ہم دونوں ایک ہی دنیا کے باسی ہیں
راج گروور نے اپنی عمر کا عزیز ترین اور قیمتی حصہ فلم انڈسٹری کی نذر کیا ہے۔
گزشتہ دنوں نیو جرسی ہی سے مجھے ایک کال آئی آواز اجنبی تھی۔ میں نے پوچھا ''آپ نے کہاں فون کیا ہے؟'' ادھر سے جواب آیا ''کیا یونس ہمدم سے بات ہوسکتی ہے'' میں نے آواز کی اپنائیت کو محسوس کرتے ہوئے کہا ''جی میں یونس ہمدم ہی بول رہا ہوں۔''
دوسری طرف سے آواز آئی ''یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے آپ سے ملاقات ہوگئی ہم دونوں ایک ہی دنیا کے باسی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ آپ کا تعلق لاہور کی فلم انڈسٹری سے رہا ہے اور میں بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا ہوں۔
میرا نام راج گروور ہے'' چند لمحوں کے لیے یہ نام سن کر میں سوچ میں ڈوب گیا اور جلدی جلدی ماضی کے پنے پلٹنے لگا پھر میں نے بھی اپنی طرف سے خلوص و محبت کا پیمانہ چھلکاتے ہوئے کہا ''اگر میری یاد داشت کمزور نہیں ہے تو میں یہ کہنے میں غلطی نہیں کر رہا ہوں کہ آپ وہی راج گروور تو نہیں جو ماضی میں بمبئی فلم انڈسٹری کی جانی مانی شخصیت رہے ہیں اور آپ کا اداکار سنیل دت کے ساتھ ساتھ لیجنڈ اداکارہ نرگس اور سنیل دت فیملی سے گہرا تعلق رہا ہے۔'' ادھر سے بے ساختہ جواب آیا ''آپ ایک کروڑ جیت گئے ہیں آپ کا جواب درست ہے''
اب دونوں طرف سے بات چیت میں اپنائیت اور خلوص کی خوشبو اپنا اثر دکھا رہی تھی پھر میں نے انھیں بتایا کہ ''میرے والدین کا تعلق دہلی سے رہا ہے'' تو وہ بولے'' ارے واہ تو پھر آپ بھی جان لیں کہ میری پیدائش ملتان کی ہے۔'' میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا ملتان کی دو مشہور شخصیات میری واقف کار اور پسندیدہ شخصیتیں رہی ہیں دونوں کا تعلق موسیقی اور گائیکی کے شعبے سے ہے۔ایک ثریا ملتانیکر اور دوسرا تاج ملتانی بلکہ ملتان کی ایک اور یاد کا حوالہ میری لکھی ہوئی ایک فلم ''لال آندھی'' ہے جس کی شوٹنگ کے لیے میں فلم کے یونٹ کے ساتھ ملتان گیا تھا۔
ایک ہفتے تک ملتان کے ریگستانی علاقے میں فلم کی شوٹنگ رہی تھی وہ فلم راجھستانی زبان کا پس منظر رکھتی تھی اور اس فلم کے مکالمے اور چند گیت بھی میں نے لکھے تھے، یہ سن کر راج گروور نے مزید خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ اچھے لکھاری تو ہیں ہی مگر آپ بولتے بھی بہت اچھا ہیں۔ بس بمبئی سے واپس ہوتے ہی نیوجرسی میں یا پھر نیویارک میں ضرور آپ سے ملاقات رہے گی۔ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور۔ اور پھر دونوں نے فون پر آیندہ ملاقات تک کے لیے ایک دوسرے کو بائی بائی کر دیا۔
میں نے دوسرے دن ہی اپنی دونوں کتابیں ان کے بھیجے ہوئے پتے پر ارسال کر دیں اور دو دن کے بعد مجھے بھی ان کی ایک کتاب ''یادیں ذرا ذرا'' مل گئی تھی۔ وہ کتاب اسی رات میرے مطالعے میں شامل رہی۔ 500 صفحات کی ضخیم کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ میرے لیے ایک شاندار تحفہ تھی۔
میں نے آدھی کتاب ایک نشست میں اور بقیہ آدھی کتاب دوسری نشست میں پڑھ لی تھی وہ کہنے کو تو ایک کتاب تھی مگر سچ بات تو یہ ہے کہ وہ کتاب فلمی یادوں کا ایک خزانہ تھی، فلمی دنیا کی ایک سنہری تاریخ تھی، انڈین فلم انڈسٹری کی نامور شخصیات کی بیش قیمت تصویریں بھی اس کتاب کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ بعض تصاویر تو واقعی بڑی انمول نظر آئی تھیں، جس آرٹسٹ کے بارے میں جو مضمون لکھا تھا وہ اس کی ابتدائی زندگی کی ٹھوکروں کے تذکرے کے ساتھ شہرت کی بلندیوں تک جاتا تھا۔
