چند تلخ حقائق

کراچی جل رہا ہے فاٹا اور خیبر پختونخوا میں مسلح لشکر کام کر رہے ہیں۔


Zamrad Naqvi June 23, 2013

پختونخوا عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں خاصی سخت گفتگو کی ۔ان کی باتوں پر اعتراض کی گنجائش بھی ہے اور ان میں سچائی کا پہلو بھی موجود ہے ۔انھوں نے کہا ہے کہ ہمارا ملک پاکستان مشکل صورت حال سے دو چار ہے۔ چین جیسا دوست ہم سے ناراض ہے۔ ایران شکوہ کرتا ہے۔ بہت سی چیزیں ہمارے خلاف ثابت ہو چکی ہیں۔ میں انتباہ کرتا ہوں کہ ہمارا ملک بربادی کے کنارے پر ہے۔ اسے صرف سچ بچا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو لگام نہ دی گئی تو قومی اسمبلی چھوڑ دوں گا۔ اس وقت ملک کی فکر کریں۔ آپ نے بھٹو کو مارا۔ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ آپ نے بگٹی کو مارا وہاں کے لوگ لڑ رہے ہیں۔ اپنی غلطیوں پر معافی مانگ کر اس ملک کو بچائیں۔

مجھے معلوم ہے کہ میں سچی بات کروں گا تو لوگ ناراض ہوں گے۔ اس وقت مساجد محفوظ نہیں ہیں۔ کراچی جل رہا ہے فاٹا اور خیبر پختونخوا میں مسلح لشکر کام کر رہے ہیں۔ ہم نہ قرآن پاک کی بات مانتے ہیں۔ نہ علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی۔ 25 دسمبر 1979ء کو سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو موجودہ جنگ کا آغاز ہوا۔ پوری دنیا نے اسلحے کا رخ ہماری جانب کر دیا۔ کلا شنکوف جس کی تصویر اخبار میں دیکھتے تھے وہ پورے ملک میں عام ہو گئی۔ کسی نے نہیں سوچا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ پوری دنیا سے لوگ آ کر یہاں جمع ہو گئے۔ ایمن الظواہری جیسے لوگوں نے یہاں آ کر لوگوں کو تربیت دی۔

کرنل امام نے اعتراف کیا کہ ہم نے 95 ہزار لوگوں کو تربیت دی لیکن کسی کا نہیں پتہ رکھا گیا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ لوگوں کو حقائق بتائیں کہ آخر امریکا کیوں ڈرون حملے کرتا ہے۔ آخر وہاں کوئی تو چھپا ہوا ہے۔ قبائلی علاقوں میں بعض غیر ملکی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ قوم کو سچ بتایا جائے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم افغانستان میں مداخلت کار ہیں۔ اس خطے کو آگ میں نہ جھونکیں۔ لشکروں کو ختم کرنا ہوگا جو ہم نے ماضی میں بنائے تھے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ آپ کو خود مختاری عزیز ہے لیکن جب تک آپ ہمسائے کی خود مختاری کو تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی خود مختاری بھی محفوظ نہیں ہو گی۔ شیعہ سنی لڑائی ختم کی جائے۔ ہزارہ منگول برادری کا کیا جرم ہے کہ انھوں نے 70,70 جنازے اٹھائے۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کو لگام دینا ہو گی۔

محمود خان اچکزئی نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ پاکستان کی تاریخ کے المناک حقائق ہیں۔ ان خاک و خون میں لتھڑے ہوئے حقائق سے کوئی بھی سچا محب الوطن پاکستانی انکار نہیں کر سکتا۔ اچکزئی کی تقریر درد دل رکھنے والے ایک محب وطن کی تقریر تھی۔ ان کا ایک ایک لفظ ان لمحات کی غمازی کرتا ہے جن سے پاکستان افغانستان اور اس خطے کے رہنے والے لوگ گزرے ہیں۔

71ء میں قائداعظم کے پاکستان کو توڑ دیا گیا' اب ان کی زیارت کی رہائش گاہ، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے، کو آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ جس دن یہ سانحہ ہوا اسی دن بولان میڈیکل کالج میں طالبات کو نشانہ بنایا گیا جس میں درجنوں طالبات شہید اور زخمی ہوئیں اور صرف اسی پر بس نہیں ایمرجنسی میں جب زخمی طالبات کو لے جایا گیا تو وہاں پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کی ذمے داری ایک کالعدم لشکر نے قبول کی۔ اس سانحہ پر صرف کوئٹہ اور بلوچستان کے عوام نے بھرپور احتجاج کیا جب کہ باقی ملک میں یہ احتجاج رسمی رہا۔ یہ بات بڑی قابل افسوس ہے لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان کی اکثریتی آبادی کے دل ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔

جنازے پر حملہ کرنا' مساجد اور امام بار گاہوں میں لوگوں کو شہید کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ پتہ نہیں دہشت گرد کس اسلام کے ماننے والے ہیں۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جنازے میں شریک اور مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے' مارکیٹوں بازاروں اور رہائشی علاقے میں بے قصور بے خبر مردوں عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنا کونسا اسلام اور کونسی بہادری ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان المناک واقعات کے مسلسل رونما ہونے کی وجہ سے عوام کی بے بسی بے حسی میں بدل گئی ہے۔ وہ خود تو کچھ نہیں کرتے سوائے حکومت کی طرف دیکھنے کے۔ دوسری طرف حکومت بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ حالانکہ عوام ہی اس صورت حال کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ صرف ان کو کرنا یہ ہو گا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں، حمایتوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے' سادہ لوح بے خبر پاکستانیوں کو آگاہ کیا جائے کہ ان کا اصل دشمن کون ہے۔

ہمارے کالم کے ایک قاری ہیں جو شاعر بھی ہیں' آج کل ان کے اشعار کا بہت چرچا ہے۔ کہتے ہیں کہ طویل عرصے سے آپ کے کالم پڑھ رہا ہوں۔ میری ذہنی تربیت میں آپ کے کالموں کا بڑا حصہ ہے' شاعری میں انسپریشن آپ کے کالموں سے لی ہے۔ بہر حال یہ ان کی بڑائی ہے کہ انھوں نے میرے بارے میں ان جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

دوسرا شعر۔

کیا دکھاتی ہے کرشمے یہ شکم کی آتش۔ جس کا دشمن ہوں اسی کا میں وفادار بھی ہوں۔

فیس بک پر جلیل حیدر کا مزید کلام ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ذکر مجھے کیوں کرنا پڑا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں وزیر اعظم نواز شریف کی غیر معمولی حمایت کیوں کر رہا ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ملک کے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح میرا بھی خواب ہے کہ پاک انڈیا تعلقات دوستی میں بدل جائیں۔ مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا کوئی ایسا حل نکل آئے جو پاکستان بھارت اور کشمیری عوام کو قابل قبول ہو۔ نواز شریف کی کامیابی کا بھارتی عوام اور بھارتی پنجاب میں بھرپور خیر مقدم کیا گیا اور خوشی منائی گئی 'وہ بھی اسی پس منظر میں ہے۔ امن اور دوستی صرف پاکستان اور بھارت کی نہیں پورے خطے کی ضرورت ہے۔ برصغیر کے ایک ارب سے زائد انسان جس بھوک غربت بے روز گاری اور مہنگائی میں مبتلا ہیں اس سے چھٹکارے کا راستہ امن ہے 'جنگ نہیں۔ بے نظیر اور زرداری کو تو اس راستے پر چلنے نہیں دیا گیا۔ اب بھارتی ہوں یا پاکستانی عوام سب کی امیدیں نواز شریف سے ہی وابستہ ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ ان کے پیچھے پنجاب کے عوام اور وہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہے جس کا بڑا اور موثر حصہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔

پرویز مشرف کا مستقبل کیا ہے' اس کا پتہ جولائی اگست میں چلے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں