بدلتےعالمی حالات میں محنت کشوں کا کردار
اگر مزدور، طلبا اور نوجوان متحد ہو کر پاکستان میں کوئی ہڑتال کی کال دیتے ہیں تو انقلاب آ سکتا ہے
دنیا بھر میں ابھرنے والے واقعات اور تحریکیں بار بار یہ ثابت کرتی ہیں کہ سرمایہ داری اب متروک ہو چکی ہے اور دنیا کے عوام کے مسائل صرف عالمی اشتمالی نظام کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام سے بڑا واقعہ 2008 کا عالمی معاشی بحران ہے، جسے بورژوا میڈیا نے چُھپایا۔ میڈیا اگر ان حقائق کو چُھپاتا بھی ہے تو سماج میں ابلنے والے اور پھیلنے والے تضادات کو وہ کیسے روک سکتے ہیں۔ نتیجتاً آئس لینڈ دیوالیہ ہوا، پھر آئرلینڈ دیوالیہ ہوا، یونان دیوالیہ ہونے والا ہے، پھر اسپین، اٹلی اور پرتگال۔ اس طرح سے یورپ کا ایک ایک ملک معاشی بحران سے دوچار ہے۔
یونان، آئس لینڈ، آئرلینڈ، پرتگال، اسپین اور اٹلی کو بیل آئوٹ دینے کے باوجود ان کی معیشتوں کو نہیں سنبھال پائے۔ تعلیمی اداروں کی فیس بڑھا دی گئیں۔ پینشن اور سماجی خدمات کی سہولتوں کا خاتمہ کیا جانے لگا۔ فرانس میں 35 لاکھ افراد کا مظاہرہ ہوا۔ اس ہڑتال اور مظاہرے کے اثرات تیونس پر پڑے، روس میں تحریک چلی، پھر وال اسٹریٹ قبضہ تحریک چلی۔ یہ سب کچھ محنت کش طبقہ کا ردعمل تھا۔ ان تحریکوں سے دنیا کے11 ملکوں میں حکومتیں تبدیل ہو گئیں، جن میں ڈنمارک، سوئیڈن، اسپین، اٹلی، فرانس، آئرلینڈ، تیونس، مصر اور لیبیا وغیرہ شامل ہیں۔
فرانس کے انتخابی مہم میں کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی نمایندہ تنظیم بیلشتوں نے 17 فیصد پہلے مرحلے میں ووٹ حاصل کیے۔ اس کی اس مہم سے سوشلسٹ پارٹی پر دبائو بڑھا اور اسے بھی اپنے پروگرام میں ریڈیکل اقدام کرنے کا اعلان کرنا پڑا اور وہ کامیاب ہوئی۔ یونان میں سیکڑوں لوگ بھوک کے مارے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یونان میں پہلے مرحلے میں بائیں بازو کی کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے۔ ان کے رہنما سیریز نے کہا کہ ہم اقتدار میں آ کر قرضے ضبط کر لیں گے، جس کے نتیجے میں تمام لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں۔
وہ یونان کے یورپی یونین سے علیحدگی کی بھی بات کرتے ہیں۔ آج اگر یونان یورپی یونین سے نکلتا ہے تو کل اسپین، آئرلینڈ، اٹلی، پرتگال، آئس لینڈ اور فرانس کا نمبر آئے گا، پھر یورپی یونین ہی نہیں رہے گی۔ عالمی سامراج تمام تر گندگی یعنی بے روزگاری، مہنگائی اور بھوک کو سوشل ڈیمو کریٹک پارٹیوں کے ذریعے عوام پر مسلط کروا رہی ہے، جیسا کہ پاکستان میں بھیکروایا جا رہا ہے۔ مصر کے حالیہ انتخابات میں ناصری کے نمایندے کو دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا، جسے 22 فیصد ووٹ ملے، حسینی کے حامی کو 24 فیصد جب کہ اخوان المسلمین کو 25 فیصد۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں کس طرح یہ دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ریاست اور بورژوا جمہوریت ایک فراڈ ہے۔
انتخابات کے پہلے سے اخوان المسلمین کے امریکا سے مذاکرات ہوئے۔ ادھر افغانستان میں حزب اسلامی کا رہنما نیٹو کیمپ میں رہتا ہے، وہیں کھانا کھاتا ہے اور انھی کے خلاف لڑتا بھی ہے، جو چین کا دورہ کر کے آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ''پاکستان میں غربت تو ہے لیکن چین جیسی غربت کہیں نہیں دیکھی۔ ہندوستان کا گروتھ ریٹ 2010میں 8 فیصد تھا اب گھٹ کر 6 فیصد پر آ گیا ہے۔ مگرغیر ملکوں سے قرضے نہ ملنے کی وجہ سے اپنے ہی ملک کے بینکوں سے قرض لینا شروع کر دیا ہے۔ اب آئی ایم ایف سے اتنی جلدی قرض ملنا ممکن نہیں۔
اس لیے کہ اسپین، اٹلی، پرتگال اور یونان لائن میں پہلے سے کھڑے ہیں۔ اگر قرض دیا بھی تو سخت شرائط کے ساتھ لینے ہوں گے۔ پاکستان کی تمام جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔ سب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لینے اور سرمایہ داری سے اتفاق کرتے ہیں۔ سب دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے سے اتفاق کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں، نوکر شاہی اور فوج سب ایک دوسرے سے اور خود اپنی صفوں میں تضادات کے شکار ہیں۔ اس لیے کہ جب ترقی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں تو پھر حکمران طبقات خود چھینا جھپٹی میں آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔
پھر ان تمام تر پریشانیوں اور دکھوں سے نجات کے لیے پاکستان کا محنت کش طبقہ اس جبر کا خاتمہ کرے گا اور انقلاب کے ذریعے عوام کو آزادی اور خوش حالی دلائے گا۔ یورپی یونین میں جرمنی معاشی طور پر یورپ کا سامراج بنا ہوا ہے۔ پہلے ہٹلر فوجی طور پر مسلط ہوا تھا جب کہ آج مارکل انجیلا معاشی طور پر مسلط ہے۔ ادھر ایران، بحرین، لبنان، عراق، شام اور افغانستان میں سامراجی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں کبھی بھی 3 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لے پائیں۔ عوام مذہبی جماعتوں کے خیالات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔
جب ردِ انقلاب کا دور ہوتا ہے تو ایم ایم اے یا ایم کیو ایم بڑی جماعت نظر آتی ہے۔ مگر جب عوامی سیلاب آتا ہے تو لوگ چادر پھاڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ انتخابات کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اس پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انتخابات میں جانا چاہیے لیکن یہ سمجھ کر جانا چاہیے کہ کوئی انقلاب نہیں آ رہا ہے بلکہ محنت کش طبقہ اپنے نظریات کو آگے لے جانے کے لیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں براہِ راست انتخابات کے ذریعے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ یہاں تو 10 فیصد سے زیادہ لوگ ووٹ ہی نہیں ڈالنے جاتے۔
اگر مزدور، طلبا اور نوجوان متحد ہو کر پاکستان میں کوئی ہڑتال کی کال دیتے ہیں تو انقلاب آ سکتا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے جہاں ادارے نچلی سطح پہ خود مختار ہوں اور مرکزیت کا خاتمہ ہو۔ اس وقت پاکستان میں لوٹ مار کا کلچر ہے، اس کے سوا اس کا اور کوئی کام نہیںجبکہ نئے ادارے لوٹ مار کے بجائے عوام کی خدمت کو اپنا فرض قرار دیں گے۔انقلاب کے بعد تشکیل پانے والے ادارے تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں گے۔اس کی ایک بہترین مثال ہندوستان کی ہے جہاں ریاستی بالادستی اور امداد کے بغیر عوام اپنی خودکار تنظیموں کے ذریعے زراعت میں خاطر خواہ ترقی کر رہے ہیں۔
ہندوستان میں 35 لاکھ ایکڑ زمینوں پر دیسی کھاد اور قدرتی ادویات کا استعمال بلا کسی ریاستی امداد کے کیا جا رہا ہے۔ کیمیائی کھاد اور ادویات کے استعمال سے پہلے پنجاب، آندھرا پردیش اور دیگر علاقوں میں کینسر سمیت مختلف موذی امراض میں لوگ مبتلا ہوتے تھے اور اب ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ریاست انھیں امداد دے رہی ہے جو کیمیکل کھاد اور پیسٹی سائیڈز استعمال کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہندوستان کے ایک صوبہ ''سکم'' نے مکمل طور پر قدرتی کھاد اور ادویات کے ذریعے زرعی پیداوار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح ریاست کی مدد کے بغیر نیپال میں لاکھوں ایکڑ زمین پر کمیون (اجتماعی کاشت) کے ذریعے زرعی اور مچھلی کی کاشت کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاستی امداد و معاونت کے بغیر ادارے خود چل سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں۔