صدرِ مملکت سے ملاقات اور طاہر داوڑ کی شہادت
متبسم اسلوب میں اور پوری بات غیر مبہم انداز میں کہنا صدر صاحب کا خاصہ ہے
لاریب پریذیڈنٹ ہاؤس کی عمارت اپنے جاہ و جلال اور شان و شکوہ میںنرالی ادا رکھتی ہے۔ پرائم منسٹر ہاؤس بھی اپنی وسعت اور جمال میں ایسی ہی شان رکھتا ہے۔ جب بھی ایوانِ صدر جانے کا اتفاق ہوتا ہے، ہمیشہ یہی احساس ذہن پر غالب رہتا ہے :کیا یہ اُس ملک کے سربراہ کی رہائش گاہ یا دفتر ہے جس ملک کا بال بال قرضے میں جکڑا پڑا ہے؟ جس کے وزیر اعظم کو اپنے ملک کے مالی معاملات چلانے اور پہلے سے لیے گئے قرضوں کے سُود کی ادائیگی کے لیے پھر قرض لینے کے لیے دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے؟ جسے قرض اور معاشی امداد نہ ملے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں؟گزشتہ روز نمازِ مغرب کے بعد ایوانِ صدر میں داخلے کے وقت ایک بار پھر یہی خیالات اور سوالات ذہن میںگردش کرتے رہے۔
اِس عمارت میں جنرل ضیاء الحق ایسا متدین حکمران بھی آتا جاتا رہا، غلام اسحق خان ایسا جُز رس انسان بھی اِس کا باسی تھا اور محمد رفیق تارڑ ایسا دین پسند شخص بھی اس کا مکین رہا لیکن اس عمارت کے طور اطوار نہیں بدلے۔ اس عظیم الشان عمارت کے ایک سابق رہائشی آصف علی زرداری کی تو اپنی ادائیں تھیں۔اُن کے دَور میں ایوانِ صدر پر ایک پیر صاحب کی بھی یکساں حکمرانی رہی۔تبدیلی کی دعویدار نئی حکومت میں تشریف لانے والے صدر صاحب کی آمد سے اِس پُر شکوہ عمارت کے انداز بھی کچھ بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔ ایوان ِ صدر کے نئے مکین، محترم ڈاکٹر عارف علوی، کی طرف سے مدعو کیے گئے اخبار نویسوں میں ہم بھی شامل تھے۔کوئی زیادہ لوگ نہیں تھے۔ تقریباً ڈیڑھ درجن کے قریب چنیدہ صحافیوں کے رُوبرو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب ریلیکس مُوڈ میں تھے۔ اُن کے دائیں پہلو میں وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری اور بائیں جانب وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی افتخار درانی براجمان تھے۔
فواد چوہدری نے دورانِ گفتگو جب یہ کہا کہ ''مَیں صدر صاحب کی موجودگی میں کوئی غیر محتاط بات نہیں کر سکتا '' تو اخبار نویسوں میں سے کسی نے کہا کہ ویسے بھی آپ کو غیر محتاط گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جناب ِ صدر کی موجودگی میں بھی ہمارے نوجوان وزیر اطلاعات مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہُوئے وہی لہجہ اور آہنگ اختیار کیے رہے جس لہجے میں وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بروئے کار آتے ہیں۔ پاکستان کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں حکومت کو جس تگڑی اور توانا اپوزیشن کا سامناہے، شائد فواد چوہدری کو بھی بہ امرمجبوری اپنی طلاقتِ لسانی کے ویسے ہی جوہر دکھانا پڑ رہے ہیں۔ صدرِ مملکت عارف علوی صاحب متحمل مزاج اور ٹھنڈے لہجے کے حامل ہیں۔ صدرِ مملکت کو ایسا ہونا بھی چاہیے۔ وہ ہمارے سوالوں کے جواب بھی اپنے مخصوص اور معروف اسلوب میں دیتے رہے لیکن اُنہی کی موجودگی میں جب وزیر اطلاعات نے یہ کہا کہ ''پارلیمنٹ اور قبرستان میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے'' تو اُن کی بیباکی سب کے لیے قابلِ دید تھی۔
متبسم اسلوب میں اور پوری بات غیر مبہم انداز میں کہنا صدر صاحب کا خاصہ ہے۔مخاطب پر اپنی بات مسلّط کرنا اُن کا اسٹائل نہیں ہے۔ ایوانِ صدر کے شائد وہ پہلے مکین ہیں جو برسہا برس سیاسی کارکن بھی رہے۔ عمران خان کے ابتدائی اور دیرینہ ساتھیوں میں سے ایک، لیکن اب اس کو شش میں ہیں کہ صرف پی ٹی آئی کے صدر نہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور سارے پاکستان کے صدر بن کر دکھائیں۔ رضا ربانی ایسے سیاست کار خواہ مخواہ اُن کے بیانات میں سے اپنی مرضی کے متنازع معنی برآمد کرنے کی سعی تو کرتے رہتے ہیں لیکن صدر صاحب ردِ عمل کا شکار نہیں ہوتے۔ اس ملاقات میں بھی صحافیوں کی جانب سے ایسے ہی بیانات کاذکر کیا گیا تو صدرِ مملکت اپنے مخصوص لہجے کی بدولت سوال پوچھنے والے کے غچے میں نہ آئے۔
ہاں، مسکراتے ہُوئے اور خوشگوار آہنگ میں یہ ضرور کہا: ''علامہ اقبال علیہ رحمہ اگر آج شکوہ، جوابِ شکوہ لکھتے تو شائد انھیں بھی مزاحمت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔'' ہماری سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بوجوہ حرب و ضرب کو جو ماحول بن چکا ہے ،اس کی موجودگی میں صدر ِ مملکت دانستہ نہیں چاہتے کہ اُن کی طرف سے کوئی ایسا جملہ یا بیان سامنے آئے جو جلتی پر تیل چھڑکنے کا مصداق بن جائے؛ چنانچہ ملاقات کے دوران اُن کا یہ کہنا باعثِ طمانیت سمجھا گیا کہ ''مَیں اسمبلی میں موجود اپنے دفتر بھی باقاعدہ جایا کروں گا، سب پارٹیوں کے ارکان سے یکساں ملاقاتیں کروں گا، سب کو اپنا بنانے کی کوشش کی جائے گی۔'' اگر اس خواہش کو عملی شکل دے جائے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ایوانوں کے وابستگان آستینیں چڑھائے بغیر پاکستان کے بہتر مستقبل کی خاطر آگے بڑھ سکیں گے۔ اور جن بیچاروں نے انھیں اپنے ووٹ دے کر ان ایوانوں میں بھیجا ہے، شائد اُن کے بھلے کی بھی کوئی بات ہو سکے۔ عوام دوستی کی قانون سازی میں عوام کا ساہ بھی سَوکھا نکلنے کی کوئی سبیل بن سکے۔
دورانِ مکالمہ صدر صاحب نے اِن افواہوں کی بھی تردید کی کہ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے لیے کوئی سوچ کہیں پنپ رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس ترمیم میں بڑی محنت کی گئی تھی۔ کوئی اس کے خاتمے کا سوچ بھی نہیں رہا۔ انھوں نے بڑی دردمندی سے کہا کہ ہم ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں، ہمارا معاشرہ بھی اسلامی ہے لیکن یہ زیادتی ہے کہ ہماری خواتین کو عمومی طور پر جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا لیکن اب موجودہ حکومت میں ایسی قانون سازی ہو رہی ہے کہ خواتین کو جائیداد میں سے اُن کے جائز حصے سے کوئی محروم نہیں کر سکے گا۔ اسلامی قوانین کے مطابق اگر ایسا ہو جائے تو یہ صدرِ مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کی ایک عظیم المرتبت قومی خدمت ہو گی۔ اسلامی مملکت کی سچی تصویر!
یہ بات واضح طور پر محسوس کی گئی کہ گفتگو کے دوران صدر صاحب اور صحافیوں کے درمیان تقریباً چالیس فٹ کا فاصلہ تھا۔کھانے کی میز پر مگر صدرِ مملکت اور مدعو صحافیوں کے مابین یہ فاصلہ سمٹ گیا۔ کھانا ایسا تھا جیسے زیریں متوسط طبقے کے کسی بھی گھر میں مہمان کی آمد پر ''اچیچا'' پکایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کی کفائت شعاری کا عکاس۔ جنابِ صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کے اوّلین لمحات سے لے کر ڈائننگ ٹیبل تک ایس پی طاہر داوڑ صاحب کی شہادت کا واقعہ گفتگو پر چھایا رہا۔ شہید طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرکے افغانستان لے جا کر شہید کیا گیا ہے۔ افغانستان کا صوبہ، ننگر ہار، اُن کی جائے شہادت بنا ہے۔ اسلام آباد سے ننگر ہار کا فاصلہ تین سو کلومیٹر بنتا ہے۔
افسوس کہ اس طویل سفر میں اغوا کاروں کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ اُنیس دن وہ غائب رکھے گئے لیکن حکومت اور دیگر ادارے مغوی اور اغوا کنندگان سے لاعلم رہے۔ صدر صاحب سے ملاقات کے دوران وہاں براجمان وزیر اعظم کے میڈیاایڈوائزر، افتخار درانی، شہید طاہر داوڑ بارے سوالات کے جواب بین السطور ہی دیتے رہے۔ شہیدپولیس افسر کی گمشدگی کے حوالے سے وائس آف امریکا کو دیا گیا اُن کا ایک متنازع انٹرویو بھی زیر بحث رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلام آباد ایسے ''سیف سٹی'' سے ایس پی رینک کے ایک پولیس افسر کے اغوا کیے جانے اور پھر اُن کی شہادت کے المناک سانحہ نے صرف وفاقی دارالحکومت ہی کے باسیوں کی نفسیات پرنہیں بلکہ ملک بھر کے شہریوں کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔
اس سانحہ کے دوران افغانستان نے سرکاری سطح پر پاکستان کے خلاف جو غلیظ کھیل کھیلا ہے، پاکستانی عوام اسے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ شہید طاہر داوڑ کا جسدِ خاکی پاکستان کے حوالے کرنے کے دوران فی الواقعہ افغان حکام نے سفارتی، عالمی اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ افغانستان کو اب بجا طور پر ''اغوانستان'' کہا جانا چاہیے۔ طاہر داوڑ شہید کے واقعہ سے پہلے سابق وزیر اعظم پاکستان، یوسف رضا گیلانی، اور سابق گورنر پنجاب، سلمان تاثیر، کے بیٹوں (علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر) کو بھی اغوا کر کے افغانستان ہی لے جایا گیاتھا۔افغانستان کے لیے پاکستانی سفیر، طارق عزیز الدین، کو بھی افغانیوں ہی نے اغوا کیا تھا۔ طاہر داوڑ کو شہید کرکے بڑی بہیمیت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ پچھلے38 برسوں سے پاکستان اپنا پیٹ کاٹ کر تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کے پیٹ پالتا آرہا ہے۔ اور اب پاکستان اور پاکستانیوں کو افغانیوں اور افغانستان سے یہ صلہ مل رہا ہے؟