ایسے لوگ ہماری قسمت میں کیوں

پاکستان کی بدخواہی اور بد خوئی کرنے میں بھارت نے تو کبھی کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid November 16, 2018
[email protected]

ڈاکٹر فرزانہ شیخ برطانوی تاریخ دان ہیں۔ نیویارک کی معروف جامعہ،کولمبیا یونیورسٹی، سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی۔ برطانیہ کے ایک مشہور تھنک ٹینک اور تحقیقی ادارے سے بطور اسسٹنٹ فیلو وابستہ ہیں۔کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اُن کی ایک کتاب Making Sense of Pakistanاپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے۔

موصوفہ نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ پاکستان کیوں اور کس طرح رفتہ رفتہ قائد اعظم محمد علی جناح کے آدرشوں کے برعکس مذہبی جماعتوں کی گرفت میں چلا گیا۔اس کتاب میں پاکستان مخالف کئی تعصبات در آئے ہیں۔ اِنہی تعصبات کی بنیادپر مصنفہ کو اکثر بھارت میں تبصروں اور تجزیوں کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

وہ آجکل ''سی پیک'' کے بارے میں بھی تحقیقات کررہی ہیں۔ظاہر ہے یہ تحقیقات ''سی پیک'' کے حوالے سے پاکستانی مقاصد و اہداف سے ہم آہنگ تو نہیں ہوں گی۔ ایک معروف بھارتی انگریزی اخبار (دی ہندو) میں سوہاسنی حیدر نے اُن کا مفصل انٹرویو شایع کیا ہے۔ انٹرویو میں فرزانہ شیخ نے جہاں حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے دھرنے والوں کے بارے میں مستحکم لہجہ اپنانے کی تحسین کی ہے، وہیں انھوں نے ِ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید بھی کی ہے۔یہ تنقید دراصل کسی بھی بھارتی اخبار کامحبوب اور مرغوب موضوع ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ شیخ نے سوہاسنی حیدر سے گفتگو کرتے ہُوئے۔

موصوفہ نے پاکستان کے خلاف بہت سی دیگر دل آزار باتیں بھی کہی ہیں لیکن اُن کا نزلہ زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ پر گرا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی مقامی اور عالمی بدخواہوں سے نجات نہیں ملی۔ جنہیںپاکستان میں بیٹھ کر پاکستان اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف تبرا کرنے کا موقع نہیں ملتا، وہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہ ''شوق'' پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسے افراد میں پاکستان کے ایک ایسے دانشور اور مصنف بھی شامل ہیں جو ایک مغربی ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بیان دینے، انٹرویو شایع کرانے، مضامین اور کتابیں لکھنے میں مصروف ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا شخص جس نے ساری عمر پاکستان کا نمک کھایا، اس کا تنخواہ دار سرکاری عہدیدار بھی رہا، اُس کا قلم اور زبان آخر کیسے اپنے ہی وطن کے خلاف زہر افشانی کر سکتی ہے؟

ایک اور صاحب بھی ہیں۔ یہ ادیب اور صحافی ہیں۔ آبائی تعلق اوکاڑہ سے ہے لیکن اب برطانوی شہری بھی ہیں۔ انگریزی زبان میں تین عدد ناول لکھ کر مغربی دنیا میں خاصی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے موصوف نے ''نیویارک ٹائمز'' میں ایک مضمون لکھا اور فرمایا:''پاکستانی سیاست پر دیانتداری سے لکھنے کے لیے پاکستانی لکھاریوں کو پاکستان سے باہر جانا پڑتا ہے۔'' حیرت ہے!!بیرونِ پاکستان بیٹھ کر ہمارے یہ پاکستانی بھائی آخر کس کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے انھیں اچھا بولنے اور اچھا لکھنے کی توفیق بخشی ہے۔کاش، وہ اس نعمت کو اپنے وطن کی خدمت کے لیے بروئے کار لاتے!

بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے ڈاکٹر فرزانہ شیخ ہی نے پاکستان اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسزکو ٹارگٹ نہیں کیا ہے، ہم باطنی طور پر بھی اس معاملے میں خاصے ''خود کفیل'' ہیں۔ بِلاوجہ اپنی ہی فورسز کو ہدفِ تنقید بنا لیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف بعض لوگوں نے دھرنے دیے اور پورا ملک منجمد کر دیا تو بھی اس پر بہت کچھ کہا گیا۔ یہ ایک انتہائی نامناسب اور نامطلو ب حرکت تھی ۔ بے اساس، بے فائدہ، بے ثمر۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اللہ کے فضل سے قطعی آزاد ہے۔

اس کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ تازہ دھرنے کے حوالے سے بھی جو مذاکرات ہُوئے، وہ سویلین منتخب حکومت کے ارکان اور دھرنا دینے والے فریق کے درمیان ہُوئے۔ سیکیورٹی فورسز کااس میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن اس کے باوصف افواجِ پاکستان کو اس معاملے میں رگیدنے اور گھسیٹنے کی نامسعود کوشش کی گئی۔ ظاہراً بھی اور بین السطور بھی۔ اِسے پاکستان اور پاکستان کے دفاع پر مامور قوتوں کے خلاف جسارت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟یہ پاکستان کی بد خواہی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

اور ہتھیلی پر سر رکھے ہمارا وہ جانباز سپاہی جو مملکتِ خداداد کی حفاظت کی خاطر پُر خطر سرحدوں پر کھڑا ہے، جب یہ منظر دیکھتا اور سنتا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس کے دل کی کیفیات کیا ہوتی ہوں گی۔مجھے بھارتی میڈیا دیکھنے اور سننے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ اس موقع کی تلاش ہی میں رہا ہُوں کہ کسی بھارتی اخبار میں یا کسی بھارتی نجی نیوز چینل پر بھارتی افواج کے بارے کوئی تنقیدی یا تنقیصی جملہ پڑھ سکوں یا سُن سکوں ۔ بسیار کوشش اور تلاش کے باوجود ایسا موقع راقم کو کم ہی مل سکا ہے۔

پاکستان کی بدخواہی اور بد خوئی کرنے میں بھارت نے تو کبھی کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی ہے۔ بھارتی پیٹ میں دن رات مروڑ اُٹھ رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستان میں قید بھارتی جاسوس کو رہا کروایا جائے۔ حالانکہ اب یہ ناممکن مہم ہے کہ کلبھوشن کو سزائے موت ہو چکی ہے اور اُس کا کیس اب عالمی عدالت میں جا چکا ہے۔ بھارت انشاء اللہ یہ کیس وہاں بھی ہار جائے گا۔

افواجِ پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا میں بے بنیاد خبریں چلا کر بالآخر بھارت ہی کو ندامت اُٹھانا پڑتی ہے اور اکثر اُٹھانا پڑتی ہے لیکن اس کی پروا کیے بغیر وہ اپنی ڈگر پر چلا جا رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان تو اللہ تعالیٰ کا روشن کردہ ایسا چراغ ہے جسے مخالفین اور کفر کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے مسائل زیادہ اوروسائل کم ہیں۔

عالمی سطح پر ہمارے دوستوں کی تعداد بوجوہ کم اور دشمنوں کی تعداد زیادہ ہے۔ہمارے خیر خواہ کم اور بد خواہ زیادہ ہیں۔ہماری اپنی غلطیاں بھی بے پناہ ہیں۔ افسوس مگر اُس وقت زیادہ ہوتا ہے جب غیر ممالک میں بیٹھ کر اس کے اپنے اس کی جڑوں میں بیٹھنے کی سازش کرتے ہیں۔ ابھی معلوم ہُوا ہے کہ امریکا میں بیٹھا ایک سابق پاکستانی اپنے ریڈیو شو کے ذریعے پاکستان کے خلاف مسلسل زہر افشانی کرتا رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کی کالی بھیڑیں کبھی بھی اللہ کے روشن کردہ چراغ، پاکستان، کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں لیکن اُن کی باتوں سے دل کو رنج پہنچتا ہے۔

ایک سابق پاکستانی، طارق فتح، کینیڈا میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف آگ اُگلتا رہتا ہے، اِسی لیے بھارت میں اُسے سرکاری مہمان بنایا جاتا ہے۔ کیا دُنیا میں کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جس کے (سابق) باسی یوں اپنے وطن کے خلاف بد خوئی کرتے ہیں؟اللہ نے ایسے لوگ ہماری قسمت ہی میں کیوں لکھے ہیں؟اور اب لندن میں ہمارے محبوب کرکٹر شاہد آفریدی نے مبینہ طور پر پاکستان کی مروجہ کشمیر پالیسی کے خلاف بیان داغ کر عجب قیامت ڈھا دی ہے۔ پاکستانیوں نے سخت ردِ عمل دیا ہے تو تردیدیں کرنے لگے ہیں۔ آفریدی صاحب کو لب کشائی سے پہلے احتیاط کرنی چاہیے تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں