افتخار احمد بٹ
بعض دوستوں سے آخری ملاقات کے دوران ہی یہ محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ جدائی کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
کسی پیارے اور برسوں کے دوست اور ساتھی سے اس دنیا کی حد تک ہی سہی، جدا ہونے کا تصور ایسا خوفناک ہے کہ میں باوجود کوشش کے تدفین سے پہلے کے آخری دیدار سے حتیٰ الممکن گریز کرتا ہوں لیکن عجیب بات ہے کہ بعض دوستوں سے آخری ملاقات کے دوران ہی یہ محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ جدائی کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
افتخار احمد بٹ کے معاملے میں بھی بالکل ایسے ہی ہوا، اگرچہ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے بہت بیمار تھا اور ڈاکٹرز نے ایک طرح سے اس کو جواب ہی دے دیا تھا کہ اب آپ کو اسی طرح سے رہنا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے ملاقات کے بعد یا دوران میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اب یہ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند اور یہ ہونٹ مستقل خاموش ہونے والے ہیں۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا، وہ اسپتال کے بیڈ پر تقریباً نیند کے عالم میں پڑا تھا۔
طے یہ پایا تھا کہ ہم مشترکہ دوست مرحوم شمیم اختر سیفی کی بیوہ بصیرت بھابی کے جنازے سے نکل کر اس کی طرف جائیں گے۔ میں اور میری بیگم پہلے پہنچے اور محمود قریشی، ریاض احمد اور معین الدین دوسری گاڑی میں آئے۔ میں نے اس کے ماتھے کو چھوا اور آہستہ سے ایک دو بار آواز بھی دی مگر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر بیٹے آصف بٹ سے علاج کی تفصیلات معلوم کرنے لگا۔
پتہ چلا کہ کچھ عرصہ قبل جو وہ دبئی کے ڈاکٹروں کے جواب دے دینے پر (پتے کے آپریشن کے لیے) پاکستان آیا تھا اور یہاں کے ڈاکٹروں نے بھی اس کیس میں ہاتھ ڈالنے سے معذرت کر دی تھی (کہ دو بار کی اوپن ہارٹ سرجری اور چار اسٹنٹس ڈالے جانے کی وجہ سے اب وہ کسی مزید آپریشن کا رسک لینے کو تیار نہیں تھے) یہ موجودہ علالت اسی کا تسلسل ہے اور اب اس میں کینسر کا بھی اضافہ ہو گیا ہے جس کے لیے شوکت خانم میموریل اسپتال سے وقت لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میرے دماغ میں آیا کہ کیوں نہ اپنے کینسر اسپتال والے ڈاکٹر شہریار صاحب سے بات کی جائے کہ وہ استادوں کے استاد ہیں۔
افسانہ نگار دوست فرحت پروین نے بتایا کہ اگرچہ ان کی آج رات کی ہی امریکا کی پرواز بک ہے مگر وہ ضرور افتخار بھائی کو دیکھنے کے لیے وقت نکال لیں گے۔ اتنے میں باقی ساتھی بھی پہنچ گئے۔ ابھی یہ مشورہ جاری ہی تھا کہ افتخار کی آنکھ کھل گئی اور ہم سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس کی آواز دھیمی اور لہجہ شکستہ تھا، ہم حسب روایت اس کی دل داری اور حوصلہ افزائی کے لیے اس کی جلد صحتیابی کی باتیں کرنے لگے مگر تھوڑی دیر میں ہی اندازہ ہو گیا کہ اب وہ اس منزل سے آگے نکل چکا ہے اور ذہنی طور پر اس بات کو تسلیم کر چکا ہے کہ یہ اس کا آخری وقت ہے۔
میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ دل کے پہلے آپریشن کے بعد تقریباً 40 برس گزار سکتا ہے اور کئی بار شدید علالت کے بعد اللہ نے اسے صحت بھی دے دی ہے تو ان شاء اللہ اب بھی ایسا ہی ہو گا مگر اس نے خلاف معمول مجھے قدرے سختی سے یہ بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا... اس کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اس کو پتے میں دریافت ہونے والے کینسر کے بارے میں بھی علم ہے (جو اپنی طرف سے خاندان والوں نے اس سے چھپا کر رکھا ہوا تھا) اور وہ کسی طرح کے مزید علاج کے حق میں نہیں کہ اس سے سوائے تکلیف اور پریشانی میں اضافے کے کچھ حاصل نہیں اور یہ کہ اس نے اپنے بچوں کو بھی سختی سے کہہ دیا ہے کہ وہ اسپتالوں کے چکر میں نہ پڑیں اور اسے گھر لے جائیں۔
