خوف کی نفسیات
خوشی کے لیے جب جواز تلاش کیے جاتے ہیں تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ کیونکہ خوشی بے جواز ہے۔
KARACHI:
خوشی کے لیے جب جواز تلاش کیے جاتے ہیں تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ کیونکہ خوشی بے جواز ہے۔ اس کا تعلق بیرونی عوامل سے زیادہ اندر کی دنیا سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر خوشی سبب سے حاصل کی جاتی ہے تو وہی سبب جو خوشی کا باعث بنتا ہے دکھ میں بھی بدل جاتا ہے۔ توقعات انسان کی سوچ کے برعکس ہونے لگیں تو تشویش، افسردگی و بیزاری دل میں بسیرا کر لیتے ہیں اور انسان کا دل کسی بھی کام میں نہیں لگتا۔ انسان جب حد سے زیادہ فکر مند رہنے لگے اور مستقل خوف اس کا پیچھا کرتا رہے تو وہ Anxiety Disorders یعنی تشویش کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اسے اضطراری عارضہ لاحق رہنے لگتا ہے۔ کوئی خوف و اندیشہ اسے مستقل پریشان کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو خوف ایک فطری احساس ہے۔ خوف اگر حد سے بڑھ جائے تو شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
حد سے زیادہ پریشانی نیوراسس کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو کوئی جسمانی بیماری نہیں ہے بلکہ حد سے زیادہ حساس لوگ معاشرے میں مس فٹ ہو جاتے ہیں۔ حساس انسان زیادہ تر داخلی مسائل میں الجھے رہتے ہیں انھیں بہت چھوٹا مسئلہ بہت بڑا محسوس ہوتا ہے۔ اور ان کی سوچ ایک ہی محور کے اردگرد گھومنے لگتی ہے۔ بار بار ایک ہی بات مسلسل سوچنے سے وہ سوچ و خیال ذہن میں اور بھی پختہ ہو جاتے ہیں۔ خوف کی کتنی ہی قسمیں ہوتی ہیں۔
1۔Holophobia روشنی کا خوف
2۔Claustrophobia بند جگہ کا خوف
3۔Agrophobia لوگوں کے ہجوم کا خوف
4۔Amltrophobia لوگوں کا خوف
5۔Aviophobia اڑنے کا خوف
6۔Aryltrophobia شرم کا خوف
7۔Latrophobia ڈاکٹر کے پاس جانے کا خوف
اس کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو خوف کے لامتناہی سلسلے ملتے ہیں۔ انسان کسی چیز سے نہیں ڈرتا بلکہ وہ اپنی لاشعوری خواہشوں سے خوف محسوس کرتا ہے۔ وہ جن خواہشوں یا ان کے خوف سے مقابلہ نہیں کر سکتا، ان کو خارجی دنیا کی کسی بھی چیز میں منتقل کر کے اس سے ڈرنے لگتا ہے۔ بعض اوقات جن چیزوں سے خوف آتا ہے اور ذہن میں وہ بار بار دہرائی جاتی ہیں تو وہ حقیقت بھی بن جاتی ہیں۔ جیسے ہوائی جہاز، کار یا بس وغیرہ کا حادثہ ذہن سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ نفسیات کی جدید تحقیق کے مطابق ذہن کی سوچ اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ سوچ جس قدر پختہ ہو گی ویسی ہی حقیقت دریافت کر لے گی۔
لوگ اکثر انجانے خوف میں بھی مبتلا دکھائی دیتے ہیں جیسے اونچائی، بند جگہیں، پانی کا خوف، لوگوں سے بیماری لگنے کا خوف، طوفان، گرج چمک کا خوف، اندھیرا، جانوروں سے ڈر یا ٹرین کی آواز سے گھبراہٹ محسوس کرنا وغیرہ شامل ہے۔ دراصل انسان کے لاشعور میں کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ محفوظ ہوتا ہے جو مستقل انجانے خوف میں سمٹ کر پریشان کرتا رہتا ہے۔ خوف یا ڈر زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ خوف illusion الیوژن ذہن کا واہمہ ہے۔ خود فریبی کی کیفیت ہے۔ جن چیزوں سے ڈر لگتا ہے انسان ان سے دور بھاگتا ہے۔ دور بھاگنے کی کوشش درحقیقت اس سوچ کو اور بھی پختہ کر دیتی ہے۔ خوف سے نجات اس وقت مل سکتی ہے جب اس حقیقت کو قبول کیا جائے۔ فرار حاصل کرنے کی کوشش مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے انھیں مزید الجھا دیتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس موضوع کے حوالے سے نیشنل جیوگرافک چینل پر ایک دلچسپ پروگرام دکھایا جا رہا تھا جس میں سائیکو تھراپسٹ ایک خوفزدہ لڑکی کو بلی کو ہاتھ لگانے کے لیے زور بھر رہا تھا، جو بلی سے حد درجہ خوفزدہ تھی۔ وہ لڑکی بلی کے خوف میں مبتلا تھی اور بلی نظر آتے ہی چیخنا شروع کر دیتی تھی۔ بہت کوشش کے بعد لڑکی نے ڈرتے ڈرتے ایک انگلی سے بلی کو چھوا اور کانپنے لگی۔
یہی وجہ ہے کہ اندھیرے کے خوف میں مبتلا لوگوں کو اندھیرے میں لے جایا جاتا ہے تا کہ وہ اندھیرے کی حقیقت کو محسوس کر سکیں۔ خوف دراصل باہر نہیں ہوتا بلکہ یہ ذہن کی اختراع ہے۔ اندھیرے کا خوف ہے تو اس تاریکی میں رسی بھی سانپ کی صورت دکھائی دے گی۔ ڈر حقیقت میں ذہنی کیفیت ہے جو بدل سکتی ہے۔ جو لوگ ڈرتے ہیں ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ انھیں ڈرپوک سمجھ کر مسترد کر دیا جاتا ہے جب کہ ڈر ایک فطری جذبہ ہے۔ جو ہر انسان میں بدرجہ اتم موجود رہتا ہے مگر اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ خوف کی کیفیت کو دبانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جو خود کو بزدل کہلوانا نہیں چاہتے۔ خوفزدہ لوگوں کا مذاق اڑانے یا خوف کو برا سمجھنے کے بجائے ہمیں اس کیفیت کو حقیقت پسندی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اکثر بچوں و بڑوں پر Panic Attack اضطراری حملے ہوتے ہیں، وہ نیند سے اچانک جاگ جاتے ہیں، بعض اٹھ کر بھاگنے لگتے ہیں۔ زور سے چلانے لگ جاتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کے افراد ان کیفیات کو نہیں سمجھ پاتے۔ یہ اضطراری حملے لاشعوری خوف کی پیداوار ہیں۔ جن کی وجہ موجودہ حالات بھی ہو سکتے ہیں۔ خون خرابے پر مبنی فلمیں، ویڈیو گیمز یا کتابیں بھی ان ذہنی کیفیات کا محرک بنتی ہیں۔
بچوں کو بچپن میں اکثر شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے ڈرایا جاتا ہے۔ ویسے بھی بچے کے ذہن میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس موجود رہتا ہے۔ جو حالات سے اس کے ذہن میں منتقل ہوتا ہے۔ والدین کے جھگڑے یا تضادات بھی بچے کے ذہن میں خوف کا احساس بھر دیتے ہیں۔ گھر میں بے جا سختی اور اسکول میں اساتذہ کے تلخ رویے بھی بچوں کے ذہنوں میں خوف کے احساس کو پختہ کر دیتے ہیں۔ بعض والدین بچوں کو حد سے زیادہ توجہ اور تحفظ فراہم کرتے ہیں یہ Over Protection حد سے زیادہ حفاظت کرنا بھی بچے کے اندر خود اعتمادی کا فقدان پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ بچہ جب گھر کی حدود سے باہر نکلتا ہے تو متضاد رویے اسے الجھا دیتے ہیں۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ بچے کی پرورش حقیقت پسندانہ انداز سے کی جانی چاہیے تا کہ وہ زندگی کی تبدیلی کو آسانی سے قبول کر سکے۔
خوف کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں۔ خوف انسان کو تغیر عطا کرتا ہے۔ وہ خوف سے لڑنے کے لیے راستے بدلنا شروع کرتا ہے۔ وہ تخلیق کا سہارا لینے لگتا ہے۔ ذات کے اظہار کے ذرایع تلاش کرنے لگتا ہے۔ دنیائے ادب کے مشہور نام کسی نہ کسی خوف میں مبتلا تھے۔ انھوں نے خوف کو ناکامی سمجھنے کے بجائے اسے کامیابی کا زینہ بنایا۔ انگریزی کے مشہور شاعر شیلے، امریکی ناول نگار ارنیسٹ ہیمنگوے، کیٹس، بائرن، لیونارڈو ڈاونچی، پکاسو، غالب، جوش، مجاز بھی نیوراتی لوگوں کی فہرست میں شامل تھے۔ مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ موت کا تصور کر کے بے ہوش ہو جاتا تھا۔ ہٹلر کا خوف Power of Persuation بنا۔ جارحانہ اور پر تشدد رویے بھی خوف کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہٹلر کئی بیماریوں میں مبتلا تھا۔ احساس کمتری و خوف اس کی طاقت بنے۔ موت کا خوف اس کی ذات پر حاوی تھا۔ وہ جب تقریر کے لیے جاتا تو اس کے اردگرد گارڈز کھڑے ہوتے تھے اور اس کا چہرہ شاذ و نادر ہی لوگ دیکھ پاتے تھے۔ یہ خوف ہی شیلے، ہیمنگوے اور ہٹلر کی خودکشی کا باعث بنے۔
زندگی کے تجربے و مشاہدے ہمارے لاشعور میں مستقل موجود رہتے ہیں۔ چاہے ہم انھیں محسوس نہ کریں لیکن پھر بھی وہ ہمارے رویوں سے غیر ارادی طور پر عیاں ہونے لگتے ہیں۔ اگر انسان اپنے لاشعور سے دوستی کر لے اور ان تمام تر دبی خواہشات، احساس محرومیوں اور ندامتوں کو ذہن کے کونوں کھدروں سے نکال کر روشنی میں لے کر آئے تو شعور نہ فقط انھیں حقیقت پسندی سے قبول کرے گا بلکہ وہ لاشعور سے بھی دوستی کر لے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ذاتی تجزیہ، حقیقت پسندانہ سوچ اور ناپسندیدہ حالات سے سامنا کرنے کی جرأت انسان کی زندگی بدل دیتی ہے۔