس افسروں میں راکیش استھانہ بھی شامل تھا۔
نومبر 2016ء میں راکیش کی بیٹی کا بیاہ وڈورا میں بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ شادی کی تقریب شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں منعقدہوئی جو دراصل سابقہ ریاستی بادشاہ کا شاہی محل تھا۔ اس بیاہ پر بلا مبالغہ کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ تبھی یہ سوال سامنے آیا کہ کیا راکیش اپنی محدود تنخواہ میں ایسے شاہانہ انداز میں بیٹی کی شادی کراسکتا ہے؟ جب یہ سوال عام ہوا، تو راکیش نے یہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ''بیاہ کا سارا خرچہ میرے دوستوں نے برداشت کیا ہے۔'' ان دوستوں میں سندیسارا بھائی بھی شامل تھے۔مجرم چاہے کتنے ہی شاطر ہوں، وہ ایک دن قانون کے پھندے میں ضرور پھنس جاتے ہیں۔ سندیسارا برادران کی لوٹ مار بھی آخر اگست 2017ء میں افشا ہوگئی۔ دراصل جب بینکوں کے سربراہوں نے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرایا، تو کئی برس سے جاری بھائیوں کے فراڈ کا پتا چل گیا۔ تب انکشاف ہوا کہ دونوں بھائی مختلف بھارتی بینکوں سے تقریباً ''آٹھ ہزار کروڑ روپے'' کی خطیر رقم قرضوں کی صورت لوٹ چکے۔
بینک سربراہوں نے سی بی آئی سے درخواست کی کہ سندیسارا بھائیوں کو گرفتار کرلیا جائے۔ لیکن دونوں بھائی حیرت انگیز طور پر سی بی آئی کو چکمہ دے کر بیرون ملک فرار ہوگئے۔ آج وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ نائجیریا میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غیر ملکی اکاؤنٹس میں بھارتی بینکوں سے لوٹا گیا مال ان کی دسترس میں ہے۔ بھارت اور نائیجیریا مجرموں کی حوالگی کا بین الاقوامی ماہدہ نہیں رکھتے، اس لیے سی بی آئی یا کوئی بھی بھارتی سرکاری ادارہ سندیسارا بھائیوں پر ہاتھوں نہیں ڈال سکتا۔
بھارتی حزب اختلاف کے مطابق بھارتی بینکوں کے مہا مجرم، سندیسارا برادران کو راکیش استھانہ نے فرار کرایا۔ دراصل 2014ء میں جب مودی نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے راکیش کو نئی دہلی بلوایاا اور اسے سی بی آئی کا سینئر ڈائریکٹر بنا دیا۔ چناں چہ جب اسے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خبر ملی کہ سندیسارا بھائی کے جرائم کا بھانڈا پھوٹ چکا، تو اس نے اپنے محسنوں تک یہ اطلاع پہنچا دی۔ دونوں بھائی راتوں رات بھارت سے فرار ہوگئے۔
تین کروڑ بیاسی لاکھ روپے کی رشوت
راکیش استھانہ نریندر مودی اور صدر بی جے پی، امیت شاہ دونوں کا چہیتا ہے۔ اسی لیے کوئی حکومتی عہدے دار جرأت نہیں کرتا کہ وہ راکیش کے خلاف بول سکے۔ جب الوک ورما نے مودی حکومت کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کیا، تو انہیں نیچا دکھانے کی خاطر راکیش کو سامنے لانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔مودی حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے راکیش کو سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر بنا دیا۔اب وہ ایک طرح سے ادارے میں نمبر ٹو بن بیٹھا۔منصوبے کے مطابق وہ من پسند فیصلے کرنے لگا۔ دیگر ملازمین کی مدد سے اس نے کوشش کی کہ الوک ورما کے زیادہ سے زیادہ اختیارات اسے حاصل ہو جائیں۔ یوں سی بی آئی میں اختیارات کی جنگ شروع ہوگئی۔
صورتحال نے الوک ورما کو تاؤ دلایا اور انہوں نے بھی راکیش اور نریندر مودی کومنہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا۔2018ء کے اوائل میں بھارتی میڈیا نے یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ سندیسارا بھائیوں کے دفتر سے محکمہ انکم ٹیکس کو ایک ڈائری ملی تھی۔ اس ڈائری میں بھائیوں نے ان سرکاری افسروں کے نام درج ہیں جنہیں وہ وقتاً فوقتاً رقومات (بطور رشوت) فراہم کرتے رہے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرتے رہیں۔ سرکاری افسروں میں راکیش استھانہ کا نام بھی شامل تھا۔
ڈائری کی رو سے اسے مختلف ادوار میں لاکھوں روپے دیئے گئے۔ مجموعی رقم تین کروڑ بیاسی لاکھ روپے بنتی ہے۔یہ ایک خوفناک انکشاف تھا کہ سی بی آئی کا خصوصی ڈائریکٹر، راکیش بدنام زمانہ سندیسارا بھائیوں سے رقومات لیتا رہا ہے۔ مگر یہ انکشاف بھارتی حکومت اور نہ ہی سی بی آئی میں زلزلہ لاسکا۔ وجہ یہ کہ مودی حکومت کے شدید دباؤ پر بھارتی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا نے یہ خبر دبادی۔ چند مقامی اخبارات ہی نے راکیش استھانہ کے خلاف چھوٹی سی خبر شائع کی۔
راکیش استھانہ کو یقین تھا کہ الوک ورما نے بھارتی میڈیا تک یہ خبر پہنچائی کہ وہ سندیسارا بھائیوں سے بھاری رقم وصول کرچکا۔ چناں چہ وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگا۔ اب وہ کھل کر الوک ورما کے سامنے آگیا۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے بھی اسے شہ دی۔ اسی شہ کے باعث جولائی 2018ء میں راکیش نے سی بی آئی میں من پسند لوگ بھرتی کرلیے۔ تب الوک ورما بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ وہ واپس آئے، تو بھرتیوں پر سخت اعتراض کیا۔ اس امر نے دونوں افسروں کی ٹسل شدید کردی۔ایک طرف بااصول اور دیانت دار سربراہ سی بی آئی الوک ورما تھا۔ دوسری سمت کرپٹ راکیش استھانہ جو جرائم پیشہ لوگوں سے بھاری رقم وصول کرکے انہیں قانون کا شکار ہونے سے بچاتا تھا۔ گویا یہ لڑائی نیکی اور بدی کی جنگ بن گئی۔
راحت فتح علی خان کی فیس
اگست 2018ء میں راکیش نے اپنے باس پر سب سے خطرناک وار کیا۔ اس نے بھارتی کابینہ کے نام ایک خط میں خبر دی کہ الوک ورما نے معین اختر قریشی کے ایک کاروباری ساتھی، ستیش سنایا سے دو کروڑ روپے کی رشوت لی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ معین قریشی اور ستیش سنایا کو سی بی آئی گرفتار کرنے سے باز رہے اور وہ بدستور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہیں۔معین اختر قریشی کی داستان بھی سبق آموزہے۔ معین کا تعلق کان پور شہر کے کھاتے پیتے قصائی گھرانے سے ہے۔ اس نے ڈیرہ دون کے ڈان سکول اور سینٹ اسٹیفن کالج (دہلی) سے تعلیم پائی۔ 1993ء میں رام پور شہر میں چھوٹا سا مذبح خانہ کھول کر وہ گوشت ایکسپورٹ کرنے لگا۔ یہ کاروبار چمک اٹھا اور معین نے اتر پردیش ریاست کے مختلف علاقوں میں مذبح خانے کھول لیے۔
2008ء تک وہ بھارت میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا کاروباری بن گیا۔دولت جمع ہوئی، تو معین قریشی گوشت ایکسپورٹ کرنے کے علاوہ دیگر کاروبار بھی کرنے لگا۔ اس نے رفتہ رفتہ ''25'' کمپنیاں کھول لیں۔ اس کی بیٹی ایک فیشن اسٹور چلاتی ہے۔ معین قریشی مگر قناعت پسند اور بااصول کاروباری نہیں رہ سکا۔ لالچ اور ہوس نے اسے بھی جرائم اور شر کی دنیا میں دکھیل دیا۔معین قریشی ٹیکس چوری کرنے لگا تاکہ اپنی دولت میں اضافہ کرسکے۔ پھر اس نے شیل یا جعلی کمپنیاں کھولیں اور ان کے ذریعے اس کی دولت ٖغیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل ہونے لگی۔ اپنی غیر قانونی اور ناجائز سرگرمیوں کی پردہ پوشی کے لیے اس نے سرکاری افسروں کو بھاری رشوت دی۔ اترپردیش کے سیاست دانوں کو بھی قیمتی تحائف دیئے گئے۔ اس طرح معین قریشی بااثر شخصیات کو ساتھ ملا کر اپنی دولت میں ناجائز اضافہ کرتا رہا۔
2011ء میں مگر ایک پاکستانی گلوکار کے باعث معین قریشی قانون کی نظروں میں آگیا۔ ہوا یہ کہ بیٹی کی شادی تھی۔ اس میں موسیقی کی محفل منعقد کرنے کے لیے معین نے راحت فتح علی خان کو پاکستان سے بلوالیا۔ جب راحت واپس وطن جارہے تھے، نئی دہلی ایئرپورٹ پر ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے انہیں روک لیا۔وجہ یہ تھی کہ راحت فتح علی خان کے پاس سے 56 لاکھ بھارتی روپیہ برآمد ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ رقم معین قریشی نے بطور فیس ادا کی ہے۔ اس واقعے کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو نیز محکمہ انکم ٹیکس کے اہل کار بھی معین قریشی پر نظر رکھنے لگے۔ دیکھا گیا کہ اس کی آمدن کتنی ہے اور وہ کتنے ٹیکس ادا کرتا ہے۔
فروری 2014ء تک معلوم ہوگیا کہ معین قریشی ٹیکس چور ہے اور وہ اربوں روپے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتا۔ نیز وہ منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے باہر بھجوا چکا۔ چناں چہ اسی مہینے حکومتی اداروں نے معین قریشی کے دفاتر پر چھاپے مارے اور اہم ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ریکارڈ کی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ بھارت کی سب سے بڑی انوسٹی گیشن ایجنسی اعلی ترین سطح پر کرپشن کا گڑھ بن چکی۔ پتا چلا کہ سی بی آئی کے دو سابق سربراہ بھاری رشوت لے کر معین قریشی اور اس کے کاروبار کو تحفظ دیتے رہے تاکہ وہ من مانی کرسکے۔ یوں انہوں نے قانون کو مذاق بناکر رکھ دیا۔
سی بی آئی کے کرپٹ سربراہ
اے پی سنگھ 2010ء تا 2012ء سی بی آئی کا ڈائریکٹر رہا۔ اس دوران اے پی سنگھ اور معین قریشی برابر رابطے میں رہے۔ سی بی آئی کے کئی کاموں کا ٹھیکہ معین کی کمپنیوں کو دیا گیا۔ ظاہر ہے، بدلے میں اے پی سنگھ کو معقول کمیشن ملتا ہوگا۔ پچھلے سال اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی۔ نیز اے پی سنگھ یونین پبلک سروس کمیشن کا رکن تھا۔ اسے اس عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔2012ء میں رنجیت سنہا سی بی آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ معین قریشی نے بھاری رشوت اور قیمتی تحفے تحائف دے کر اسے بھی اپنے جال میں پھنسالیا۔ ریکارڈ کی رو سے دونوں کے مابین ستر سے زیادہ ملاقاتیں ہوئیں۔ میل جول اتنا بڑھ گیا کہ معین قریشی ڈائریکٹر سی بی آئی کو رشوت دے کر اپنے دوستوں کے کام بھی کرانے لگا۔اے پی سنگھ رنجیت سنہا، دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے معین قریشی سے ایک پائی وصول نہیں کی مگر ان کے دامن گندگی سے داغ دار ہوچکے۔ اسی دوران تفتیش سے معین قریشی کے ایک کاروباری ساتھی، ستیش سنایا کا نام سامنے آگیا۔
پہلے بتایا گیا کہ ستیش سنایا اگست 2018ء میں نمایاں ہوا جب راکیش استھانہ نے اپنے باس، الوک ورما پر الزام لگایا کہ اس نے ستیش سے دو کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ جواب میں سی بی آئی ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ راکیش نے ستیش کو استعمال کیا ہے۔ راکیش نے ستیش کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے الوک ورما کے خلاف بیان نہ دیا، تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔الوک ورما نے پھر دعویٰ کیا کہ درحقیقت ستیش سے دو کروڑ روپے بطور رشوت راکیشن استھانہ نے لیے ہیں۔ اس دعویٰ کی بنیاد ستیش کا وہ بیان تھا جو الوک ورما اور دیگر سی بی آئی افسران کے سامنے لیا گیا۔ ستیش کے مطابق یہ رقم سی بی آئی میں راکیش کے دست راست، ڈی ایس پی دیوندر کمار کی وساطت سے لی گئی۔
22 اکتوبر کے دن سی بی آئی کی ٹیم نے دیوندر کمار کو گرفتار کرلیا۔ ابھی اس سے صحیح طرح تفتیش شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ 23 اکتوبر کی رات نریندر مودی نے الوک ورما اور راکیش استھانہ، دونوں کو کام کرنے سے روک دیا۔الوک ورما نے اپنی جبری رخصتی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کررکھا ہے، مگر ان کی کامیابی کا امکان کم ہی ہے۔ وجہ یہ کہ پچھلے چار برس کے دوران مودی حکومت نے تقریباً ہر ادارے میں نظریہ ہندوتوا سے اتفاق رکھنے والے قوم پرست افسر داخل کردیئے ہیں۔ لہٰذا یہ اہل کار سیکولر اور غیر جانبدار افسروں کو کام نہیں کرنے دیتے۔ خصوصاً اگر وہ حکومت کے خلاف عمل کریں تو انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔
سی بی آئی میں کھیلے گئے ڈرامے سے عیاں ہے کہ مودی حکومت نے بھارت کی سب سے بڑی انوسٹی گیشن ایجنسی کو سوفیصد حد تک اپنا مطیع اور وفادار بنالیا ہے۔ اب یہ ایجنسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے اور انہیں خوفزدہ کرنے میں کام آئے گی۔ خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کو سی بی آئی سے ہوشیار رہنا ہوگا ۔وجہ یہ کہ مودی نے ایک مسلم دشمن افسر،منیم ناگیشوارہ راؤ کو سی بی آئی کے معاملات سونپ دئیے ہیں۔یہ مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے۔ممکن ہے کہ اب جس بھارتی رہنما نے مسلمانوں کے حقوق کی خاطر آواز بلند کی، سی بی آئی جلد یا بدیر اسے جعلی مقدمے میں پھنسا دے ۔ صد افسوس کہ بھارت میں عدلیہ سے لے کر تحقیقاتی ایجنسیوں تک، سبھی سرکاری ادارے مسلم عوام کا سہارا بننے کے بجائے عدل و انصاف کو قتل کرنے کا ذریعہ بن چکے۔ان اداروں کو تباہ و برباد کرکے مودی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
پاک خفیہ اداروں کی برتری کا راز
بھارتی حکمران پاک افواج خصوصاً پاکستان کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بھارت میں ایک پٹاخہ بھی پھوٹے، تو وہ اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کو قرار دیتے ہیں۔ مگر شاطر بھارتی حکمران سے دیکھنے میں ناکام رہے کہ ان کی اپنی ایلیٹ ترین خفیہ ایجنسی، سی بی آئی کرپشن اور خانہ جنگی کا نشانہ بن چکی۔دراصل مودی حکومت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ سی بی آئی کو اپنی باندی بنالے۔ ایجنسی ہر جائز و ناجائز معاملے میں حکومت کے اشاروں پر عمل کرے۔
جب الوک ورما نے مودی حکومت کا غلام بننے سے انکار کیا، تو انہیں زبردستی گھر بھجوادیا گیا۔سی آئی بی میں کھیلا ڈرامہ کئی راز افشا کرگیا۔ مثلاً یہ کہ بھارتی خفیہ اداروں میں اعلیٰ ترین سطح پر فائز عہدے دار جرائم پیشہ لوگوں کے جرم اور گناہ پردوں تلے چھپانے کی خاطر بھاری رشوت لیتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ اینٹلی جنس ادارے مودی حکومت کے آلہ کار بن چکے۔ تاہم یہ راز بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں کم ہی نمایاں ہوئے۔ وجہ ظاہر ہے۔ بھارتی میڈیا بین الاقوامی سطح پر اپنے اینٹلی جنس اداروں کو بدنام اور ذلیل و خوار نہیں کرانا چاہتا۔سی بی آئی کی حالیہ خانہ جنگی کے بارے میں بھی ابتداً بھارتی میڈیا نے خبریں دیں پھر پُراسرار طور پہ خاموشی چھا گئی۔
سی بی آئی، آئی بی اور را بھارت کی نمایاں ترین خفیہ ایجنسیاں ہیں مگر ان کا پاکستانی خفیہ اداروں سے موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن آج تک کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فلاں خفیہ ادارے کے افسر کرپشن میں ملوث ہیں۔ جبکہ حقائق سے عیاں ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ اہل کار راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کرپشن کی دلدل میں جاپھنسے ہیں۔
پاکستانی خفیہ اداروں کے افسر و اہل کار جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں۔یہ خوبی انھیں کرپشن کرنے اور لالچ وہوس کے چنگل میں پھنسنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ ملک و قوم کو تحفظ دینے اور دفاع کرنے میں وہ جانیں تک قربان کردیتے ہیں۔ یہی زبردست جوش و جذبہ دیکھ کر پاکستان کے دشمن خصوصاً آئی ایس آئی سے خوف کھاتے اور اسے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ تاہم پاکستانی قوم یکجہتی اور افواج سے محبت کی بدولت ہمیشہ دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیتی ہے۔