چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
آندھی آئے، طوفان آئے یا بجلی گرے، انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔
کبیر کہتے ہیں ''جو کچھ کیا ہو تم کیا، میں کچھ کیا ناھیں، کہو کہیں جو میں کیا تم ہی تھے مجھے ماہیں'' کبیر کا یہ کہا مجھے آج کے زمانے کے حساب سے کچھ اس طرح سے صحیح لگا کہ جب ہم اپنی آنکھیں جان بوجھ کے بند کر لیں اور یہ نہ جان پائیں کہ جو پچھلے دنوں میں اس ملک کی تاریخ میں بدترین انارکی پھیلی تھی وہ کس کے اشاروں سے اور ہاتھوں سے پھیلائی گئی تھی۔
''جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے'' اور پھر بیانیہ پہ بیانیہ۔ جھوٹ کو سچ کہو اور سچ کو جھوٹ۔ قلابازیوں پر قلابازیاں۔ نہ کوئی خلا میں گیا نہ کوئی خلا سے آیا۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ ریاست نفسیات کا دوسرا نام ہوتی ہے۔ نہ وہ دو انچ چھوٹی اور نہ دو انچ بڑی، جو لہو اس کی رگوں میں دوڑتا ہے وہی رنگ دکھاتا ہے۔ جس طرح ایک فرد کی ڈی این اے اس کے جسم سے بولتی ہے، اسی طرح ریاست کی نفسیات بھی اس کے ہر ایک عضو سے اٹھان دیتی ہے۔
زرداری کی بات ہے تو رسوائی، مگر سچ ہے۔ وہ اومنی گروپ کے شکنجے میں پھنسے ہوں گے مگر جب وہ اس بات کو اس انداز سے کہتے ہیں کہ اصلی لوگوں کو کچھ نہیں کہا جا رہا مگر غریب بے چارہ پکڑا جا رہا ہے۔ یہی تو این آر او ہے۔ این آر او اور کیا ہے؟ این آر او کے کوئی سینگ تھوڑی ہوتے ہیں۔ کون سی کسر چھوڑی ججوں کو متنازع بنانے میں۔ ایسا کام تو نہال ہاشمی نے بھی نہ کیا، مگر ان کو تو سز آئی۔ وہ جو اصل ہیں وہ اپنے گھروں میں اہل و عیال کے ساتھ خوشی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں اور انسداد دہشتگردی میں جاکے پھنسے وہ لوگ جو بے چارے غریب کارکن۔
احتجاج بالکل رقم ہونا چاہیے کہ ہمیں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قبول نہیں، مگر مسکینوں اور غریبوںکی املاک تو نہ توڑیں، ان کی ریڑھیوں اور پتھاروں پر رکھی ہوئی چیزیں مال مفت سمجھ کر تو نہ کھائیں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی آپ کی سوچ کا حامل ہو اور میں بھی، لیکن آپ کی بدزبانی اور گالم گلوچ کی زبان سے نہیں۔
رانا ثناء اللہ صرف جلتی پر تیل کا کام کرتے آئے ہیں، کوئی ذرا ان سے بھی پوچھے کہ اس ملک میں اسامہ بن لادن کو کون لایا تھا؟ اور یہ بھی ہوا کہ جب اسامہ کو امریکا نے مار دیا تو ہم یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ آج تک بھی ایسے لاکھوں لوگ ہوں گے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسامہ تو تورا بورا میں پہلے ہی مارے جا چکے تھے۔ اب آپ ہی بتائیں اس ملک کے تمام ووٹر کس طرح آپ کے بنائے ہوئے انفارمیشن ذرائع سے ڈس انفارم ہوتے رہے ہیں۔ اب جو ووٹ خادم رضوی کو ملا ہے، وہ پہلے میاں صاحب کا تھا اور نون لیگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خادم رضوی کی پارٹی کو رجسٹرڈ ہونے کی اجازت اس لیے ملی کہ وہ میاں صاحب کے ووٹ بینک میں ڈینٹ ڈالے۔ میاں صاحب یہ بتائیں کہ آپ بھی ٹرمپ کی طرح دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست کے کھلاڑی تھے۔ جو وبا اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، مگر دائیں بازو کے بیانیہ کا بھی اپنا ہی انداز بیان ہے۔ خان صاحب نے میاں صاحب کو اس بیانیہ میں مات دی اور مذہبی پارٹیوں کو تحریک لبیک نے پیچھے چھوڑ دیا۔
