عظیم غلطیاں
موجودہ بین الاقوامی ریاستی نظام کی ابتداء 17 ویں صدی کے وسط میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے ہوتی ہے...
موجودہ بین الاقوامی ریاستی نظام کی ابتداء 17 ویں صدی کے وسط میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے ہوتی ہے 1648میں ہونے والے اس معاہد ے میں ریاست کی متعین حدود ریاست اور شہریوں کے مابین تعلق نیز ریاستی امور سے مذہبی پیشواؤں کی علیحدگی کے بنیادی تصورات پیش کیے گئے تھے۔ دنیا میں جدید قومی ریاست ان ہی اصولوں کی بنیاد پر سامنے آئی ہے تاہم ریاست کے اس تصور کا ارتقا قریب 200 برس تک یورپ میں محدود رہا۔ جب بیسویں صد ی شروع ہوئی تو ایشیاء اور افریقا کے وسیع خطے نو آبادیاتی نظام کے تحت غیر ملکی غلامی کا شکار تھے۔ بہت سے ممالک میں بادشاہت برقرار تھی جب کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بہت سے ممالک میں نسل، جنس، عقیدے، زبان یا ثقافت کی بنیاد پر بہت سے شہر ی گروپوں کے ساتھ امتیاز ی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔
ہندوستان نوآبادیوں میں سب سے پہلا ملک تھا جہاں حق خودارادیت کے اصول کی بنیاد پر پر امن سیاسی مکالمے کے ذریعے آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی۔ اس سے قبل 1776میں برطانوی بادشاہت سے امریکا کی آزادی خالص عسکر ی جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ قومی ریاست کی تشکیل میں زبان، ثقافت، جغرافیہ، مشترک تاریخ، نسلی شنا خت، عقائد جیسی بہت سی شناختیں کار فرما ہوتی ہیں لیکن قومی ریاست ان تمام شناختوں کے باہم رشتوں سے سامنے آنے والا ایسا دستوری نظام ہے جس میں ان تمام شناختوں کو تسلیم کرتے ہوئے بھی کسی ایک شناخت کو کلیدی حیثیت نہیں دی جاتی ریاست مختلف شناختیں رکھنے والے انسانوں کے مابین ایک رضاکارانہ عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں انسانوں کا کوئی ایسا اجتماع نہیں جس میں زبان، نسل، عقائد، ثقافت، سیاسی خیالات یا معاشرتی اقدار اور اعتبار سے سو فیصد یکانگی پائی جاتی ہو عقیدے، مذہب، زبان کی بنیاد پر کسی ریاست کی تشکیل ایک ایسی کو شش ہے جو بنیادی طور پر انسانوں کے باہم عمرانی معاہد ے کے منافی ہے۔ ہندوستان پر مختلف نسلی اور علاقائی شناختیں رکھنے والے مسلمان خاندانوں نے آٹھ سو برس تک حکومت کی۔ یہ حکومتیں مطلق العنان شخصی حکمرانی کا نمونہ تھیں۔ یہ حکمران عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ضرور تھے لیکن ان کی حکومتوں کو اسلامی کہنا ہر گز درست نہیں ہو گا۔ ہندوستان کے سب مسلمان ان حکومتوں میں شریک تھے اور نہ ہی ان حکومتوں میں قوانین اور بندوبست ریاست کا اسلامی عقائد سے کوئی تعلق تھا۔
تاریخی ارتقاء کے نتیجے میں ہندوستان کے کچھ حصوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور کچھ حصوں میں کم، اٹھارویں صدی میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستان میں جنوب مشرق اور شمال مغرب میں تعلیم، تجارت، صنعتی پھیلاؤ اور تمدنی ارتقاء کے اعتبار سے واضح فرق پیدا ہوا۔ مسلمان اشرافیہ کی بڑی تعداد غیر مسلم اکثریت کے علاقوں میں آباد تھی اور اپنی مذہبی شناخت کی بنیاد پر مراعات یافتہ معاشی حیثیت رکھتی تھی انگریزوں اور برطانوی حکومت میں عقیدے کی بنیاد پر کسی امتیازی حیثیت کے بغیر کاروبار ریاست شروع ہوا تو وسیع زرعی زمین پر قابض مسلم اشرافیہ کو اپنے سیاسی اقتدار، معاشی مفادات اور معاشرتی رتبے کے بار ے میں عدم تحفظ پیدا ہوا۔بیسویں صدی میں غیر ملکی حکمرانوں سے نجات کے لیے سیاسی جدوجہد ایک بالکل نیا تجربہ تھا آزادی کی یہ لڑائی اٹھارہویں صدی کے روشن خیال فلسفے انیسویں صدی کے انسان دوست سیاسی افکار کے بعد سامنے آنے والے سائنس کے علم کی بنیاد پر لڑی جا رہی تھی اس میں مذہب یا نسل کی بنیاد پر قوموں کی تشکیل کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
جدید ریاست میں مذہبی تصورات کی بنیاد پر سیاست ایک لا حاصل مشق ہے۔ قومی ریاست ایک جدید عمرانی اور سیاسی تصور ہے۔ قومی ریاست کا ارتقا سیاسی عمل کے نتیجے میں آگے بڑھتا ہے ہندوستان کی اکثریت نے 1885میں آل انڈیا کا نگریس کی بنیاد رکھ کر غیر مذہبی سیاست کی طرف قدم بڑھایا۔ مسلم اشرافیہ نے دو عشرے کے بعد 1906میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ہندوستان تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ایک پسماندہ ملک تھا اور اس میں بھی مسلمان کئی لحاظ سے پس ماند ہ قوم تھی انھوں نے پہلی عالمی جنگ کے بعد تحریک خلافت شروع کی جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تاریخ کو از سر نو لکھنے کی کوشش کی گئی جس میں ماضی کے تجزئیے کی بجائے مذہبی عصبیت کو دخل تھا مذہبی بنیاد پر واحد سیاسی ملت کا ایک ایسا تصور پیش کیا گیا جسے ابن خلدون صدیوں پہلے رد کر چکے تھے ایک سیاسی جماعت کے طور پر مسلم لیگ کا جمہوری تشخص کمزور تھا اس کی قیادت کا بڑا حصہ جاگیردار اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ مسلمان عوام سیاسی طور پر پسماندہ تھے ان میں تعلیم کی کمی تھی اور وہ تجارت اور صنعت جیسے شعبوں میں بھی کمزور تھے۔ 1940 میں جس قرار داد کی رو سے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا اس میں مسلمانوں کا ذکر تو موجود ہے لیکن کہیں بھی اسلام، شریعت یا قرآن و سنت کی اصلاحات استعمال نہیں کی گئیں پاکستان کی تحریک مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی تحریک تھی اور مسلمان مذہبی رہنماؤں کی بڑی تعداد اس کی مخالف تھی۔
16 جولائی 1947کو برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کو تقسیم کر کے دو آزاد مملکتیں قائم کرنے کے لیے جس قانون کی منظوری دی گئی اس کے متن میں کسی مذہب کا کوئی ذکر نہیں۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کی تقسیم آل انڈیا کانگریس کا مطالبہ تھا جب کہ مسلم لیگ پورے پنجاب اور بنگال کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھی اس مطالبے کی رو سے پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی۔ صرف پنجاب میں غیر مسلم آباد ی 44 فیصد تھی تقسیم ہند کے منصوبے میں تبادلہ آبادی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ صوبوں کی تقسیم کے باوجود پاکستان میں غیر مسلم آبادی 40 فیصد کے قریب ہوتی۔
مسلم لیگ کی قیادت آخری وقت تک پنجاب اور بنگال کے ہندو، سکھ اور مسیحی باشندوں سے حمایت کی طلبگار رہی اور انہیں ہر قسم کے سیاسی اور معاشی تحفظ کا یقین دلاتی رہی۔ نظریہ پاکستان کی اصطلاح پہلی بار 1960کی دہائی میں سننے میں آئی جب کہ بانی پاکستان قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے کبھی نظریہ پاکستان کی اصطلاح استعمال نہیں کی تھی۔ اس کا حتمی مقصد پاکستان میں جمہوریت کا راستہ روکنا تھا۔ پاکستان میں ماضی میں ہونے والی عظیم غلطیاں اب ایک ایسے مضبوط پھندے کی صورت اختیار کر چکی ہیں جو ریاست اور معاشرے کے گلے میں آویزاں ہے۔
مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا کینسر پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ آج علم کی بنیاد سائنس ہے۔ سیاسی اقتدار کا ماخذ عوام کی رائے ہے۔ پاکستان میں سیاست اور مذہب کا خلط ملط ہونا ایک بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جمہوریت کے بغیر انسانی ترقی ممکن نہیں۔ ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو سیاست اور مذہب کو الگ الگ کرنا ہو گا۔