یہ بل اور براتوں کی آمد کے دن

ہمارے نئے آسودہ دور نے کئی ایسی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن کی تعمیل آپ چاہئیں یا نہ چاہئیں کرنی ہی پڑتی ہے۔


Abdul Qadir Hassan November 18, 2018
[email protected]

میں اکثر خود ساختہ چھٹی پر رہتا ہوں یعنی دفتر کی طرف سے چھٹی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود میں خود سے ہی چھٹی کر لیتا ہوں۔ چونکہ برسہا برس سے یہ کام کرتے ہوئے گزر گئے ہیں اس لیے ایڈیٹر حضرات بھی اس وجہ سے میرے ساتھ کچھ رعائت برت لیتے ہیں اور مجھے میری کسی سستی پر معافی اور در گزرسے کام لے لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں بھی کبھی سستی کر جاتا ہوں، کالم میں ناغہ کر لیتا ہوں یا اس میں غیر معمولی تاخیر کر جاتا ہوں۔

وقت ایسا آیا ہے کہ کئی کاموں میں بھی باقاعدگی نہیں ہو پاتی اور کبھی بے قاعدگی اور مکمل غیر حاضری بھی ہو جاتی ہے۔ نہ جانے کتنے عرصے سے اخبارات میں لکھ رہا ہوں لیکن میری نالائقی کہ نہ تو کسی اخبار نے میری زندگی میں شگفتگی پیدا کی اور نہ مجھے خوشحال کیا ہے۔

سچ پوچھیئے تو میں گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے خوش نصیب ساتھیوں کی لاکھوں روپے کی آمدنی کا حال پڑھ کر بے حد خوش ہوتا ہوں کہ اس قبیلے میں کوئی تو اپنے کام کی وجہ سے لکھ پتی بھی ہے، بلکہ سنی سنائی تو یہ بھی ہے کہ بات اب کروڑوں تک جا پہنچی ہے، جب کہ ہم عمر بھر لاکھ تو کیا ہزار پتی بھی نہ بن سکے سوائے اس دن کے جب تنخواہ ملتی ہے اور یہ دن بھی مہینے بھر بعد طلوع ہوتا ہے، مگر ایسے کہ ادھر اس کی ایک جھلک دیکھی اور ادھر گھر کے کسی فرد نے یاد دلادیا کہ فلاں خرچ فوری ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وقت ایسا بے رحم اور طوطا چشم ہے کہ ذرا بھر بھی رعائت پر تیار نہیں ہوتا بس فوری تعمیل اور عمل مانگتا ہے ورنہ یہ فوری عمل بھی دیر نہیں کرتا جس کی تعمیل کا مطالبہ کرتا ہے۔

اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہو ں تو مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب میں گائوں میں تھا اور اخراجات کے فوری تقاضوں اور تعمیل میں گھرا ہوا تھا، مگر ان میں تاخیر بھی ہو سکتی تھی۔ شہر کا معاملہ نہیں تھا کہ بل ادا کرو ورنہ اس کی افتاد بجلی جیسی کسی ضرورت پر پڑنے والی ہے۔

گائوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ پہلے تو بل وغیرہ اور ان کی حتمی ادائیگی کی تاریخ کا کوئی تصور نہ تھا بعد میں جب شہری زندگی کے بھیانک اثرات ہماری سادہ دیہی زندگی کو خراب کرنے لگے اور کاغذ کا ایک ٹکڑا جو زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق ہوتا اپنے ساتھ اس کی بروقت تعمیل کا مطالبہ کرتا اور مطالبہ بھی ایسا کہ اگر پورا نہ کرو تو تو پھر محرومی موجود یعنی بجلی کا بل بروقت ادا نہ ہو تو بجلی بند، کوئی رو رعائت نہیں اور کوئی تعلق اور رشتہ نہیں۔ سب کچھ اس بل کی تعمیل پر موقوف ہے۔

