نقیب اللہ قتل کیس مفرور اہلکاروں نے ’’ذہین پولیس افسران‘‘ کو چکمہ دیکر ضمانت کرالی

پولیس عدالت میں مفرور ملزمان کی روپوشی کی رپورٹیں جمع کراتی رہی،ملزمان حیدرآباد سے ضمانت لے کرکراچی آگئے۔


ناصر بٹ November 16, 2018
اے ٹی سی3 نے محمد انار، فیصل محمود، خیر محمد کی عبوری ضمانت منظور کرلی،عدالت نمبر 2 نے وکلا کو سنے بغیر ضمانتیں دیں،والد نقیب۔ فوٹو:فائل

نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی ساری پھرتیاں ناکام رہیں، تفتیشی پولیس عدالت میں مفرور ملزمان کی روپوشی کی رپورٹیں جمع کراتی رہی اور اہم مقدمات میں 3 مفرور ملزمان نے ضمانتیں کرالیں۔

نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے قتل کے مقدمات میں مفرور ملزمان میں سے 3 محمد انار، فیصل محمود، خیر محمد نے سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 3 کے روبرو پیش ہوگئے۔

تفتیشی افسر ایس پی ڈاکٹر رضوان نے ہمیشہ مفرور ملزمان سے متعلق عدالت کو یہی آگاہ کیا اور رپورٹ دی کہ ملزمان روپوش ہوگئے ہیں اور پولیس چھاپے مار رہی ہے، نقیب اللہ قتل کے مقدمات میں راؤ انوار کے شریک مفرور ملزمان اپنے ہی پیٹی بند بھائیوں کو چکمہ دے کر حیدرآباد ہائیکورٹ سے پہلے باآسانی ضمانت لے کر متعلقہ عدالت پہنچ گئے۔

ملزمان کے وکیل عابد الزمان ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ ان کے موکلین نے حیدرآباد ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت قبل از گرفتاری کرائی ہے، مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں اس لیے عدالت میں پیش ہوئے ہیں ضمانت دی جائے، انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نمبر 3 نے ملزمان کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 2 ، 2 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالت نے ضمانت منظور کرتے ہوئے سماعت 19 نومبر تک ملتوی کی ہے،نقیب اللہ قتل کے مقدمات میں 3 ملزمان کے پیش ہونے کے بعد مفرور ملزمان سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت، شعیب شوٹر سمیت 9 ہوگئی ہے۔

ہائیکورٹ نے نقیب اللہ کے والد کی درخواست پر مقدمات انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نمبر 2 سے 3 نمبر منتقل کردیے، اب ان مقدمات کی سماعت انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں کی جائیگی۔

نقیب اللہ کے والد نے انسداد دہشت گردی کی عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت نمبر 2 ہمارے وکلا کو سنے بغیر ملزمان کو ضمانتیں دے دیں، نقیب اللہ کے والد نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت دیگر ملزمان کی ضمانت منسوخ کرنے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں