گھوسٹ سہولت کار
دونوں سہولت کار کو صرف پیغام بری اور محفل سجانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
یہ 1977 کی بات ہے جب میں لاہور ریڈیو پر تعینات تھا اور جیساکہ عرض کرچکا ہوں گزشتہ کالموں میں کہ انگور باغ میں رہتا تھا، ڈیوٹیاں تبدیل ہوتی رہتی تھیں، کبھی صبح شام سے رات اور پھر صبح سے گیارہ بجے بارہ بجے تک، اس دوران اپنے فلیٹ سے اتر کر نیچے گلی میں ایک دکان تھی جو فلیٹ میں ہی تھی، بس باہرکچھ سامان رکھ کر نشاندہی کردی تھی کہ یہاں دکان ہے، ان دنوں لالٹین اور لیمپ کا رواج تھا جو کیروسین لیمپ کہلاتے تھے۔
دوسری طرف چوک میں ریڈیو پروڈیوسر ستار سید کی بھی اس طرح ہی نسبتاً بڑی دکان تھی، ایک کمرے کے اندر ان دنوں میں سگریٹ نوش تھا لہٰذا سگریٹ خریدنے دونوں دکانوں پر جایا کرتا تھا۔
میری گلی میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں جن پر لوگ بیٹھتے گپ شپ کرتے تھے، ایک چارپائی پر ایک بندہ مجھے صبح و شام سوتا نظر آتا اور میں سوچتا رہتا کہ اسے کوئی کام نہیں ہے کہ یہ سوتا رہتا ہے۔ غریبوں کی بستی ہے، یہاں تو پروڈیوسر تک نے دکان کھول رکھی ہے گزر اوقات کے لیے، اس وقت پروڈیوسر کو 600 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی، آنے جانے میں ہی کم از کم ماہانہ سو روپے خرچ ہوجاتے تھے۔ یہ بات اسی کے پاس سے گزرتے وقت سوچتا وہ آرام سے منہ پر کپڑا ڈالے سورہا ہوتا۔
ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ میرا آف ڈے تھا اور وہ شخص چارپائی پر بیٹھا تھا ، میں نے سلام کیا اس نے جواب دیا اور میرے لیے بیٹھنے کو جگہ بنادی، صورت آشنائی تو تھی پہلے اس نے مجھ سے پوچھا کہ صاحب آپ کہاں جاتے ہو گاڑی میں، روز گاڑی آپ کو لینے آتی ہے۔ میں نے بتایا ریڈیو میں آفیسر ہوں۔ وہ کچھ خوش ہوا تو میں نے کہا آپ کہاں کام کرتے ہو تو کہا ریلوے میں، اور وقفہ دے کر کہا واسا میں بھی، پھر کہا واپڈا میں بھی ہوں۔ میں حیرت سے اسے دیکھ کر بولا کہ تین محکموں میں؟ کہنے لگا جی صاحب، میں نے کہا مگر نوکری پر کب جاتے ہو دن بھر تو آپ یہاں سوئے ہوتے ہو تو کہا پہلی تاریخ کو جاتا ہوں۔
مجھے حیران دیکھ کر بولا تینوں جگہ سے آدھی آدھی تنخواہ ملتی ہے، دستخط کرکے لے آتا ہوں۔ بابو جی جب آرام سے ڈیڑھ تنخواہ ملتی ہے تو کام کون کرے۔ میں نے کہا تم اکیلے ایسا کرتے ہو؟ کہا نہیں صاحب ہر ڈپارٹمنٹ میں آدھی لیبر بھری ہوتی ہے، میری حیرت آج تک نہ ہوتی اگر اب خود میرے شہر میں ایسے لوگ اور یہ انتظام موجود ہے، بعض کلرک دو جگہ ملازم ہیں۔ ایک بجے آتے ہیں، صبح کہیں اور ہوتے ہیں۔ 1977 میں سندھ میں ایسا نہیں تھا یا بہت کم تھا اب عام ہے۔
ایک لفظ پڑھا تھا GHOST یعنی بھوت، اور تصور یہ تھا کہ وہ نظر نہیں آتے یا نظر آتے ہیں تو ڈراتے ہیں۔ تو بعد میں ہم نے گھوسٹ اسٹیشن ڈائریکٹر تک دیکھے جو دفتر سے غائب اور کسی پرائیویٹ ریکارڈنگ یا پروڈکشن میں مصروف۔ اب یہ رواج کافی پروان چڑھ چکا ہے۔ NGO کی بیماری بھی پھیلی ہوئی ہے، کیوں نہ ہو اسے سیاست دانوں نے پھیلایا ہے۔