یہ ادا ہو تو پھر بجلی بھی موجود اور زندگی کی کوئی اور ضرورت بھی پوری ورنہ سب کی چھٹی۔ چنانچہ اس چھٹی کے خوف سے ہر حکم کی تعمیل ہوتی رہتی ہے اور جیب خالی بھی ہو تو تب بھی مانگ تانگ کر بل کی ادائیگی لازم ہے کیونکہ بل بڑا ہی طوطا چشم اور بے حیا ہوتا ہے کسی تعلق کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والا معاملہ ہے۔ بل بڑا ہی طوطا چشم واقع ہوا ہے اس حکم کو پورا کرو تو پھر عیش کرو ورنہ اس معاملے میں کسی رعائت کی گنجائش نہیں ہے اور یہ عیش بھی دوسرا بل آنے تک ہی ہوتی ہے جو راستے میں ہوتا ہے اور اپنے بے رحم الفاظ کے ساتھ آپ کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اس کے حکم کی تعمیل بھی ضرور ہو گی۔

یہ ایک بے حیا انسان کی تحریر ہوتی ہے جو اپنی تمام تر سختی کے باوجود تعمیل مانگتی ہے اور یہ تعمیل لازم ہے ورنہ بجلی پانی یا روز مرہ کی ضرورت کی کسی اور چیز سے آپ محروم ہو سکتے ہیں اور ایسی حالت میں کہ کوئی آپ کاپرسان حال نہ ہو گا کیونکہ جس کسی نے آپ کے ساتھ کوئی نرمی برتنی ہے وہ خود اسی آفت سے دوچار ہے اور ہر آدمی اس بل کی تعمیل پر مجبور ہے۔

ہمارے نئے آسودہ دور نے کئی ایسی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن کی تعمیل آپ چاہئیں یا نہ چاہئیں کرنی ہی پڑتی ہے۔یہ کسی کا قرض نہیں کہ وہ کچھ رعایت ہی کر دے گا بلکہ کاغذ کا ایک پرزہ اور اس کے پیچھے ایک طاقتور محکمہ ہے جو بم لے کر آپ پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور بم بھی ایسا جس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ یہ گرتا ہے تو پھٹتا بھی ہے اس کو پھٹنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ہر گھر میں موصول ہونے والے یہ بل بجلی پانی وغیرہ کی قیمت کا مطالبہ آپ کو گھر پر موصول ہوتا اور اسے بھاگم بھاگ جا کر کسی بینک میں جمع کرانا ہوتا ہے ورنہ آپ کی قسمت اور آپ کی مرضی۔ یہ قسمت آپ کی مرضی کی پروا نہیں کرتی اور اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں آپ کو بذات خود اس کا علم ہے اور ہر ماہ یہ علم تازہ ہوتا رہتا ہے اور آپ کو چارو ناچار اس کا انتظار بھی رہتا ہے کہ یہ بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

بہر کیف یہ ایک جگ بیتی بلکہ ہڈ بیتی ہے اس کی تفصیل میں جا کر آپ کے زخم تازہ نہیں کرنے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا ایک پہلو ہے جس سے مفر نہیں۔ اور ویسے بھی آج کل کے دن خوشی کے دن ہیں کہ ہر خاندان میں اس موسم میں شادیاں برپا ہیں براتوں کی آمد کے دن ہیں دلہنوں کی خوابوں کی تعبیر کے دن ہیں۔ آپ تیار رہیں کوئی برات بھی جھومتی جھامتی آپ کو سلام کرنے آ سکتی ہے۔ ان اچھے اور خوشی کے دنوں میں بلوں سے جان تو نہیں چھوٹ سکتی لیکن کچھ دن کے لیے کاغذ کے ان ٹکڑوں کو کہیں سنبھال کر رکھا جا سکتا ہے تا کہ ادائیگی کے وقت ان کو ڈھونڈنا نہ پڑے۔ اللہ آپ کو صبر، حوصلہ دے اور آپ پر رحم کرے۔ آمین!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں