پرویزمشرف کے خلاف کارروائی کا حکومتی اعلان
وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6 کی کاروائی کے اعلان کے ساتھ...
وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6 کی کاروائی کے اعلان کے ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت ایک بار پھر افواہوں ،قیاس آرائیوں اور قانونی و آئینی موشگافیوں کا مرکز بن گیا ہے۔
ہر دوسرا نہیں پہلاشخص پوچھتا پھرتا ہے کہ میاں نوازشریف نے یہ فیصلہ کیونکر کیا۔کون کون مشورے میں شامل تھا اب کیا ہوگا ، پرویز مشرف اور ان کے خیر خواہوں کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ قانون اور آئین کی وضاحتیں اور تشریحات بھی اپنی اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق کی جارہی ہیں اور یہی ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم کوئی کام ، کوئی فیصلہ اور کوئی راستہ اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں۔ میاں نواز شریف کی جانب سے آرٹیکل6 والے اکھاڑے میں اترنے کے اعلان سے پہلے کی صورتحال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کے دل کے نہاں خانوں میں سابق صدر پرویز مشرف سے اپنی ذات کے حوالے سے اگر انتقام لینے کی کوئی معمولی خواہش موجود بھی تھی تب بھی دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ کرنے والے میاں نواز شریف اکیلے ہیں، ہرگز نہیں کیونکہ اس اکھاڑے میں اترنے کے فیصلے کا دوسرا بڑا کردار خود پرویز مشرف ہیں۔ میاں نوازشریف نے تو انتخابات میں اکثریت حاصل کرتے ہی گیارہ مئی کی رات تقریبا گیارہ بجے اپنی قبل از وقت وکٹری سپیچ میں کہہ دیا تھا کہ میرے دل میں کسی کے خلاف کچھ نہیں اور میں نے سب کو معاف کیا۔
اس کے بعد پورے ملک نے دیکھا کہ اس روز سے چوبیس جون تک عوام کے سامنے آنے والے ہر موقع پر میاں نواز شریف ایک پراسرار خاموشی اور شدید کشمکش بھرا چہرہ لئے بیٹھے رہے۔ پیر کے روز جب قومی اسمبلی میں انھوں نے آرٹیکل 6 کا بوجھ بظاہر اپنے کندھوں سے اتار پھینکا تو وہ مسکرائے اور شیخ رشید احمد نے بروقت تبصرہ بھی داغا کہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نوازشریف آج پہلی بار مسکرائے ہیں۔ اب آنے والا وقت بتائے گا کہ ان کا چوبیس جون کو اسمبلی میں مسکراناان کی مستقبل کی مسکراہٹوں اور ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کس حد تک کارآمد ہوتا ہے۔
آرٹیکل 6 پر عملدرآمد کا فیصلہ کرنے سے پہلے میاں نوازشریف کو سوچنے سمجھنے کا بہت وقت ملا۔ ان کے سامنے وہ ساری رپورٹس بھی موجود تھیں جن کے مطابق پاکستان کے برادر اسلامی ملک اور پرویز مشرف کے حمایت کار مغربی ممالک کے رابطے یوں ناکام رہے کہ جنرل (ر)پرویز مشرف اپنے روایتی موقف پر ڈٹے رہے کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں مجھے کوئی سیف ایگزٹ نہیں چاہیے، میں تمام مقدمات کا سامنا کروں گا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے سامنے توانائی کا بحران،ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اپنے انتخابی منشور کے مطابق ملک و قوم کو خوشحالی اور ترقی کے سفر پر گامزن کرنے جیسے چیلنجز زیادہ اہم تھے ، مگر آرٹیکل 6 کے اکھاڑے میں پرویز مشرف کا پہلے اتر جانا اور سپریم کورٹ کی جانب سے اٹارنی جنرل منیر اے ملک کے ذریعے حکومتی رائے پر اصرار کرنا ایسے عوامل تھے کہ میاں نوازشریف کے پاس بھی آرٹیکل 6 کے اکھاڑے میں اترجانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچاتھا ۔اب میان نوازشریف کو ان کے سیاسی کیریئرکے حساس ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان بھر میں سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کے جال بچھانا،گڈگورننس کے ذریعے ملک سے کرپشن میں نمایاں کمی کرنا،سرمایہ کاری کے ذریعے ملک میں تجارتی و کاروباری معجزے دکھانا میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کیلئے مشکل سے مشکل حالات میں بھی ممکن ہے مگرملک کے حساس اور آئینی معاملات میں ان کی ذات اور ان کی ٹیم کا ریکارڈ کچھ زیادہ بہترنہیں۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کی روایتی ضد کے باعث ان کی خیر خواہی کے خواہاںادارے بھی اب اس معاملے سے لاتعلق ہوچکے ہیں مگر صورتحال ایسی نہیں۔ سیاست، اقتدار،طاقت اور اہمیت ایسی بے رحم اصطلاحات ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔اور یہی آرٹیکل6 کے اطلاق کے اس کھیل میں ہونا ہے۔اب آنے والے دنوں میں قوم کو معلوم ہوگا کہ کون سی اندرونی طاقت اور کس کس کی نوعیت کے بیرونی دباؤ کس کے حق میں ہیں اور کس کے خلاف ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل (ر)پرویز مشرف کے علاوہ دیگرسٹیک ہولڈرز کی اثر پزیری بھی معلوم ہوگی اور ان کی قوت مدافعت کا بھی امتحان ہوگا۔ یہاں نوازشریف نے پہلی موو کے طور پر بہت اچھا کیا کہ اپنی کابینہ کو اعتماد میں لینے کے بعد قومی اسمبلی پہنچے اور اپنی مجبوریوں کا پٹارہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی سے منسوب کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے منتخب اداروں کے سامنے لارکھا۔درحقیقت انھوں نے اپنی مشکل دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ شیئر نہیں کی بلکہ ان کے سامنے بھی ببانگ دہل یہ امتحانی پرچہ رکھ دیا کہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے آپ نے جمہوریت اور آئین پاکستان پر شب خون مارنے والوں کا ساتھ دینا ہے یامیرا ساتھ دیتے ہوئے ان کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہے۔دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان ملک میں جاری توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے بھی بہت جلد توانائی پالیسی کا اعلان کرنے کا خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور ان کی ٹیم سے مسلسل رابطے میں ہیں اور وزیر اعظم خود اس پالیسی کے مطابق عام آدمی کو فوری ریلیف دینے کیلئے جلد از جلد بجلی کے نرخوں اور لوڈشیڈنگ میں مرحلہ وار کمی کا اعلان کریں گے۔
وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کی کارکردگی کے حوالے سے ابھی بحث جاری ہے اور بجٹ کی حتمی منظوری پر ہی معلوم ہوگا کہ وہ اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرس میں کم وبیش سات بار یہ باور کرانے کہ''میں گھبرا کے اپنے فیصلے بدلنے والا نہیں'' پر کس حد تک کاربند رہے ہیں۔کیونکہ پیش کئے جانے اور منظور کرائے جانے والے بجٹ کا حسب روایت ایک ہونا ضروری نہیں اور سب سے مشکل مرحلہ بجٹ میں طے کردہ اہداف کے حصول کے لئے فیصلوں پر عملدرآمدیقینی بنانا ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی آئی ایم ایف کی ٹیم تو پہلے ہی وفاقی بجٹ 2013-14 کو مسلم لیگ(ن) کے منشور سے متصادم قرار دے چکی ہے اور وزارت خزانہ کے ماہرین کو یہ بھی علم ہے کہ اپنی زیادہ سے زیادہ شرائط منوانے کیلئے یہ عالمی مالیاتی ادارے ہر ممکن صورت میں دباو ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام آدمی کو اپنے روزمرہ زندگی کے معاملات میں ریلیف نہ ملا تو اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آرٹیکل 6 پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں ، اگر ہوتا ہے تو اسے ہار جیت کی بحث سے بھی کوئی غرض نہیں،اسے اپنی روزمرہ زندگی میں آسانیاں مطلوب ہیں اور یہ آسانیاں باٹنے کیلئے نوازشریف اور ان کی ٹیم کو واقعاتی اور وقتی الجھنوں سے دامن بچاتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی حقیقی منزل کی طرف بڑھنا ہوگا۔