مسلم ممالک اور امریکی عزائم
حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے نہ صرف امریکا پوری دنیا کا واحد بادشاہ بن گیا
www.facebook.com/shah Naqvi
MOSCOW:
ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر عائد امریکی پابندیاں عالمی توازن خراب کرنے کی سازش ہے۔ یہ پابندیاں عالمی قوانین اور سفارتکاری کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکی سامراجیت قابل قبول نہیں، ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں مناسب نہیں۔ انھوں نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سامراجی دنیا میں جینا نہیں چاہتے جہاں عالمی قوانین اور سفارتکاری کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم امریکا سے ایران پر پابندیوں کا استثنیٰ مانگ رہے تھے، ٹھیک اسی وقت امریکا کو باور کرایا گیا کہ ایران کو دیوار سے لگانا درست فیصلہ نہیں۔ کیونکہ ایران کو دنیا سے الگ کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ان پابندیوں سے ایرانی عوام کو سزا دینے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ترکی ان 8 ممالک میں شامل ہے جو ایران سے تیل خرید سکتے ہیں۔
ادھر ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ہم غیر قانونی اور غیر منصفانہ پابندیوں کی فخریہ خلاف ورزی کریں گے کیونکہ یہ بین الاقوامی قواعد کے خلاف ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کو تنہا کرتے کرتے خود امریکا عالمی تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ وہ اس طرح کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کے خارجہ امور وزراء نے ایک مشترکہ بیان میں امریکی اقدام پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی اتحادیوں نے ایران سے اپنے تجارتی تعلقات توڑنے سے انکار کر کے امریکا کو ذلت آمیز صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہی موقف چین اور روس کا بھی ہے۔ اس وقت تمام دنیا امریکی صدر ٹرمپ کی دھونس اور دھمکی کی پالیسی سے پریشان ہے۔ چین، روس ہو یا اس کے اتحادی یورپی یونین سبھی، اس پالیسی سے نالاں نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے نہ صرف امریکا پوری دنیا کا واحد بادشاہ بن گیا بلکہ اسرائیل کو بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔ سوویت یونین کے خاتمے سے صرف دو ہی ملکوں امریکا اور اسرائیل کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا جب تک سوویت یونین تھا وہ اسرائیلی امریکی جارحیت کے خلاف عرب ملکوں کے لیے ڈھال بنا رہا۔ ہر طرح کی فوجی، اسلحی، معاشی، سفارتی امداد ان ملکوں کو مہیا رہی۔ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیلی توسیعی عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی ایجنڈے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا۔
یعنی عراق، لیبیا، شام کی فوجی قوت کا خاتمہ، قذافی اور صدام کو عبرت کا نشان بنایا گیا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو تحریک آزادی فلسطین کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ 80ء کی دہائی کا آخر تھا جب ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم نے سوویت یونین کے خاتمے کا جشن مال روڈ لاہور کے الحمرا ہال میں منایا۔ نعروں کی گونج میں ایسا لگتا تھا کہ ہال کی چھت اڑ جائے گی۔ میرے ساتھ کھڑا ایک نوجوان بھی نعرے لگارہا تھا۔ میں اس وقت بھی اس کے پاس کھڑا یہی سوچ رہا تھا کہ اس سادہ لوح بے چارے کو نہیں معلوم کہ وہ بے خبری میں امریکی اسرائیلی سازش کا حصہ بن چکا ہے۔
سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کی جذباتیت نے مسلم دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ عقل سے کم اور جذبات پر زیادہ عمل پیرا ہونا خاص طور پر جہاں مذہب کا معاملہ ہو۔ سوویت یونین کے معاملے میں امریکا نے مذہب کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ہمیں سوویت یونین کے خلاف لڑا دیا۔ المناک صورت حال یہ کہ اس طویل تباہ کن جنگ میں امریکا کا ایک بھی فوجی نہیں مرا جب کہ لاکھوں مسلمان اس جنگ میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ان کی کئی نسلیں تباہ ہو گئیں۔ یہاں تک امریکا نے پوری دنیا کا بادشاہ بن کر مسلمان ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے جس کا مستقبل میں ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
حال ہی میں شام، عراق میں داعش کے معاملے کو ہی لے لیں۔ داعش کی ریاست قائم کی گئی۔ شہد کے چھتے اور شہد کی مکھیوں کی ٹیکنیک استعمال کی گئی۔ سازش یہ تھی کہ اس طرح تمام دنیا سے جہادی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے اور آسانی سے ان کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ امریکیوں نے اس معاملے میں بھی مذہب کا ہتھیار استعمال کیا۔ جب کہ پوری دنیا کے سادہ لوح مسلمان خوشی سے سرشار تھے کہ چودہ سو سال بعد ایک اسلامی ریاست وجود میں آ گئی۔ رونا تو اس بات کا ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں میں صرف ان پڑھ نیم خواندہ نہیں بلکہ بہت زیادہ پڑھے لکھے بھی شامل ہیں۔ القاعد اور طالبان کے معاملے میں بھی یہی سازش کارفرما ہے۔امریکا اور بھارت سی پیک کے سخت مخالف ہیں۔ جب وزیراعظم عمران خان ملک کی خطرناک معاشی صورتحال کے پس منظر میں چین کے دورے پر تھے۔ اس وقت ملک میں دھرنے نے پورا ملک بند کر کے رکھ دیا۔ یہ ایک وارننگ تھی۔
ایران پر معاشی پابندیوں کی اصل وجہ ایران کا اسرائیل مخالف اور تحریک آزادی فلسطین کی انقلاب ایران کے آغاز سے ہی سے مسلسل حمایت کرنا ہے۔ لیکن ایران فلسطینی مسلمانوں کی حمایت سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں جس کی سزا کے طور پر اس پر طویل خونی جنگ اور سخت ترین معاشی پابندیاں مسلط کی گئیں۔ اگر ایران اسرائیل کی مخالفت ترک کر دے تو ایران کے مذہبی نظام سے امریکا کا کوئی جھگڑا نہیں۔ مسلمان دنیا میں بادشاہت، آمریت، کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہی تو امریکا کو سوٹ کرتی ہے۔