وزیرداخلہ کے کراچی میں قیام امن کے دعوے
اگرسندھ حکومت کراچی میں دہشت گردی روکنے میں ناکام رہی تو وفاقی حکومت کارروائی کرے گی، چوہدری نثار علی خان
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان پرسخت ردعمل ہواہے، جس میں انہوں نے کہاتھا کہ اگرسندھ حکومت کراچی میں دہشت گردی روکنے میں ناکام رہی تو وفاقی حکومت کارروائی کرے گی۔
اگرچہ چوہدری نثار علی خان نے اس بیان کے بعد تردید کردی لیکن سندھ میں وفاقی حکومت کی طرف سے مداخلت کے حوالے سے ابھی تک قیاس آرائیاں زورشور سے جاری ہیں۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اس بیان سے پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ سندھ میں گورنرراج نافذکرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور چوہدری نثارعلی خان کے بیان سے شرجیل انعام میمن کے خدشات کوتقویت ملی ہے۔بعدازاں وفاقی وزیر داخلہ کا ایک اور بیان سامنے آیا،جس میں انہوں نے کہاکہ اگرسندھ حکومت انہیں ذمہ داری سونپ دے تووہ کراچی میں امن قائم کرکے دکھادیں گے۔ بین السطور یہ بیان بھی اس بیان سے مختلف نہیں ہے ،جس کی تردید کی جاچکی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیادت کراچی میں قیام امن کے لیے جوکچھ کرنا چاہتی ہے، اس پر سندھ حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتااور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی نیت پرشک کیاجاسکتا ہے۔ حکومت سندھ کو اعتراض اس بات پر ہے کہ وفاقی حکومت خصوصاً وفاقی وزیر داخلہ پولٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہیں۔ وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی ختم کرنے کے لیے سندھ حکومت سے تعاون کرے اور وفاقی انٹیلی جنس اداروں کے پاس جومعلومات ہیں ،ان سے سندھ حکومت کو فوری طور پرآگاہ کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی گزشتہ پچیس، تیس سال سے جاری ہے۔ اس عرصے میں مسلم لیگ(ن) کی مرکز اور سندھ میں دومرتبہ حکومتیں بھی رہیں لیکن وہ حکومتیں بھی کراچی میں امن قائم نہ کرسکیں لہٰذابہتر یہی ہے کہ کراچی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتیں مل کرکام کریں۔
جس طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی کی بدامنی سے پریشان ہے اسی طرح پیپلزپارٹی کی قیادت بھی اس مسئلے کو پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ تصورکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے تیسری مرتبہ اس منصب کا حلف اٹھاتے ہی کراچی میں قیام امن کواپنی نئی حکومت کی اولین ترجیح قراردیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی ترجیحات ایک ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ دونوں کے درمیان اعتمادکی فضا کیسے قائم کی جائے۔ ماضی کے واقعات دونوں حکومتوں کے درمیان بداعتمادی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ماضی میں کراچی کی صورتحال کو منتخب حکومتوں کی برطرفی کے لیے استعمال کیا گیا۔
خصوصاً غیرجمہوری قوتوں نے کراچی کی بدامنی کو جمہوری قوتوں کے خلاف ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کیا۔1988سے1998تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی دو،دو حکومتوں کو غیرآئینی طور پر برطرف کرنے کے لیے کراچی میں خون ریزی کرائی گئی اور غیرآئینی اقدام کے لیے جوازبنایا گیا۔ مسلم لیگ(ن)کی دوسری حکومت کے دوران خودمیاں نوازشریف سے سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی برطرفی اور گورنرراج کے نفاذکا اقدام کرایا گیا۔سندھ میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت کو یہ خوف ہے کہ کہیں ماضی کی صورتحال کا اعادہ نہ کیاجائے۔ غیرجمہوری قوتیں اس انتظار میں ہوں گی کہ مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے درمیان کراچی کے ایشو پر اختلاقاف پیدا ہوں اور اس تصادم سے غیرجمہوری قوتیں فائدہ اٹھائیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 11مئی2013کے عام انتخابات کے بعدکراچی میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھ کربعض حلقے اس خیال کا اظہار کررہے ہیں کہ کچھ قوتوں کو پاکستان کی تاریخ کے پہلے پرامن جمہوری انتقال اقتداراوراس کے نتیجے میں پیداہونے والے جمہوری استحکام سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔
11مئی کے بعد اب تک 400سے زائد بے گناہ افرادکوموت کے گھاٹ اتاردیا گیا ہے۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم )کے رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے صاحبزادے انجینئر وقاص قریشی بھی شامل ہیں، جنہیں دہشت گردوں نے مسجد سے نکلتے ہی نشانہ بنایا۔ نئی منتخب حکومت کے قیام کے بعد کراچی میں 4مرتبہ یوم سوگ کے نام پر کاروبارزندگی معطل رہا۔ کراچی کی بدامنی سے بعض ملکی اور غیرملکی قوتوں کے مخصوص مفادات وابستہ ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں مرکز سے ہونے والی مہم جوئی حالات کو مزید خراب نہ کردے۔کچھ دنوں سے یہ خبریں بھی چل رہی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماسردار ممتازعلی بھٹوکوسندھ کا گورنربنایا جارہا ہے،جوپیپلزپارٹی کے ساتھ اپنی مخاصمت کے حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ ان خبروں سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کویہ بھی خدشہ ہواکہ مسلم لیگ (ن) کی
مرکزی حکومت ٹکراؤکی پالیسی اختیارکرنا چاہتی ہے۔ بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے کہ پیپلزپارٹی نے گزشتہ دور میں پنجاب میں سلمان تاثیراور سردار لطیف خان کھوسہ کوگورنربنایا لہٰذا اب مسلم لیگ (ن) سندھ میں ایسا گورنرلانا چاہتی ہے، جوسندھ حکومت کے لیے مسائل پیداکرسکے۔ وزیراعظم نوازشریف اوران کے دیگرساتھیوں کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے خدشات کو دور کریں اوراعتمادکی فضاقائم کریں۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ کراچی کی بدامنی کے ڈانڈے عالمی طاقتوں سے جاکرملتے ہیں۔کراچی میں امن صرف طاقت کے استعمال یا انتظامات سے قائم نہیں ہوسکتااور یہ بات وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ جس طرح سابق فوجی آمرجنرل (ر)پرویزمشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے مسلم لیگ(ن)کی قیادت کوملکی اور بین الاقوامی قوتوںکی طرف سے مزاحمت کا مقابلہ کرنا ہوگا، اسی طرح کراچی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھی کئی محاذوں پر ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں سے نبردآزماہونا پڑے گااور یہ کام وفاقی حکومت بہترطورپر کرسکتی ہے۔
انتظامی اقدامات کے لیے بھی وفاقی حکومت کو سندھ حکومت کی معاونت کرنا ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کے ایشوپرکوئی بھی سیاست نہ کرے کیونکہ دہشت گرد پاکستان کے خلاف حتمی جنگ کراچی میں ہی لڑنے کی تیاری کرچکے ہیں اور پاکستان کے دیگرعلاقوں میں بھی ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا کراچی کی بدامنی سے تعلق بھی مختلف شواہد سے ثابت ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ کوچاہیے کہ وہ بیانات دینے کی بجائے سندھ حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کرحکمت عملی طے کریں کیونکہ کراچی نہ صرف پاکستان میں ایک جمہوری عمل کے لیے مسلسل خطرہ ہے بلکہ پاکستان کے داخلی عدم استحکام کا بھی بنیادی سبب ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایم کیوایم کو حکومت میں شامل ہونے کے لیے جودعوت دی تھی،اس کا ایم کیوایم کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا،ایم کیوایم نے سندھ میںایک ریفرنڈم بھی کرایا تھا۔ اس ریفرنڈم کے نتیجے کا اعلان گزشتہ جمعہ کوہونا تھا لیکن رکن سندھ اسمبلی ساجدقریشی اور ان کے صاحبزادے کے قتل کی وجہ سے یہ نتیجہ روک لیا گیا ہے۔
تادم تحریراس نتیجے کے اعلان کی کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آئی تھی۔بعض اخبارات میں ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں لگی تھیں کہ ریفرنڈم میں شرکت کرنے والے لوگوں کی اکثریت نے ایم کیوایم کی کی حکومت میں شمولیت کی مخالفت کردی ہے۔ اب یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ نتیجے کا اعلان کب ہوگا۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران ایم کیوایم کے دوران بجٹ پر تنقید تو کررہے ہیںلیکن جوتلخی اپوزیشن کی دیگرتین جماعتوں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ(ن)اورتحریک انصاف اور حکمران پیپلزپارٹی میں دیکھنے میں آئی ہے، وہ تلخی پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان نہیں ہے۔دونوں جماعتوں کا رویہ ایک دوسرے کے ساتھ کسی حدتک دوستانہ ہے۔ اس سے سندھ کی سیاست پر نظررکھنے والے حلقے یہ قیاس آرائی کررہے ہیںکہ ایم کیوایم حکومت میں شامل ہوسکتی ہے۔