ان گھوسٹس نے ، جی بھر کے اپنی پارٹیوں کے ذریعے ملک پر گھوسٹ حکمرانی کی اور ملک پر قرض کا آسیب مسلط کیا، زر زمین کچھ نہیں چھوڑا، عوام کو لوٹ کر کھا گئے۔ قرض کا طوق ان کے گلے میں ڈال دیا، اولاد بھی اسی راستے پر لگتی ہے، لندن والی تو اشتہاری ہے باقی کا احوال آنا باقی ہے۔ سنا ہے ادھر بھی کچھ گڑ بڑ ہے۔ ضرور ہوگی یہ پارٹیاں ہیں ہی گڑ بڑ پارٹی۔ عوام نے ضمنی انتخاب میں پھر روایتی انداز اختیار کیا، ان کا ہی نقصان ہوگا۔
ان دنوں گھوسٹ کا ایک مشترک سہولت کار ہے جو ملک سے زیادہ ''پیسٹ'' پر دھیان دیتا ہے، عوام نے مسترد کردیا تو ڈر کے مار ضمنی الیکشن میں بھی کھڑا نہ ہوا یہ بندہ۔ خبر تھی عوام مسترد کردیںگے، اب یہ سیاسی رئیل اسٹیٹ کا کام کررہا ہے۔ بندہ اور گاہک ہیں۔ مسترد سیاست دان چاہے اسمبلی میں بھی ہوں، کوئی راستہ دونوں کو نظر نہیں آرہا، لہٰذا سہولت کار کی خدمات پھر لے لی ہیں، ایک عدالتوں میں خوار ہورہا تھا خاندان کے ساتھ، تو دوسرا معتبر بنا پھر رہا تھا، اب دونوں عدالت میں ہیں اور سہولت کار اڈیالہ نہیں گیا تھا ''عزت'' کا سوال تھا اور اب سب مجرموں کو یا ملزموں کو دوسروں کے ساتھ بٹھانے کا کام یہ سہولت کار کررہا ہے۔
کشمیر کے بارے میں موجودہ حکومت نے واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا ہے اور سہولت کار نے اس زباں بندی کی جو قیمت سابقہ حکمرانوں سے لی ہے اور جو جائیداد بنائی ہے، جو زمین الاٹ ہوئی، خاندان کو اب اس کا حساب ہونا چاہیے۔ ابصار عالم بہت کچھ بتاچکے ہیں، مجھے لوگوں نے بتایا ہے تو اب کام شروع ہونا چاہیے۔
اس ملک کی بربادی میں اس سہولت کار کا بڑا حصہ ہے جو قرض لے کر کھا جانے والوں کے ساتھ برسوں کھڑے رہے۔ دراصل سب پاکستان کے ہیں کب، ان کے تو تمام ڈانڈے سرحد پار سے ملے ہوئے ہیں، فوج نے ان کا کام بگاڑدیا ورنہ خدانخواستہ طالبان کے پردے میں ان کے ارادے کچھ اور تھے وہ ہراول دستہ تھے اور یہ بینیفشری۔ پرانی تاریخ ہے، فوج نے ناکام کردیا عوام کے ساتھ مل کر۔ اب عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں، وہ لا علم اور جاہل رہنے کو تیار نہیں ہیں۔
نیب کو چاہیے کہ وہ حکومتی کمیٹی کا احتساب کرے، لوٹا ہوا مال برآمد کرے اور ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔ عمران تو یہ برداشت نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ کوئی ڈرامہ نہیں چلنے دے گا اور کاروبار ٹھپ ہے، پرمٹ بھی نہیں ملیں گے، لہٰذا گھوسٹس کے ساتھ مل کر میدان میں ہاتھ پیر چلائیں۔ میڈیا کا بھی لطف نہیں آرہا تھا۔ ایک بات دونوں یاد رکھیں انھیں صدر بننے کا بھی شوق ہے۔ وزیراعظم تو جز وقتی بھی بننے کو تیار تھے، مگر دونوں کو لگتا تھا بے شک گھوسٹ ہیں کہ اگر یہ غلطی کرلی تو ہمارا نام و نشان نہیں رہے گا۔ سہولت کار ان کے دشمن سے ہاتھ ملانے نہیں دے گا، کیونکہ یہ مفاداتی بندہ ہے اور خطرناک بھی ہے، سیاست کے ساتھ پگڑی اور ڈنڈے سوٹے بھی۔
لہٰذا دونوں سہولت کار کو صرف پیغام بری اور محفل سجانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور آیندہ بھی ان کا یہی پروگرام ہے، مگر کون کہہ سکتا ہے کہ کون کیا سوچ رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ مگر ایک بات جو یہ سب بھول رہے ہیں وہ یہ کہ اس بار فیصلے اوپر سے آرہے ہیں اور وہ اوپر اللہ ہے۔ آپ اللہ کے فیصلوں کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ سب کو یقین ہے کہ اللہ نے اب عوام کی سن لی ہے اور وہ اب عوام کو مزید پریشان نہیں ہونے دے گا۔ انشاء اللہ