صرف ایک گولی
مشکل یہ ہے کہ ناانصافیوں کا حساب کبھی بھی آگ اور بارود سے برابر نہیں ہوتا۔
وہ غریب گھرانے کا ایک نوجوان تھا ، محروم اور معصوم۔ اسے اپنی محرومیوں کا حقیقی سبب معلوم نہ تھا۔ اسے انتقام کی جڑی بوٹیاں کوٹ کر نفرت کا جوشاندہ پلایا گیا تھا ۔
اب سے 104 برس پہلے اس سرب نوجوان نے آسٹروہنگیرین تخت کے وارث آرک ڈیوک فرانز فرڈیننڈ(Archduke Franz Ferdinand) پر گولی چلائی اور وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا ۔
گاوریلو پرنکپ(Gavrilo Princip) خوشی کے نشے میں سرشار تھا۔ جان رہا تھا کہ اس نے اپنے لوگوں کے مسائل حل کردیے ہیں ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی چلائی ہوئی گولی چار برس تک سفر کرتی رہے گی ۔ وہ ایک گولی یورپ کو خون میں نہلاتی رہے گی اور متعدد ملکوں کے 90 لاکھ سپاہی جان سے جائیں گے اور 10 ملین شہری آبادی ختم ہوجائے گی۔
جرمنی اور فرانس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا اور ان کی مرد آبادی کا 80 فی صد محاذ جنگ پر بھیج دیا جائے گا۔ شہر کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے مردوں سے خالی ہوجائیں گے۔ لاکھوں عورتیں جو سالہا سال سے کام کرنے کا حق مانگ رہی تھیں انھیں اجازت دی جائے گی اور وہ کارخانوں اور دفتروں میں کام سنبھال لیں گی۔ یہ وہ شعبے تھے جن سے محاذ جنگ کو جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔
یہ سب اس ایک گولی کا کیا دھرا تھا جو سرب نوجوان گاوریلو پرنکوپ نے یہ سمجھ کر چلائی تھی کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا حساب بے باق کر رہا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ناانصافیوں کا حساب کبھی بھی آگ اور بارود سے برابر نہیں ہوتا۔ آج 100 برس بعد اس جنگ کو شروع کرنے والوں اور اس میں لڑنے والوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچا ہے۔
یہ 1918 کی 11 نومبر تھی جب 11 بجے دن میں پہلی جنگ عظیم لڑنے والوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ آیندہ کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی۔ اس دعوے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ صرف 21 برس بعد پہلی جنگ عظیم سے کہیں زیادہ بھیانک اور خونخوار جنگ کا آغاز ہوا جسے ہم دوسری جنگ عظیم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
چند دنوں پہلے اس امن معاہدے کو یاد کرنے کے لیے پیرس میں ان تمام قوموں کے لیڈر اکٹھے ہوئے جنھوں نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا۔ پیرس میں فتح کی جو محراب بنائی گئی تھی اس کے سائے میں موجودہ فرانسیسی صدر ایمانیول میکرون موجود تھے جو اس عظیم الشان تقریب کی میزبانی کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہاں جنگ عظیم اول کے خاتمے کی صدی منانے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ آج ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ اب ہم امن کے لیے جنگ کرینگے۔
اس روز صدر میکرون کی تقریر امریکن صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن نے بھی سنی۔ وہ لوگ جنھوں نے اس تقریب کی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے، وہ ان دونوں صدور کی بدن بولی سے یہ جان رہے تھے کہ انھیں امن سے کوئی خاص دلچسپی نہیں اور وہ اس تقریب میں رسماً شریک ہو رہے ہیں۔
کئی دہائیوں سے یورپ کے مختلف ملکوں نے یورپ کی ایکتا کے لیے کام کیا ہے اور انتہا پسندانہ قوم پرستی اور نسلی نفرت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ یورپین یونین اسی جدوجہد کا ثمر ہے لیکن یورپی نوجوانوں کی نئی نسل اپنی تاریخ کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔
جرمن چانسلر اینجلا مرکل اپنی قوم اور نوجوان نسل کی طرف سے بہت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے کیا سیکھا ہے۔ جب تارکین وطن کا مسئلہ اٹھا تو اینجلا مرکل نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تارکین وطن کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے جس پر انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بننا پڑا ۔ اس کے برعکس اٹلی کے ڈپٹی پرائم منسٹر نے تارکین وطن کی کشتیاں اپنے ساحل پر نہیں لگنے دیں، اسی طرح ہنگری کے وزیر اعظم نے ان کو لینے سے انکار کرتے ہوئے اسے یورپ پر مسلمانوں کا حملہ کہا۔ یہ وہ معاملات ہیں جنھوں نے جرمن اور فرانسیسی رہنماؤں کو بہت پریشان کر رکھا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد یورپ کے مدبرین نے صرف یورپی یونین ہی کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ انھوں نے مشترک کرنسی، مشترک پاسپورٹ اور ایسے کئی اقدامات کیے جن سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یورپ واقعی ایک ہوگیا ہے لیکن اب وہ قوم پرست لیڈر ابھرے ہیں جو ہٹلر کی تعریف و توصیف کرتے ہیں، اس کی تصویروں کو سلیوٹ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی قومی بقا مل جل کر رہنے میں نہیں ہے۔
قوم پرستی کی ایک اونچی لہر آئی ہوئی ہے۔ اینجلا مرکل اور میکرون اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ میکرون نے بطور میزبان تقریر کرتے ہوئے کہا کہ 100 برس پہلے جو بھیانک جنگ لڑی گئی تھی، اس کے نشانات فرانس، یورپ، شرق اوسط اور دنیا کے تمام علاقوں سے مٹائے نہیں جاسکیں گے۔ اسی لیے ہمیں ان لوگوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جنھوں نے دور دراز زمینوں سے آکر ہماری آزادی کی جنگ لڑی تھی اور اس میں جان سے گئے تھے۔
میکرون نے کہا کہ حبِ وطن، قوم پرستی کی ضد ہے۔ قوم پرستی درحقیقت حبِ وطن کی نفی ہے۔ پرانے دیو جاگ رہے ہیں اور وہ انتشار اور موت کے بیج بونے کے لیے بے قرار ہیں۔ میکرون نے یہ بات زور دے کر کہی کہ تاریخ کبھی کبھی اپنے الم ناک واقعات کو دہراتی ہے۔ ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے امن کے لیے جدوجہد کو، اپنے لوگوں کی قربانیوں کو مکمل کردیا ہے، اس پر اپنے خون سے مہر لگا دی ہے، وہ اچانک سامنے آجاتی ہے، تمام قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں اور ہم ایک بار پھر خون کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔
میکرون نے اسی روز ایک 'امن فورم' کا افتتاح کیا جس میں جرمنی کی اینجلا مرکل نے بھی شرکت کی اور یہ کہا کہ ساری دنیا میں امن پھیلانے اور سکون قائم کرنے کے لیے ہمیں اپنی جان لڑا دینی چاہیے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ امن قائم کرنا روز بہ روز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
اس موقعے پر ہمیں ان بڑے ادیبوں کو یاد کرنا چاہیے جنھوں نے پہلی جنگ عظیم کے وقت اپنی حکومتوں کے خلاف آواز بلند کی اور امن قائم کرنے پر اصرارکیا۔ ایسے میں ہم رومین رولانڈ(Romain Rolland) کو کیسے بھلا سکتے ہیں جو جنگ عظیم اول کے زمانے میں کھل کر جنگ کی مخالفت کر رہا تھا اور اس کے جنگ مخالف مضامین سوئٹزرلینڈ کے مختلف اخباروں اور جرائد میں شایع ہو رہے تھے۔
رولانڈ کی فرانس میں شدید مخالفت کی گئی اور اسے 'غدار' کے لقب سے نوازا گیا لیکن اس کے پیر نہیں ڈگمگائے اور وہ استقامت سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہا۔ رولانڈ کی مانند دوسرے کئی یورپی اور امریکی ادیب تھے جن کا خیال تھا کہ جنگ انسانوں کی تمام خوبصورتیوں کو نگل لے گی اور اس کے خلاف لکھتے رہنا، آواز بلند کرنا اور اگر جیل جانا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ (جاری ہے)