اس کا ہمیشہ مسکرانے والا چہرہ ایک عجیب غم آلود سنجیدگی اور تقدیر کے بارے میں احتجاجی رویے کا مظہر تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کہا اور کیا جائے۔ میرا دھیان یک دم پچاس برس پیچھے کی طرف پلٹ گیا جب ہم ابھی کالجوں میں پڑھ رہے تھے اور ہماری ملاقاتوں کا آغاز ہوا تھا۔ وہ مکرم جاوید سید اور رضا مہدی (مرحوم) کے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کر رہا تھا اور میں اور اشرف شاہین اورینٹل کالج میں اردو کے طالب علم تھے۔ اس کی رہائش دھنی رام روڈ والے خاندانی گھر میں تھی جہاں وہ غریب اور بے آسرا رشتہ داروں کی طرح پل رہا تھا کہ اس کے والد کا انتقال اس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ میٹرک کے زمانے سے ہی اپنا خاندانی گھڑی فروشی کا کام پارٹ ٹائم جاب کے طور پر کر رہا ہے اور کالج سے چھٹی کے دنوں میں شہر شہر اور قصبہ قصبہ گھڑیوں کا بکسہ اٹھا کر بسوں میں دھکے کھاتا ہوا سفر کرتا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو وہ صحیح معنوں میں ایک سیلف میڈ آدمی تھا۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنے گھر کے سامنے ایک چھوٹی سی جگہ پر پلاسٹک مولڈنگ کا کام شروع کیا اور پھر مسلسل محنت کرتے ہوئے کراچی، لندن اور نائیجریا سے ہوتا ہوا شارجہ پہنچا جہاں اب اس کی ایک اپنی خاصی بڑی فیکٹری اور ٹریڈنگ آفس تھا جو اس کی محنت اور صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ اب صحت کے معاملات سے قطع نظر ہر چیز اپنی جگہ پر اور اس کی گرفت میں تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ دھنی رام روڈ والے اس چھوٹے سے کمرے میں جو اس کے دوست تھے وہ اپنے اپنے اور اس کے آخری دم تک اس کے ساتھ رہے۔ اس کے جنازے پر یہ سب لوگ بار بار یاد آئے۔ شمیم اختر، محمود بٹ، رزاق علی خان، انیس الرحمن، استاد اختر، جاوید شیخ اور رضا مہدی اس سے پہلے چلے گئے اور کچھ عرصے کے بعد ان صحبتوں کو یاد کرنے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ رہے نام اللہ کا۔
وہ صحیح معنوں میں یاروں کا یار تھا۔ غربت کے دن ہوں یا فراوانی کا ہنگام، ہر زمانے میں اس کا دل اور دسترخوان دوستوں کے لیے کھلے رہتے تھے۔ ہمارا مشترکہ دوست اشرف شاہین جو آج کل خود تازہ تازہ دل میں اسٹنٹ ڈلوا کر بیٹھا ہے، فون پر رو رو کر بتا رہا تھا کہ چند دن قبل رات کو شارجہ سے اس کا فون آیا۔ اس کی آواز بہت مدھم اور شکستہ تھی اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ یہ فون اس نے صرف اس لیے کیا ہے کہ جانے سے پہلے وہ دوستوں سے جی بھر کے باتیں کرنا چاہتا ہے۔
کوئی ایک ماہ قبل وہ میرے ساتھ بھی دو تین ایسے ہی سیشن کر چکا تھا لیکن اس کے بار بار کہنے کے باوجود پتہ نہیں کیوں مجھے یقین سا تھا کہ کوئی معجزہ ہو گا اور وہ پہلے کی طرح اس بار بھی بھلا چنگا ہو جائے گا۔ اس کے گھر سے قریب ماڈل ٹاؤن کی مسجد کے باہر اس کے جنازے سے پہلے اس کے تینوں بیٹے اس کی چارپائی کو پکڑے بیٹھے تھے۔ اس کا خوب صورت چہرہ پرسکون اور شانت تھا اور میرے دماغ میں بار بار ایک ہی مصرعہ گردش کیے جا ہا تھا کہ ''وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ''۔
افتخار احمد بٹ بھی اپنا دیا ہوا وقت گزار کر اس خاک کا رزق بن گیا جو ہم سب کا انتظار کر رہی ہے کہ اس سے آگے کی منزلوں کا علم تو اسی ذاتِ واحد کو ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔ سو اب ہمارے اختیار میں تو صرف دعا اور التجا ہی ہے کہ وہ افتخار، اس سے پہلے گئے ہوؤں اور اس کے بعد جانے والوں پر اپنا خاص کرم فرمائے اور ان سب کو جنت الفردوس میں ایک دوسرے کی صحبت پھر سے نصیب فرمائے۔ آمین