چیرمین پی سی بی کا پرکشش عہدہ سمجھوتہ یا انعام
سول سوسائٹی کے علم بردار اور انگریزی کے کہنہ مشق صحافی نجم سیٹھی نے چیرمین پی سی بی کا پرکشش عہدہ حاصل کرکے سمجھوتہ۔۔۔
سول سوسائٹی کے علم بردار اور انگریزی کے کہنہ مشق صحافی نجم سیٹھی نے چیرمین پی سی بی کا پرکشش عہدہ حاصل کرکے سمجھوتہ کیا ہے یا انعام لیا ہے،اس کا بہتر جواب تو وہ خود دے سکتے ہیں، لیکن سیاسی وصحافتی حلقوں میں حالیہ الیکشن میں ان کے کردار پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کے چیرمین پی سی بی بننے کے فیصلے کو پسند نہیں کیا گیا۔
جب وہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ تھے، اس حیثیت میں انہوں نے جو فیصلے کئے، اس وقت ہی بعض سیاسی جماعتوں نے ان کے کئی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کردیا تھا۔ اب اس حوالے سے لوگوں کے شکوک و شبہات پختہ ہوجائیں گے۔ اپوزیشن حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے نگران وزیرپانی وبجلی ڈاکٹر مصدق کو وزیراعظم کا مشیر بنایاگیا اور اب نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی بنادیا گیا ہے، اس سے سیاسی لوگوں کے تحفظات کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جس سے ان کی غیر جانبداری اور ایمانداری متاثر ہوئی ہے۔
کئی اپوزیشن جماعتوں نے نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیرمین بنانے پر اعتراضات کئے ہیں۔ ان کی تقرری کے معاملے کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر زیر بحث لایا گیا ہے اور سوال اٹھایا گیا کہ نجم سیٹھی کو کس خدمت کے تحت چیرمین بنایا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلیٰ کیلئے نامزد کیاتھا مگر وہ نواز لیگ کے زیادہ قریب ہوگئے، الیکشن کے دوران شریف برادران کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر 750پولیس اہلکار تعینات تھے اس سے ووٹروں اور امیدواروں کو یہ تاثر مل رہا تھا کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف ہی ہوں گے۔
نجم سیٹھی بطور نگران وزیراعلیٰ دیگر جماعتوں کے مطالبے کے باوجود شریف برادران سے سیکیورٹی واپس لینے کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اصرار بھی کیا کہ نواز شریف قومی لیڈر ہیں۔ انہیں سکیورٹی خدشات لاحق ہیں اور ان کی سکیورٹی پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے اس لئے وہ ان کی سکیورٹی واپس لینے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ اصل صورتحال یہ تھی کہ طالبان نے انتخابی مہم کے دوران ن لیگ کے جلسوں کو ٹارگٹ نہیں کیا اور تحریک طالبان نے جن تین ضامنوں کے نام لئے تھے ان میں نواز شریف، سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمٰن شامل تھے۔
پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے امیدوار سب سے زیادہ ٹارگٹ ہوئے جس کے باعث یہ جماعتیں اپنی انتخابی مہم مؤثر انداز میں نہیں چلا سکیں۔ نگران دور میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ٹیم کے بعض ارکان اہم عہدوں پر فائز رہے۔ نجم سیٹھی نے شریف برادران کے دباؤ پر چار اہم سیکرٹری تبدیل نہیں کئے تھے۔ ان میں خزانہ، صحت، تعلیم اور ہوم سیکرٹری شامل تھے۔ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پنجاب میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کنٹریکٹ افسران کو ہٹانے کے معا ملے پر مسلم(ن) کے دباؤکا شکار ہوکر رہ گئے۔ وہ پرکشش مراعات پر تعینات کنٹریکٹ افسروں کو ہٹانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے جبکہ پیپلزپارٹی ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو ہٹانا چاہتی تھی، گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے بھی گورنر ہاؤس میں نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی سے ملاقات کے دوران یہ معاملہ اٹھایا اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔
ا پوزیشن کے حلقے کھلے عام کہتے ہیں کہ نجم سیٹھی نے اپنے اور اپنی بیگم کے عہدوں کے لئے وفاداری اور تعاون کا یقین دلایا۔ نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن کیلئے مسلم لیگ(ن) سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشست پر ٹکٹ مانگی گئی تھی لیکن میڈیا میں آنے کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔ اطلاعات کے مطابق مخصوص نشست پر ٹکٹ سے انکار پر کسی یورپی ملک کی سفارت کاری کیلئے بھی کوشش کی گئی۔ نگران وزارت اعلیٰ کے دور میں ایسی اطلاعات عام تھیں کہ نجم سیٹھی نے شریف برادران سے کہا کہ آپ سمجھیں کہ دو ماہ کی چھٹی پر گئے ہیں، دو ماہ بعد دوبارہ آپ سے ہی ملاقات ہوگی۔ صدر زرداری کو بتایا گیا کہ نجم سیٹھی ڈبل گیم کررہے ہیں، وہ غیر جانبدار نہیں رہے اور وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے خلاف کام کررہے ہیں۔
صدر زرداری کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی ایسا کام نہیں کرسکتا، لیکن اب پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ثابت ہوگیا ہے کہ نجم سیٹھی اپنی مستقبل کی تعیناتی کیلئے کام کررہے تھے۔کیا صدر زرداری کا اندازہ غلط تھا یا وہ حقیقت سے آگاہ نہیں تھے؟ گزشتہ دنوں صدر زرداری سے دورہ لاہور کے دوران سیفما کے وفد نے ملاقات کی تھی ، اس وفد میں جگنو محسن بھی شامل تھیں، دوران گفتگو امتیاز عالم نے صدر سے کہا کہ محترم صدر صاحب ہمارے وفد میں پنجاب کی خاتون اول (جگنومحسن ) بھی موجود ہیں، انہوں نے ہمیں اپنے گھر ڈنر کی دعوت دے رکھی ہے ، کیا آپ بھی ساتھ جانا چاہیں گے، صدر نے طنزیہ انداز میں جواب دیا، مجھے مدعو نہ کریں ، اس سے ان (جگنومحسن )کا امریکہ میں سفیر بننے کا چانس ختم ہوجائے گا۔
صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی ایک اصول پسند صحافی سمجھے جاتے ہیں، عمر کے آخری حصے میں اپنی باوقار شخصیت کو متنازعہ نہیں بنا سکتے۔ چیرمین پی سی بی تعینات ہوکر انہوں نے شاید یہ پیغام دیا کہ سیاسی عہدے صحافت سے زیادہ عزت وتکریم کے حامل ہوتے ہیں۔ نجم سیٹھی نے یہ پہلی دفعہ نہیں کیا بلکہ پہلے بھی صحافت کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وہ فاروق لغاری کے دور میں ملک معراج خالد کے مشیر برائے احتساب و سیاسی امور مقرر ہوئے تھے ، صدر زرداری اور بے نظیر بھٹو پر جو مقدمات چل رہے ہیں، وہ ان کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ صدر زرداری نے جس شخص کو نگران وزیراعلیٰ کیلئے نامزد کیا ہے ، 3ماہ بعد اسی کے ہاتھوں ان کے انتہائی قریبی ساتھی ذکاء اشرف فارغ ہوجائیں گے۔
بے نظیر بھٹو بھی نجم سیٹھی پر اعتماد نہیں کرتی تھیں کیونکہ وہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین سمجھتی تھیں۔ نجم سیٹھی نواز شریف کے پہلے دور میں گرفتار ہوئے جس پر صحافتی برادری نے شدید احتجاج کیا اور جلوس نکالے مگر وہ خود کمپرومائز کرگئے اور صحافی برادری منہ دیکھتے رہ گئی۔اقتدار کا کھیل اور خواہش بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔ عہدوں ، ترقی اور مالی مفادات کے لئے اصول قربان کرنا معمولی کھیل ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک سچائی بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ اصول پسند انسان کبھی مرتا نہیں لیکن مفاد پرست کی زندگی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس کے عہدے کی مدت ہوتی ہے۔ نجم سیٹھی نے جو سودا کیا، وہ واقعی فائدہ مند ہے لیکن کسی کے لیے وہ دھوکہ منڈی ہے، بس اپنی اپنی سمجھ اور ظرف کی بات ہے۔