توبہ کے بعد
وہ حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ہے کہ بدترین اور انتہائی گنہگار شخص بھی وہی تھا اور اب بڑا ہی نیکو کار بھی وہی ہے۔
ایک حکایت شایدآپ نے بھی کبھی پڑھی سنی ہو کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ نے خدا کے حضور عرض کیا کہ مجھے کسی ایسے شخص کی نشاندہی کی جائے جو گناہوں میں ڈوبا اور لتھڑا ہوا ہو۔ میں ایسے گنہگار کو دیکھنا اور اس سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ اس بزرگ کو ایک ایسے شخص کی نشاندہی کر دی گئی۔
جب یہ بزرگ اس شخص کے گھر پہنچے تو وہ گھر میں موجود نہیں تھا اس کی بیوی موجود تھی اس سے انھوں نے اس شخص کا پتہ پوچھا تو بیوی نے جل بھن کر جواب دیا کہ مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ضرور کسی جگہ کسی سے دنگا فساد کر رہا ہوگا یا شراب کے نشے میں دھت پڑا ہو گا یا پھر کسی قحبہ کے پاس ہوگا ۔گرتا پڑتا رات کو کسی وقت گھر آئے گا۔ آپ ایسے برے انسان سے کیوں ملنا چاہتے ہیں چلے جائیے ، اسے بھگتنے کے لیے میں ہی کافی ہوں۔
وہ بزرگ یہ سن کر وہاں سے چلے گئے اور انھیں اندازہ ہو گیا کہ یہ شخص کس قدر گنہگار اور بدکار ہے۔ اس بزرگ نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کچھ دن بعد ایک بار پھر عرض کیا کہ اب مجھے کسی بڑے ہی نیکوکار اور صالح شخص کا پتہ دیا جائے تا کہ میں اس کی زیارت کر سکوں ۔ اس بزرگ کو ان کی خواہش کے جواب میں پھر اسی شخص کا پتہ دیاگیا۔
وہ حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ہے کہ بدترین اور انتہائی گنہگار شخص بھی وہی تھا اور اب بڑا ہی نیکو کار بھی وہی ہے۔ وہ اس ذہنی کشمکش میں ایک بار پھر اس شخص کے گھر پر دستک دینے پہنچ گئے اس بار بھی ان کی ملاقات اس شخص کی بیوی سے ہوئی خود اس سے نہ ہو سکی۔ انھوں نے خاتون سے کہا کہ میں حیران ہوں کہ مجھے تو کسی نیکو کار کی تلاش تھی لیکن مجھے پھر تمہارے شوہر کے پاس بھیج دیا گیا ہے جس کے بارے میں خود تم نے اتنا کچھ بتایا تھا اور اس کی بدکاریوں کا ذکر کیا تھا ۔ عورت اس کا کوئی جواب نہ دے پائی تو بزرگ نے پوچھا کہ اپنے شوہر کے بارے میں کوئی اور بات بتاؤ شاید میری حیرت ختم ہو سکے۔
خاتوں نے کہا کہ اور تو مجھے کوئی بات معلوم نہیں لیکن رات وہ ذرا جلدی گھر آگیا تھا ہم دونوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ باتوں باتوں میں، میں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ سب سے بڑی چیز کیا ہے ۔ اس نے جواب دیا ''زمین'' ۔ میں نے پھر پوچھا اوراس سے بھی بڑی چیز بتاؤ تو اس نے جواب دیا کہ آسمان۔ میں نے کہا کہ اور آسمان سے بڑی چیز تو اس نے جواب دیا کہ پوری کائنات ۔ میں گپ شپ کے موڈ میں تھی، میں نے پوچھا کہ اور کائنات سے بھی بڑی چیز بتاؤ ۔
یہ سوال سن کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور اس نے بڑی مشکل سے یہ لفظ ادا کیے کہ اس سے بھی بڑے میرے گناہ ہیں۔ میں نے اس پر ایک بار پھر سوال کر دیا اور تمہارے گناہوں سے بڑی چیز کیا ہے اس نے ایک عجیب عالم اور غیر معمولی کیفیت میں جواب دیا خدا کی رحمت اور پھر بلک بلک اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور اسی حالت میں اس پر نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں یہ دیکھ کر ڈر گئی اور اسے اسی حالت میں بستر پر لٹا دیا اور وہ سو گیا ۔ آج صبح سویرے وہ اٹھ کر کہیں چلا گیا۔
بزرگ نے یہ قصہ سنا تو انھیں معلوم ہوا کہ کل پرسوں کا جو سب سے زیادہ گنہگار شخص تھا اور ہر کوئی اس پر انگلیاں اٹھاتا تھا اور اس سے کنارہ کش رہتا تھا وہی شخص توبہ کے بعد آج کا سب سے زیادہ نیکو کار شخص بن گیا ہے۔ توبہ کے بعد وہ یوں ہو گیا ہے جیسے ایک معصوم بچہ۔ بلاشبہ سچی توبہ تمام گناہوں کو دھو دیتی ہے اور انسان کو نئی زندگی عطا کرتی ہے ۔ لیکن ایسی نیکی اور بدی خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔
ہم کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں سنا سکتے ۔ دلوں کے بھید خدا جانتا ہے کیا معلوم کہ ہم جس شخص کے ظاہر کو دیکھ کراس کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کر رہے ہوں اور اس پر کوئی ایسا لمحہ طاری ہوچکا ہو جب اس کے گناہوں کو اس کی توبہ دھو چکی ہو شاید اس حکمت کا یہی مطلب ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
دوسری طرف ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو بظاہر نہایت نیک اور صالح دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے دلوں کی سیاہی ہم سے چھپی ہوئی ہوتی ہے اور بعض ایسے لوگوں کے بارے میں ایک دن کسی طرح کوئی ایسا انکشاف سامنے آتا ہے کہ لوگ دم بخود اور انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔ عمر خیام نے کسی ایسی ہی بات کو یوں بیان کیا ہے کہ ایک روز کسی شیخ نے فاحشہ عورت کو دیکھ کر اسے لعنت ملامت کی اور کہا تو یہ کیا کرتی رہتی ہے۔ اس کے جواب میں اس عورت نے کہا کہ میں تو جیسی بھی ہوں ویسی ہی دکھائی بھی دیتی ہوں کیا تو ایسا ہی ہے جیسا ظاہر میں دکھائی دیتا ہے ۔
ہم آج کے جس دور میں زندہ ہیں اگر یوں کہیں کہ یہی بدگمانیوں کا دور ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ ہر انسان اس وقت تک بے گناہ ہے جب تک اس کا گناہ ثابت نہ ہو جائے، آج معاملہ الٹ ہو چکا ہے اور ہر شخص کو گنہگار تصور کیا جاتا ہے جب تک وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کر دے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم کسی کی بے گناہی کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ ایک بار کسی بھی شخص پر کوئی الزام لگا دیں وہ کچھ بھی کر لے اس پر سے یہ الزام اترتا نہیں ہے۔ شاید ہم اندر سے اتنے برے ہو چکے ہیں کہ سب کو برا دیکھنا چاہتے ہیں یا یہ بھی کوئی ذہنی بیماری ہے جو دوسری کئی بیماریوں کے ساتھ اس قوم کو لاحق ہو چکی ہے۔