کسی نے بمبئی کی فٹ پاتھ، بمبئی کی سڑکوں اور چھوٹی چھوٹی کھولیوں میں وقت گزارا، فاقوں سے دوستی کی، کب تک پیروں کی چپلیں اور جوتے گھستے رہے میلوں پیدل چلتے رہے، بسوں میں سفر کیا اور پھر شہرت کی شہزادی کو اپنے گلے سے لگایا۔
ان کی یادوں میں بڑے نامور فنکاروں کے ابتدائی زمانے کے قصے اور بے نامی کی داستانیں شامل ہیں۔ راج گروور کے کڑکی کے زمانے کا دوست بلراج ساہنی کا ساتھ کافی عرصے رہا پھر اپنے کیریئر کا آغاز اداکارہ نرگس اور سنیل دت کے فلم ساز ادارے اجنتا آرٹس سے اس طرح تعلق جڑا کہ نرگس اور دت خاندان سے گہرا رشتہ پیدا ہو گیا تھا۔ راج گروور آہستہ آہستہ اپنی نیک نامی اور صلاحیتوں کی وجہ سے نرگس اور سنیل دت کی گڈ بک کے پہلے صفحے پر آگئے تھے۔ اسی دوران ہدایت کار چیتن آنند سے لے کر فلم ساز و ہدایت کار جی آر چوپڑا تک سب کی پسندیدہ شخصیت بن چکے تھے۔
1982ء سے لے کر 1976ء تک اور پھر 1961ء تک بحیثیت پروڈکشن کنٹرولر، رائٹر، ایکٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی حیثیت میں بھی اپنے جوہر دکھاتے رہے۔ اسی دوران بے شمار فلموں نے ان کی صلاحیتوں کے سہارے کامیابی کے درشن حاصل کیے۔ خاص طور پر فلم ''طاقت'' ایک سے بڑھ کر ایک اور چار دیوار جیسی مشہور فلموں سے ان کا نام جڑا ہوا تھا۔
سنیل دت کے فلمساز ادارے میں رہتے ہوئے راج گروور نے انڈین فلم انڈسٹری سے کچھ ایسے آرٹسٹوں کو روشناس کرایا اور آگے بڑھایا کہ جن کے نام کے ڈنکے آج بھی انڈین فلم انڈسٹری میں بڑی شان سے بجتے ہیں۔ ایک لمبے قد کا عام سی شکل و صورت کا پتلا دبلا نوجوان راج گروور کے ساتھ کئی فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے پاس گیا۔ جسے شروع شروع میں سب نے اسے دیکھ کر یہی کہا راج گروور تم کس لڑکے کو ہیرو بنانے کے لیے اپنے ساتھ لیے لیے پھر رہے ہو یہ تو کسی زاویے سے ہیرو لگتا ہی نہیں ہے۔
مگر پھر ایک وقت آیا وہی عام سی شکل و صورت والا نوجوان امیتابھ بچن فلم انڈسٹری کا سپر اسٹار کہلایا۔ اسی طرح پنجاب سے ایک دیہاتی نوجوان دھرمیندر راج گروور کا دوست بنا، راج گروور نے دھرمیندر کے لیے بھی شب و روزکوششیں کیں۔ دھرمیندر کئی بار مایوس ہوکر واپس اپنے گاؤں لوٹ جانے پر تیار ہوگیا مگر پھر راج گروور نے اس کے دل میں ہمت اور حوصلے کی بے شمار شمعیں روشن کیں اور وقت کو دھرمیندر پر آخر ترس آہی گیا اور دھرمیندر ایک مہان اداکار کہلایا لاکھوں دلوں کا محبوب ہیرو بن کر شہرت کے آسمان کو چھونے لگا۔
راج گروور کی دوستی، گلزار، راکھی، رنجیت، شمی کپور، پریم چوپڑا، دیو آنند، راجیش کھنہ، ثریا، شبانہ اعظمی، بے بی تبسم جیسے ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے ان آرٹسٹوں کی جن کا دلچسپ انداز میں راج گروور نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے۔ راج گروور نے اپنی عمر کا عزیز ترین اور قیمتی حصہ فلم انڈسٹری کی نذر کیا ہے یہ جس شعبے سے وابستہ رہے اپنی ایک منفرد شخصیت بنائے رکھی۔
فلم انڈسٹری نے راج گروور کو عزت شہرت اور دولت سب ہی کچھ دیا۔ فلمی دنیا کے اس سنہری دور کے مناظر آج بھی ان کی آنکھوں میں کسی سمندر کی طرح موجزن ہیں۔ میں نے بھی راج گروور کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کی ذرا ذرا کوشش کی ہے ہم دونوں دراصل ایک ہی دنیا کے باسی ہیں۔ وہ دنیا جسے فلمی دنیا اور ایک طلسماتی دنیا کہا جاتا ہے۔