پدید آمدن مزار جدید در مقبرہ قدیم
حکومت نے اپنے بہت سارے اداروں کی آمدنی پر خطرہ منڈلاتا دیکھ کر ’’ نوٹس ‘‘ لے لیا۔
ISLAMABAD:
یعنی پیدا ہونا ایک نئے مزار شریف کا پرانے قبرستان میں، یہ محض ایک کہانی ہے، اس لیے کہانی سے زیادہ کچھ اور بالکل نہیں سمجھنا چاہیے اور خاص طور پر کسی نام، مقام اور ایام پر تو اسے ہر گز ہر گز منطبق نہ کیا جائے ۔
یہ قصہ مملکت اللہ داد ناپرساں میں وقوع پذیر ہوا تھا ۔ ہواں یوں کہ دوبے روزگار بلکہ بے مزار پیر اور مرید مملکت ناپرساں میں نہ جانے کہاں سے وراد ہوئے اورمملکت ناپرساں کی راج دھانی انعام آباد اکرام آباد میں مفت کے لنگر خانے دیکھ کر وہیں رہ پڑے کیونکہ انعام آباد اکرام آباد میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو حکومت سے انعام و اکرام پاکر اس کا کچھ حصہ خیرات خانوں لنگر خانوں پر بھی صرف کرتے تھے ۔
اس کا ایک مقصد تو اپنا مال حلال یا مردار کرنا ہوتا تھا، دوسرا مقصد ان خداماروں کو زندہ رکھنا تھا جو ان سب کی کمائی کا ذریعہ تھے۔ بڑے بڑے لنگر خانوں، خیرات خانوں میں کھانوں کی سبیل ان دونوں کی بھی ہوگئی اور رہائش کا مسٔلہ یوں مل گیا کہ ایک مقبرہ قدیم میں ایک شکستہ مزار کے پاس ایک ٹوٹی پھوٹی کوٹھڑی بھی مل گئی جس کی ضرورت مرمت کرکے انھوں رہائش کے قابل بنا لیا تھا، دن بھر طعام خانوں میں خیرات اور شام کو اس کوٹھڑی میں پڑ رہتے ۔
دن عید اور رات شب برات کی مانند گزرتے تھے لیکن پھر اچانک وہ حادثہ فاجعہ ہو گیا کہ ایک ''معصوم'' چور جو حسب معمول اپنی رات کی مزدوری پر نکلا تھا، ایک مکان کو نقب لگاتے ہوئے دیوار تلے دب کر ''شہید'' ہوگیا۔
اس کے بعد کا قصہ تو بڑا مشہور ہے، آپ نے بھی سنا ہوا ہوگا کہ اس چورکے لواحقین نے نالش دائر کی کہ اس بے گناہ ، بے خطا چور کی ''شہادت'' کا معاوضہ دلایا جائے اورمکان مالک کو کچی دیوار بنانے کے جرم میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ حکومت اوراس کے متعلقہ قانون نافذ کرنے والوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو چوروں نے ایک بہت بڑا جلوس نکال کر وارننگ دی کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات نہیں مانے تو ہم '' دھندہ چھوڑ '' ہڑتال کر دیں گے، اپنا پیشہ ترک کرکے توبہ تائب ہو جائیں گے جس سے حکومت کے بہت سارے ادارے صرف تنخواہ تک محدود رہ جائیں گے۔
حکومت نے اپنے بہت سارے اداروں کی آمدنی پر خطرہ منڈلاتا دیکھ کر '' نوٹس '' لے لیا۔ جس کے نتیجے میں مالک مکان ، پھر ٹھیکیدار، پھر راج مزدور اور اس کے بعد ایک ہاتھی اور ایک پائلیاچھن چھن کرتی شاہی کنیز کو پکڑا لیکن سارے بے قصور ثابت ہو گئے کیونکہ وہ ' 'بے قصور ثابت کرانے والوں '' کی '' فیس '' دے سکے تھے ۔آخر میں وہ سنار پکڑا گیا جس نے وہ پائل بنائی تھی جو شاہی کنیز نے لی تھی ہاتھی کو ڈرایا تھا اور آگے پھر چور تک کا سلسلہ۔
سنار کوجب پھانسی کا پھندہ ڈالا گیا تو اس کی پتلی گردن کھوپڑی سمیت پھندے سے نکل گئی، قانونی طور پر کسی کو دوبارہ پھانسی پر نہیں چڑھایا جا سکتا تھا لیکن پھر بھی جرم کی سزا توکسی کو ملنا تھی ۔ چنانچہ قانون نافذ کرنے والوں کو پھندے کا ناپ دے کر دوڑایا گیا۔ پھندہ ویسے تو بہت ساری گردنوں میں فٹ ہوگیا لیکن چونکہ سارے کے سارے ناپرسانی سرکاری اسرار ورموز اور قانون کے نفاذ کے طریقہ کار سے واقف تھے، اس لیے پہلے ہی سے کچھ رنگین کاغذ '' ناپنے والوں '' کے ہاتھوں میں منتقل کرچکے ہوتے، اس لیے ان فٹ ہوجاتے ۔
آخر کار قرعہ فال اور پھندے کا ناپ ان پیر صاحب اور مرید کی گردن میں فٹ ہوگئے کیونکہ ایک تومفت کی کھا کر ان کی گردنیں موٹی ہو گئی تھیں اور دوسرے وہ ناپرساں کے رنگین کا غذ نہ رکھتے تھے اور نہ ان کے استعمال سے واقف تھے، سو دھرلیے گئے ۔ شاہی دربار میں پیش کر دیے گئے لیکن ان دونوں نے آپس میں منہ اور کان ملا کر ایک منصوبہ بنا لیا تھا چنانچہ دونوں اچانک پھانسی کے پھندے پر جھپٹ پڑے اور ایک دوسرے کو دھکیل کر خود پھانسی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے ۔
اس پر بادشاہ سلامت بلکہ شاہی نگاہ کو حیرت ہو گئی کہ پھانسی پر چڑھنے کا اتنا ذوق و شوق اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا چنانچہ حکم صادر ہوا کہ اس راز پر سے پردہ اٹھا دیا جائے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو دھکیل کر اتنے پھانسی پسند کیوں ہورہے ہیں ۔ دونوں نے پہلے تو پس وپیش کی اداکاری کی، آخر پھر پیر صاحب جیسے بادل ناخواستہ بیان طراز ہوا کہ در اصل ہم دونوں ماہرین علوم نجوم اور پروفیسر عامل کامل ہیں اور علم نجوم کا آج وہ دن ہے جو پچاس ہزار سال کے بعد آتا ہے، اس دن آسمان پر ستاروں کا ایک گرینڈ '' بیوٹی شو '' ہوتا ہے جس میں مشہور عالم ستارے حصہ لیتے ہیں اور '' ملکہ فلک'' کا انتخاب ہوتا ہے۔
ان امیدواروں میں زہرہ بائی ہاروت ماروت والی ، عتاردیوں بابل والی ، الفیرودینی بائی یونان والی، وینس بائی روم والی ثریا بائی ایران والی ، ناہید بائی افغانستان والی اور اروشی بائی ہندوستان والی حصہ لیتی ہیں۔ سورج اور چاند جج کے فرائض انجام دیتے ہیں اور آیندہ پچاس سال کے لیے ملکہ فلک کا تاج کسی ایک کو پہنایا جاتا ہے۔ پہلے والے مقابلے میں افرودیتی بائی یونان والی ملکہ فلک قرار پائی تھی لیکن اس مرتبہ زہرہ بائی ہاروت ماروت والی اسے چیلنج کرکے ٹف ٹائم دینے والی ہیں ۔
اس تقریب سعید کے موقع پر جو بھی پھانسی کے پھندے پر شہید ہو جاتا ہے، اسے بغیر پاسپورٹ ویزا اور چیکنگ کے چارٹرڈ طیارے کے ذریعے سورگ پہنچایا جاتا ہے جہاں ستر ستر میل کے بنگلوں میں ستر ستر ہزار حوریں اس کی منتظر ہوتی ہیں، یہ کہہ کر پیر نے اپنے مرید کو دھکیل کر پھندا اپنے گلے میں پہنانا چاہا لیکن شاہ ناپرساں نے اسے روکنے کا حکم دیا اورخود ہی اس مبارک موقع سے فائدہ اٹھانے کی خاطر پھانسی پر جھول گیا ۔
یہ تو ہم نے صرف پس منظر واضح کیا، اصل کہانی تو مزار شریف در مقبرہ قدیم کی کہانی باقی ہے ۔
(جاری ہے)