کیوں کہ ہر وہ راہ جو اقتدار کی طرف جاتی ہے وہ اس بیانیہ سے گزر کر جاتی ہے۔ جناح کا پارٹ تاریخ کا حصہ ہوا، پھر بھٹو اور بینظیر بھی، جو باقی جو کسر رہ گئی تھی ایک اعتدال پسند سوچ کے مضبوط ہونے کی، اس پر زرداری نے بذریعہ اومنی گروپ ڈاکا ڈال دیا۔
میں یہ سوچتا ہوں ہم جس طریقے سے مختلف قومیتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں سے پیش آتے ہیں اور جب وہ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو پھر ان کو بھی چھوڑ دیا جائے، سب کو بے لگام کردیا جائے، پھر اس طرح تو کوئی آئین، کوئی قانون ان پر لاگو نہ ہوگا۔ یہ جو ہم نے سیکڑوں کارکنوں پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا ہے، بغیر کسی قانون و آئین کے اطلاق کے، کئی سال سے غائب ہیں یہ لوگ، وہ آخر کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یا تو یہ کہہ دیا جائے کہ وہ اس ملک کے شہری نہیں، تو پھر کیا ہمارآئین اور قانون ان کو آزادی، فری ٹرائل کا حق نہیں دیتا اور ان کو آپ بھی این آر او کے ذریعے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قائدے سے کی
ہاں ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے
(فیض)
کر دیجیے اب جناح کو بھی آزاد، ان کو بھی ایک این آر او دے دیجیے، بھٹو کو بھی۔ یہ جو آئین بھٹو نے ہمیں دیا تھا، ایٹم بم بھی اسی کے عوض میں ہمیں نصیب ہوا تھا، اب اسے بھی آزاد کر دیجیے۔ اب تک سپریم کورٹ یہ فیصلہ نہ کر پائی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا قتل ہوا یا پھر وہ ریاست کے ہاتھوں مارے گئے، پھر اسے بھی این آر او دے دیجیے، پھر بینظیر کو بھی این آر او دے دیجیے، جس کے قتل کے فوراً بعد سارے کرائم سین سے تمام شواہد اور ثبوتوں کو فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے ذریعے واش کروا دیا، اور جب مشرف پر حملہ ہوا تو ایک ہفتہ تک کرائم سین تک ٹریفک کو معطل کر دیا گیا، تاکہ شواہد کو جمع کیا جا سکے۔ یہ ہے دوسرا معیار، جس نے ریاست کو آج یہاں پہنچایا ہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
ہم نے NAP پر وطن کی غداری کا ٹھپہ لگایا، سپریم کورٹ کے ذریعے اس جماعت کو کالعدم قرار دیا، پابندی عائد کر دی۔ اور یہ ہیں کہ یہ سب کچھ کر کے بھی محب وطن۔
پھر دیکھئے آج اس ملک کو، کیا کام آیا، یہی آئین اور یہی قانون۔ آرٹیکل10A ہر شہری کا حق ہے۔ بات ٹھوس ثبوتوں سے ثابت کرنی ہو گی۔ یہی آئین اور قانون ہے، جس کی وجہ سے آج ہماری عدلیہ اس جرأت سے قانون کے مطابق ڈٹ گئی ہے۔ let the justice be done, though heavens may fall.
آندھی آئے، طوفان آئے یا بجلی گرے، انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ آج یہ ریاست آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بہت دور آکر بھی بہت کچھ گنوا کر بھی آج ہماری قیادت، چاہے وہ عدالتیں ہوں، عسکری یا پارلیمانی قیادت ہو، آج سب فہم و فراست کے ساتھ آئین اور قانون کے دائرے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس پورے اندھیارے میں مجھے آج بھی امید کی ایک چھوٹی سی کرن نظر آرہی ہے۔
دل سے پیہم یہ خیال کہتا ہے
کتنی شیریں ہے زندگی اس پل
زہر کا ظلم گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہیں وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے گر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں