ہمارا ایٹم بم
ہم نے امریکی جنگ کی بہت بڑی قیمت چکادی ہے اب مزید کی گنجائش اور ہمت نہیں ہے۔
75 ہزار انسانی جانیں اورایک سو تیئیس ارب ڈالر یعنی کئی ہزار ارب روپے پاکستان جیسے غریب ملک اور اس کے امریکا کے خوشامدی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کی نذر کر دیے ۔پاکستان کے غریب عوام یہ سب دیکھتے رہ گئے لیکن امریکی خوشنودی اتنی مہنگی پڑی کہ پاکستان میں امریکی خوشامدی اور قوم بھی تلملا اٹھی۔
پاکستان جیسے غریب اور فقیر ملک کے لیے ایک بڑے کی خاطر اتنی بھاری قربانی قابل برداشت نہیں تھی لیکن داد دیجیے ہمارے خوشامدی حکمرانوں کو جنھوں نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے نہ صرف گھر لٹایا بلکہ انسانی جانیں بھی قربان کیں ۔ہمارے پاس تھا ہی کیا لیکن ذوق و شوق خوشامد نے سب کچھ کر دیا ۔
اس کا مستند انکشاف خود ہمارے حکمرانوں نے کیا ہے لیکن اس قدر قربانی کے باوجود امریکا بہادر اپنی فرمانروائی پر ڈٹا ہو اہے اور پاکستان کو اپنے پنجے میں دبوچ رکھا ہے لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ غلاموں اور خوشامدیوںکی غیرت بھی جاگ اٹھی ۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ پاکستانی غیرت زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکی اور بلبلا اٹھی اور اب ہمارے حکمران اعلان کر رہے ہیں کہ وہ صرف پاکستان کے مفاد کو ہی سامنے رکھیں گے اور سب کچھ اپنے لیے ہی کریں گے۔
جب سے پاکستان میں نئی حکومت قائم ہوئی ہے تو شنیدیہ تھی کہ امریکا سوچ سمجھ کر نئی حکومت سے اپنے تعلقات استوار کرے گا کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کی نئی حکومت امریکا کے بارے کس قسم کی سوچ رکھتی ہے اس لیے امریکی محتاط تھے اور محتاط زبان استعمال کر رہے تھے لیکن جونہی ان کے صدر کی زبان نے ذرا سی لغزش کی تو امریکیوں کو نئی حکومت کی جانب سے فوری اور غیر متوقع جواب بھی ان ہی کی زبان میں مل گیا۔
جس کے وہ عادی نہیں رہے تھے اور پاکستان کے بارے میں تو ان کا نظریہ تھا کہ یہ چند سوڈالروں کے عوض کچھ بھی بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکا امریکا ہے اور اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کا درجہ بھی رکھتا ہے، اس لیے اپنی خودمختاری کو مقدم رکھتے ہوئے امریکیوں سے معذرت ہی کر لی جائے تو بہتر ہے کیونکہ پرائی جنگ میں ہم نے جس قدر نقصان اٹھاچکے ہیں، اب پاکستان جیسے غریب ملک میں مزید سکت نہیں رہی، اس لیے امریکا بہادر کو سلام ہی کر لیا جائے تو بہتر ہے اور یہ وقت ہے کہ ستر برسوں کے بعد امریکا سے جان خلاصی ہو سکے۔اس کے بہت سارے محرکات ہیں جس کے بارے میں وقت کے ساتھ عرض کیا جائے گا ۔
امریکی غلامی کوئی نئی بات نہیں یہ وہی طوطا چشم امریکا ہے جس نے ہم روس افغان جنگ میں دھکیلا اور پاکستان کی مدد سے روسی فوجوں کو دریائے آمو کے پار واپس دھکیل دیا گیا توامریکا ہمیں اور اپنے دوست افغانوں کو اکیلا چھوڑ کر سات سمندر پار واپس اپنے وطن پہنچ گیا ۔ ایک طویل جنگ کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا دور شروع ہو گیا جس نے سب سے پہلے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور امریکی تحفہ کے طور پر پاکستانی طالبان ہمارا مقدر بنے جن کو ہم آج تک بھگت رہے ہیںلیکن ہماری بہادر افواج نے ان کا مقابلہ بے جگری سے کیا ہے اور اب پاکستانی عوام اپنی افواج کی وجہ سے سکون کا سانس لے رہی ہے۔
پاکستان میں یہ جو تبدیلی سامنے آرہی ہے یہ نئی بات نہیں ۔ ماضی کے حکمرانوں کو علم تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور دشمنوں سے مل کر اپنے اس ملک کے دشمنی پر اترے ہوئے ہیں لیکن امریکا کے سامراجی عزائم اور ارادوں نے پاکستان جیسے مدھم مزاج والے ملک کو بھی جگا دیاہے۔ یہ تبدیلی کہاں سے آئی ہے بظاہر اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن حالات نے کچھ ایسے لوگ ہمارے حکمرانوں کی صف میں داخل کر دیئے ہیں جن میں کسی حد تک پاکستانیت بھی ہے اور قومی حمیت بھی۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ تو شروع دن سے ہی آزادی اور خود مختاری کے طلب گار ہیں ۔ اب ایک حکمران ایسا آیا ہے یا لگتا ہے کہ یہ مختلف مزاج کا ہے اور قومی غیرت سے آشنا ہے ۔یہ نیا اضافہ عمران خان کے نام سے سامنے آیا ہے جسے حالات بھی ساز گار ملے ہیں اور وہ دل کی بات اور پالیسی زبان پر اور عمل میں لے آیا ہے ۔پاکستانی قوم تو ایسے لیڈر کی شروع دن سے طلبگار ہے ۔پاکستانی سیاسی لیڈروں نے کہا ہے کہ امریکی جنگ کی بھاری قیمت چکائی ہے ،75 ہزار قیمتی انسانی جانوں اور کئی ہزار ارب روپے کا نقصان برداشت کیا ہے ۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی حکمرانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنا ریکارڈ درست کر لیں ہم نے امریکا کی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا اور قربانی دی ہے۔ پاکستان نے امریکا کی خوشنودی کے لیے جو مالی اور جانی قربانیاں دی ہیںتعجب ہوتا ہے کہ پاکستان نے اتنی بڑی قربانی کس کے لیے دی ہے۔ بہر حال جو ہونا تھا وہ تو ہماری حماقتوں اور خوشامدی مزاج نے کر دیا ہے اب وزیر اعظم عمران خان نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اب صرف پاکستان کے مفاد کی بات ہو گی اور پاکستانی مفاد ہی سب سے پہلے ہو گا ۔
ہم نے امریکی جنگ کی بہت بڑی قیمت چکادی ہے اب مزید کی گنجائش اور ہمت نہیں ہے۔ اب صرف پاکستان کا مفاد ہی سامنے ہو گا ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر پاکستانی کے دل سے نکلتی ہے اور تعجب ہے کہ ہمارے حکمران کب تک اپنے قومی مفاد کو ٹھکراتے رہیں گے ۔ یہ ایک واضح بات ہے کہ ہر قوم اور ملک کو اپنا مفاد ہی عزیز ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ ملک ہے تو سب کچھ ہے نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ۔ ہمارے پاکستانی لیڈروں نے امریکا وغیرہ کو مقدم رکھا ہے جب کہ پاکستان ایک بڑی طاقت بھی تھا اور اب تو اس کے پاس ایٹم بم بھی ہے لیکن ہمیں ایک ایٹم بم اپنے حکمرانوں کے لیے بھی درکار ہے جس کے بغیر یہ ایٹم بم بے کار ہے۔